طوائفوں کی نفس کُشی

0

بعض فاسق و فاجر اور بے عمل لوگ جن سے لوگ نفرت کرتے ہیں، ایسا دل رکھتے ہیں کہ ان پر اولیاء اللہ کو بھی رشک آتا ہے۔ اسی قسم کے چند عجیب واقعات پیش خدمت ہیں۔ کرامات اولیاء میں یہ واقعہ لکھا ہے، جو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے نقل فرمایا ہے۔
ایک بزرگ جو قریشی کہلاتے تھے، جذام میں مبتلا تھے، شادی نہیں ہوئی تھی، ان کے ایک خاص مرید نے سنا کہ شیخ کو نکاح کی ضرورت ہے۔ (اس زمانے کے مرید بھی ایسے بے نفس اور اپنے شیخ کے عاشق ہوتے تھے کہ آج کل اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا) انہوں نے گھر آکر اس کا تذکرہ کیا۔ ان کی ایک جوان اور خوبصورت لڑکی تھی۔ اس نے اپنے والد کی یہ بات سنی۔ وہ بھی ایک متقی اور بے نفس باپ کی بیٹی تھی۔ نہایت نیک اور صالحہ تھی۔ اس نے اپنی حیاء و شرم پر قابو پاتے ہوئے والد سے کہا: ابو! معلوم ہوا ہے کہ آپ کے شیخ کو نکاح کی ضرورت ہے۔ (جذام کی وجہ سے کوئی ان سے نکاح کرنے پر راضی نہیں ہوگا)۔ آپ اپنے شیخ سے جا کر کہیں کہ میری بیٹی حاضر ہے۔ وہ آپ سے نکاح کرنے پر راضی ہے۔
ان مرید صاحب نے جا کر شیخ سے یہ بات کہی۔ شیخ بھی تیار ہو گئے۔ چنانچہ ان کا سادگی کے ساتھ نکاح ہو گیا اور مرید نے بیٹی رخصت کر دی۔ اب شیخ رات کو دلہن کے پاس پہنچے تو لڑکی یہ دیکھ کر حیران ہو گئی کہ ایک جوان شخص، تندرست، نہایت حسین، بڑی بڑی آنکھوں اور صراحی دار گردن والا شخص سامنے کھڑا ہے۔ لڑکی نے فوراً منہ چھپا لیا اور ڈرتے ہوئے پوچھا: تم کون ہو؟ فرمایا: میں تیرا شوہر ہوں۔ تیری دینداری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے گوارا نہیں کیا کہ وہ تجھے ایک جذامی شوہر دے۔ اس نے مجھے یہ تصرف عطا فرما دیا کہ میں اپنی صورت بدل سکوں، اب میں تمہارے پاس اسی صورت میں آیا کروں گا۔
لڑکی نے کچھ توقف کیا اور عجیب جواب دیا: کہنے لگی کہ میں نے آپ سے نکاح کا ارادہ خالص اس نیت سے کیا تھا کہ میں اپنے نفس کو اللہ کے لیے قربان کرتی ہوں اور اس میں مجھے اپنے نفس کی کوئی شرکت اور کوئی حاجت مقصود نہیں ہے۔ اب اس میں نفس کا حظ (مزہ) شامل ہو گیا ہے، اب یا تو آپ اپنی اس صورت کو چھوڑ دیں، ورنہ مجھ کو چھوڑ دیں۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ کیا ٹھکانا ہے اس للّٰہیت کا! حقیقت میں بعض لوگوں کو حق تعالیٰ اپنے ہی واسطے پیدا فرماتے ہیں۔ اس کا اصل سبب فکر آخرت ہے، یہ ایسی چیز ہے کہ نفس کے سارے تقاضوں کو مغلوب کر دیتی ہے۔
سبحان اللہ! عجیب واقعہ ہے۔ اگر یہ واقعہ حضرت تھانویؒ نے نقل نہ کیا ہوتا تو اس پر یقین کرنا ہی مشکل ہوتا، مگر یہاں پڑھنے والوں کو چند شبہات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ شیخ نے اپنے جذامی ہونے کے باوجود اس نکاح کو قبول ہی کیوں کیا؟ اس صورت میں تو یہ لڑکی پر صریح ظلم تھا۔ صورت بدلنے کا تصرف تو آپ کو بعد میں معلوم ہوا۔ راقم کو اس کی تاویل یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کشف یا الہام کے ذریعے یہ اطمینان دلا دیا ہوگا کہ لڑکی پر ظلم نہیں ہونے دیا جائے گا۔
