شیطانی مجسمہ واپس پنجاب یونیورسٹی بھجوادیا گیا

0

نجم الحسن عارف
لاہور میوزیم کی انتظامیہ نے ہائی کورٹ میں درخواست کے اندراج اور سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل کے بعد شیطان کے مجسمہ کو اکھاڑ کر واپس پنجاب یونیورسٹی بھجوا دیا ہے۔ اس مجسمے کی پہلی نمائش تقریباً دو ماہ قبل پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس کے ایک طالب علم ارتباط الحسن نے اپنے تھیسز کے طور پر کی تھی۔ بعد ازاں شہر میں ڈانس پارٹیاں منعقد کرنے کے حوالے سے شہرت رکھنے والے امتثال ظفر نے اسے نومبر میں مخلوط محفلوں میں متعارف کرایا۔ اس سلسلے میں امتثال ظفر نے اپنی فیس بک آئی ڈی سے دی گئی پارٹی کی دعوت میں اس ’’شیطان‘‘ کا بھی بطور خاص حوالہ دیا اور بیدیاں روڈ پر ایک فارم ہائوس میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے رکھی گئی لیٹ نائٹ ڈانس پارٹی میں اس کی اسٹیج پر نمائش کی گئی۔ جس کے سامنے رات بھر ڈانس کیا گیا اور مختلف روشنیوں سے اس مجسمہ شیطان کو نمایاں کیا گیا۔
دوسری جانب شیطانی مجسمے کے تخلیق کار ارتباط الحسن چیمہ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اصرار تھا کہ اس نے شیطان کا مجسمہ نہیں بنایا۔ بلکہ یہ انسان کے اندر چھپی ہوئی منفی سوچ اور اس کے برے اعمال کو اس مجسمہ کی صورت میں ظاہر کیا۔ ارتباط الحسن چیمہ نے اپنے دعوے میں کہا ’’میں بھی بوقت ضرورت جھوٹ بول لیتا ہوں۔ مجھے اس اپنے منفی کردار کا احساس ہے اور میں اس پر غور بھی کرتا رہتا تھا۔ اسی لئے میں نے انسان کے اندر چھپی منفی جبلتوں کو ظاہر کیا ہے۔ اس کا سینگ اس لئے ٹوٹا ہوا دکھایا ہے کہ انسان جب وحشت اور حیوانیت کے آخری درجے میں چلا جاتا ہے تو وہ اپنا بھی نقصان کرلیتا ہے۔‘‘
ارتباط چیمہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس کے ’’مائنڈ‘‘ پروفیسر حبیب عالم تھے جن کی رہنمائی میں انہوں نے پانچ ماہ تک اس مجسمے کو تیار کیا۔ اس کے بقول مجسمہ کی لاگت پونے چار لاکھ آئی۔ لیکن کوئی بھی اسے خریدنے کو ابھی تک تیار نہیں ہوا ہے۔ اس کی اونچائی 16 فٹ ہے اور وزن اس قدر زیادہ ہے کہ اسے اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھنے کیلئے بیس افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ارتباط کے بقول اس کی عوامی سطح پر یہ پہلی نمائش تھی جو عجائب گھر لاہور کے سبزہ زار میں ہوئی اور تقریباً چھ دن جاری رہی۔ اب گھر والوں نے اسے واپس پنجاب یونیورسٹی بھجوادیا ہے۔ ارتباط کے بقول اس سے پہلے اس کی نمائش یونیورسٹی کے مین ہال میں تھیسز کے آخری مرحلے پر ہوئی تھی جو ماہ نومبر کے اختتام میں ہوئی تھی۔ بعدازاں ارتباط کے بقول انہوں نے اسے ایک ’’ویئر ہائوس‘‘ میں رکھوا دیا تھا۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کو ذرائع سے معلوم کیا ہے کہ اس شیطانی مجسمے کی بنیاد پر لاہور شہر کے اس حصے میں جہاں طبقہ امراء کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی مخرب الاخلاق ڈانس پارٹیاں اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ ماہ نومبر کے وسط میں امتثال ظفر نامی ایک شخص نے اس شیطان کو ایک ڈانس پارٹی میں بطور خاص اسٹیج پر سجایا تاکہ ماحول پر اس مجسمے کا اثر نمایاں رہے۔ تاہم مجسمے کو خالصتاً تعلیمی مقاصدکیلئے ظاہر کرنے والے ارتباط کا دعویٰ ہے کہ اس ڈانس پارٹی میں وہ نہیں گیا تھا۔ نہ ہی اس کے دوست اور اساتذہ گئے تھے۔ اس کے بقول امتثال کے بارے میں اسے پہلے علم نہیں تھا کہ وہ ڈانس پارٹیوں کا شوقین ہے۔ اب پتہ چلا ہے کہ وہ ایسا شخص ہے۔ ارتباط کے بقول امتثال نے مجھ سے یہ مجسمہ ویئر ہائوس میں رکھنے کیلئے حاصل کیا تھا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وسط نومبر میں اسے ڈانس پارٹی کیلئے کس علاقے میں لے جایا گیا تھا۔ تاہم ایک سوال پر ارتباط نے کہا میں نے اس ڈانس پارٹی کی ویڈیوز ضرور دیکھی ہیں، جو میں آپ سے اس لئے شیئر نہیں کرسکتا کہ وہ اب میرے پاس نہیں ہیں۔ ارتباط کے بقول عجائب گھر والوں نے خود یونیورسٹی سے درخواست کرکے یہ مجسمہ حاصل کیا تھا۔ تاکہ وہ عجائب گھر آرٹ سے متعلق اپنی ایک ایک آئندہ نمائش میں دکھا سکے۔ لیکن ابھی اس نمائش کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی ہے کیونکہ باقی فن پارے نہیں پہنچے ہیں۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ عجائب گھر میں کسی اس طرح کے مجسمے کو سرعام اپنے سبزہ زار میں جگہ دینے کا یہ پہلا تجربہ ہے کیونکہ عجائب گھر کے ہال میں اسے رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ عجائب گھر کے ذرائع کے مطابق نمائش کیلئے ابھی بہت سے فن پاروں کی آمد بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اب انتظامیہ نے اس نمائش کو فی الحال موخر کردیا ہے۔ اور مجسمہ جسے لوگوں نے شیطانی مجسمہ سمجھ کر ردعمل دیا ہے اسے واپس پیک کرکے پنجاب یونیورسٹی کو بھجوا دیا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق آرٹسٹ نے بتایا تھا کہ اس مجسمے میں انسان کے اندر چھپی وحشت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اس سبزہ زار میں پہلے بھی چیزیں نمائش کیلئے کبھی کبھی لگادی جاتی ہیں لیکن ان میں عام طور پر قرآن پاک سے متعلق یا دوسری پینٹنگز ہوتی ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک شیطانی مجسمہ سجایا گیا۔ انتظامیہ نے اس کیخلاف عدالت میں دائر کی گئی درخواست کے ساتھ ہی اس پر کپڑا ڈال دیا تھا اور اب اسے یونیورسٹی والوں کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔ واضح رہے میڈیا اور سوشل ویب سائٹس پر سخت ردعمل کے بعد اس مجسمے سے متعلق سبھی افراد اور ادارے دفاعی پوزیشن پر آگئے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ڈانس پارٹی کے شرکاء کی محبت پانے والے ایسے ابلیسی مجسمہ کو مال روڈ پر نمائش کیلئے رکھا گیا، جس پر عوام نے پہلی ہی بار سخت برا منایا۔ جبکہ اس مجسمے کے تخلیق کار کا دعویٰ ہے کہ اسے مثبت ردعمل بھی ملا ہے۔ لیکن ابھی تک اس کا کوئی خریدار نہیں ملا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More