سرفروش

0

عباس ثاقب
اس دوران ظہیر نے مانک کے گورکھے چوکیدار سے ہتھیائی ہوئی دو نالی شاٹ گن بھی اسلحے کی بوری میں منتقل کر دی اور ستلی سے ایک بار پھر بوری کا منہ مضبوطی سے بند کر دیا۔ تبھی جمیلہ ناشتہ لے کر آگئی۔ ناشتے کے دوران آئندہ کے لائحہ عمل پر بات ہوتی رہی۔ میں نے چھاجلی میں امردیپ کے گھر جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو ظہیر اور یاسر دونوں کچھ پریشان ہوگئے۔
اپنے اندیشوں کے اظہار کی ابتدا ظہیر نے کی ’’جمال بھائی، ایک دو دن مزید پولیس کی دوڑ دھوپ ٹھنڈی ہونے کا انتظارکرلیتے تو اچھا تھا۔ میرا خیال ہے آپ کسی خاص کام سے تو وہاں نہیں جارہے‘‘۔
میں نے کہا ’’نہیں، چھاجلی جانے کے پس پردہ کوئی خاص مقصد تو نہیں ہے، لیکن مجھے پتا ہے وہ لوگ میرے اس طرح، بغیر کسی خیر خبر کے غائب ہونے پر پریشان ہوں گے۔ ان کی نظر میں تو میں پردیس سے پہلی بار گھومنے پھرنے کے لیے ہندوستان آنے والا ایک نوجوان ہی ہوں۔ امردیپ تو پھر بھی کچھ واقف ہے کہ مجھے خود پر پڑنے والی افتاد سے نمٹنا آتا ہے، لیکن اس کے بزرگ والدین اور بھائی کافی فکر مند ہوں گے‘‘۔
ظہیر نے کہا ’’یہ بات تو آپ درست کہہ رہے ہیں۔ پھر ان کی قیمتی جیپ بھی مسلسل آپ کے قبضے میں ہے۔ اب تو پٹیالے کا سکھوں کا میلہ بھی ختم ہو چکا ہوگا‘‘۔
میں نے کہا ’’جیپ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ امردیپ نے مجھے زور دے کر کہا تھا کہ جب تک چاہوں اسے اپنے استعمال میں رکھ سکتا ہوں۔ لیکن ان کی تسلی کے لیے کم ازکم ایک بار وہاں جانا میں اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ اور آپ دونوں بے فکر ہوجائیں۔ میں بس کے ذریعے تنہا وہاں جاؤں گا تو کوئی مجھ پر شک نہیں کرے گا‘‘۔
یاسر نے کہا ’’اگر آپ یہی مناسب سمجھتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ اچھا ایسا کریں، میں آپ کو سپلائی والی موٹر سائیکل پر سرہند لے چلتا ہوں۔ وہاں سے صبح دس بجے ایک بس نابھا اور مانسا کے راستے بٹھنڈا جاتی ہے۔ آپ راستے میں سونام کے بس اڈے پر اتر جانا۔ میرا خیال ہے بس پونے تین گھنٹے لے گی۔ سونام سے آپ کو چھاجلی کے لیے تانگا مل جائے گا‘‘۔
میں نے کہا ’’سونام سے آگے کا راستہ تو مجھے معلوم ہے۔ یہ ٹھیک رہے گا۔ میرا خیال ہے ہمیں کچھ ہی دیر میں روانہ ہونا ہوگا۔ ہمیں سرہند پہنچنے میں بھی تو وقت لگے گا‘‘۔
یاسر نے بتایا ’’ہمیں اتنی عجلت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سرہند کا یہاں سے فاصلہ سات آٹھ میل سے زیادہ نہیں ہے۔ ہم بیس پچیس منٹ میں باآسانی وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ ویسے بھی وہ دیہاتی ٹائپ کی بس ہے بھائی۔ سال میں ایک آدھ بار ہی عین وقت پر اڈا چھوڑتی ہوگی‘‘۔
یاسر کی بات سن کر ظہیر اور میں نے قہقہہ لگایا۔ لیکن پھر ظہیر نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ویسے تو ان شاء اللہ آپ کسی خطرہ سے دو چار ہوئے بغیر اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے اور بخیر و عافیت واپس آجائیں گے۔ لیکن پھر بھی ریوالور ضرور ساتھ رکھیے گا‘‘۔
میں نے جواب دیا۔ ’’تم فکر نہ کرو چھوٹے بھائی، میں نہ صرف لوڈڈ گن اپنے پاس رکھوں گا، بلکہ پوری طرح محتاط بھی رہوں گا۔ مجھے پتا ہے ہم لاپروائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دشمن کو غافل سمجھنا خودکشی کے مترادف ہوتا ہے‘‘۔
میری بات سن کر وہ دونوں خوش ہوگئے۔
ان سے اجازت لے کر میں اندر جمیلہ اور رخسانہ کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ میں کل تک کے لیے اپنے ایک دوست کے گاؤں جارہا ہوں۔ اگر ایک آدھ دن زیادہ لگ جائے تو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ گاؤں کا سن کر جمیلہ نے ساتھ لے جانے کی فرمائش کی، جو میں نے بعد میں کسی وقت کا کہہ کر ٹال دی۔ سوا نو بجے کے قریب یاسر ایک موٹر سائیکل پر مجھے ساتھ لے کر جی ٹی روڈ کے راستے سرہند کی طرف روانہ ہوا۔ اپنی دگرگوں ظاہر ی حالت کے برعکس موٹر سائیکل کا انجن عمدہ حالت میں تھا اور اس نے راستے میں کہیں تنگ نہیں کیا۔
خاصی مصروف سڑک پر درمیانی رفتار سے لگ بھگ پچیس منٹ کا سفر طے کرکے ہم سرہند کے تاریخی قصبے کے بس اڈے پر پہنچ گئے۔ بٹھنڈا جانے والی خستہ حال بس بظاہر روانگی کے لیے تیار تھی، لیکن اس میں ابھی آٹھ دس مسافر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ یاسر نے موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کرکے وہاں موجود ڈھابے سے چائے پلانے کی پیشکش کی، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اس پر وہ مجھے ساتھ لے کر بس میں سوار ہوگیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More