دوسرے یہ کہ شیخ کو اتنی زبردست قوت متخیلہ عطا ہوئی تھی کہ وہ اس قوت سے عارضی طور پر اپنی صورت بدل سکیں۔ تیسرے یہ کہ لڑکی کا تقویٰ اور حیرت انگیز للّٰہیت کی وجہ سے حق تعالیٰ نے یہ معاملہ فرمایا۔ اس صورت میں یہ
لڑکی کی کرامت ہو گی۔ (ملفوظات حکیم الامت۔ ج۔2۔ ص 238۔ تسھیل الفاظ۔ از راقم)
جوتے کا کرشمہ
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ کسی کے فسق و فجور کو دیکھ کر اس شخص کی تحقیر سے بچنا واجب ہے۔ البتہ اس کے برے اعمال سے نفرت بھی ضروری ہے، جیسے کسی مریض کو دیکھ کر اس پر رحم آتا ہے۔ اسی طرح اس فاسق کو گناہ میں مبتلا دیکھ کر رحم کرنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ یہ راہ ہدایت پر آجائے۔ فرماتے ہیں کہ
مولوی رحم الٰہی منگوری صاحب مرحوم کا ایک عجیب واقعہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ سنت اللہ ہے کہ جہاں اللہ والے ہوتے ہیں، وہاں ان کے مخالف بھی ہوتے ہیں۔ مولوی صاحب کے پڑوس میں ان کے مخالف بھی رہتے تھے۔ مخالفین کی دو قسمیں ہیں: بعض تو مخالفت میں کوئی نازیبا حرکت نہیں کرتے، لیکن بعض میں خبث باطن ہوتا ہے، وہ صرف مخالفت پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ دوسروں کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتے ہیں۔
ان کے مخالفین نے ایک مرتبہ یہ حرکت کی کہ مولوی صاحب کے محلے میں ایک چوک تھا، مسجد کا راستہ اسی چوک سے گزرتا تھا۔ ان لوگوں نے اس چوک میں گانے بجانے کا پروگرام کیا اور اس میں ایک طوائف کی مجلس رقص قائم کی۔ مولوی صاحب گھر سے مسجد جانے کے لیے نکلے تو راستے میں یہ طوفان بدتمیزی دیکھا۔ سخت غصہ آیا، لیکن چونکہ نماز کا وقت قریب تھا، غصے کو پی کر نماز کے لیے مسجد چلے گئے۔ نماز مکمل کر کے جب واپس ہوئے تو دوبارہ دیکھ کر صبر نہیں ہو سکا۔ آخر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے، اپنا جوتا نکال کر ہاتھ میں لیا اور سیدھے مجمع کے درمیان سے ہوتے ہوئے طوائف تک پہنچے اور اس کے سر پر جوتا بجانا شروع کر دیا، مگر مخالفوں کے مجمع میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ کچھ بولتا۔ چونکہ مولوی صاحب کا یہ سارا غصہ اور ہمت حق کے واسطے تھی، ویسے بھی اللہ والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہیبت عطا ہوتی ہے۔
اب دیکھئے کہ اس واقعے کا کیا اثر ہوا؟ مجلس تو فوراً ہی ختم ہو گئی، لیکن مخالفین کے شریر لوگوں نے اس عورت سے کہا کہ تم اپنی بے عزتی کا بدلہ لو اور ان کے خلاف مقدمہ کرو۔ ہم سارا خرچہ اٹھائیں گے اور گواہی بھی تمہارے حق میں دیں گے۔ اس عورت نے کہا کہ روپیہ تو میرے پاس بھی بہت ہے، گواہ بھی تم لوگ ہو، مگر میرا دل کچھ اور ہی سوچ رہا ہے۔ جس شخص کا تم مقابلہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہو، وہ خالص اللہ والا ہے۔ کیونکہ اگر اس شخص کے قلب میں دنیا کا
ذرا سا بھی شائبہ ہوتا تو وہ یہ حرکت کبھی نہ کرتا۔ اس لئے اس کا مقابلہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا مقابلہ ہوگا، وہ سب خاموش ہو کر چلے گئے۔
پھر اسی پر بس نہیں کیا، وہ عورت بعد میں مولوی صاحب کے پاس پہنچی اور معافی کی درخواست کی اور کہا: مولوی صاحب! مجھے اس فعل سے توبہ کرا دیجئے اور کسی نیک شخص سے میرا نکاح کرا دیجئے۔ مولوی صاحب نے اسے توبہ کرا دی اور کوشش کر کے اس کا ایک شخص سے نکاح کرا دیا، وہ پردہ میں بیٹھ گئی اور بہت نیک ہوگئی۔
واقعی عجیب واقعہ ہے۔ مولوی صاحب کی تو حق گوئی کی برکت تھی، مگر حقیقت میں اس عورت کا بھی بڑا ہی نفس کشی کا واقعہ ہے، اللہ تعالیٰ نے ہدایت عطا فرما دی۔ دیکھ لیجئے بزرگوں کی جوتیوں سے بھی ہدایت کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کام خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کام میں مدد فرماتے ہیں۔
حضرت تھانویؒ نے اس واقعے پر ہونے والے ایک اشکال کا جواب دیا ہے۔ آپ اس واقعے کا ذکر کر کے فرما رہے تھے کہ کسی کی تحقیر نہیں کرنی چاہئے، بلکہ ہر شخص کے متعلق احتمال کے درجے میں یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ ممکن ہے اس میں اللہ کے نزدیک کوئی بات ہم سے بہتر ہو۔ اس عورت کو دیکھئے! اس کے فہم اور خلوص کی کس کو خبر تھی۔ مولوی صاحب کی برکت کے متعلق مجلس میں موجود ایک صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ برکت کا اثر بھی ہر شخص پر نہیں ہوتا۔ دیکھئے! انبیاء کی برکت ابوجہل اور ابوطالب کے لیے کارگر نہیں ہوئی اور تو کس کا منہ ہے کہ وہ ایسی برکت کا دعویٰ کرے۔ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔
دوسرا واقعہ
حضرت تھانویؒ نے اسی مناسبت سے ایک اور طوائف کا واقعہ نقل فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ حکایت حضرت مولانا گنگوہیؒ نے نقل فرمائی ہے کہ گنگوہ میں ایک آزاد درویش آیا۔ اس کی بہت شہرت ہوئی۔ ایک آوارہ عورت نے ان کی شہرت سن کر اپنے آشنا سے کہا کہ چلو! ہم بھی اللہ والے کی زیارت کر آئیں۔ دونوں اس درویش کے مقام پر گئے۔ مرد تو شاہ صاحب کے پاس جا کر بیٹھ گیا، یہ عورت شرمندگی کی وجہ سے ایک طرف بیٹھ گئی۔
شاہ صاحب نے پوچھا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ بازاری عورت ہے، آپ کی زیارت کو آئی ہے، مگر اپنے پیشے کی وجہ سے شرمندہ ہے اور پاس آنے سے رکتی ہے۔ وہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ بی پاس آجائو۔ شرمندگی کی کون سی بات ہے، وہی کرتا ہے، وہی کراتا ہے۔ (معاذ اللہ) یہ الفاظ اس عورت نے سنے تو اس کے سر سے پیر تک آگ لگ گئی۔ کھڑی ہو گئی اور اس آشنا کو سخت برا بھلا کہا کہ تو تو اس کو بزرگ بتلاتا تھا، یہ تو مسلمان بھی نہیں۔ یہ کہہ کر وہاں سے فوراً چل دی۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اس بے چاری جاہل عورت نے کیسے فہم کا ثبوت دیا اور بغض فی اللہ اس میں کس درجے کا تھا کہ بیٹھ نہ سکی، خاموش نہیں رہ سکی اور چلی گئی۔
فرماتے ہیں: بھلا ان واقعات کو سن کر کوئی کسی کی کیا تحقیر کر سکتا ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت ج۔2۔ص۔247 تا 239)
اسی لیے ضروری ہے کہ کسی فاسق فاجر آدمی کے برے اعمال دیکھ کر اس کی تحقیر سے بچا جائے۔ ہر شخص کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جدا ہے، کون اللہ کے نزدیک اچھا ہے، کون برا؟ اس کا علم تو مرنے کے بعد ہی ہوگا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More