نئے چیف جسٹس سے عوامی توقعات

0

پاکستان کی سب سے بڑی عدالت (سپریم کورٹ) کے نئے قاضی القضاۃ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ روز اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ جسٹس ثاقب نثار کی اپنے عہدے سے سبکدوشی کے بعد وہ پاکستان کے چھبیسویں چیف جسٹس ہیں۔ جمعہ کے روز ایوان صدر میں حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں صدر مملکت عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، مسلح افواج کے سربراہان، سپریم کورٹ کے ججز اور وفاقی وزرا سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ صدرِ مملکت نے جسٹس آصف سعید کھوسہ سے بطور چیف جسٹس آف پاکستان عہدے کا حلف لیا۔ عدلیہ ریاست کے تین بڑے ستونوں میں سے ایک ہے۔ جس کا سربراہ اتنا بااثر ہوتا ہے کہ اس کے فیصلے سے نہ صرف حاکم وقت اقتدار سے محروم ہوسکتا ہے۔ اس لئے چیف جسٹس کا عہدہ بھی ملک کے تین اہم ترین کلیدی عہدوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس عہدے پر اب تک پچیس شخصیات فائز ہوئی ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بعض فیصلے اگرچہ قانونی اور عوامی حلقوں میں متنازعہ قرار پائے۔ مگر مجموعی طور پر ان کی کارکردگی بہت بہتر رہی۔ وہ ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار درد دل رکھنے والے جج تھے۔ ان کے بعض تاریخی فیصلوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انسان ہونے کی حیثیت سے ہر فرد اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ لیکن جس کی اچھائیاں برائیوں پر غالب ہوں، اسے اچھا شمار کیا جاتا ہے۔ باقی غلطیوں سے مبرا یا تو نبی ہوتا ہے یا فرشتہ۔ عدلیہ کے جج آئین و قانون کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ان فیصلوں سے عوامی جذبات کو ٹھیس بھی پہنچتی ہے۔ مگر ججوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ قانون سے سرمو انحراف نہیں کرسکتے۔ جسٹس (ر) ثاقب نثار نے بعض معاملات میں ذاتی دلچسپی سے ازخود نوٹس لے کر مظلوموں کو انصاف دلایا۔ قصور کی معصوم بچی زینب اس کی واضح مثال ہے۔ بڑے بڑے لٹیروں کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا، جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ حاکم وقت کی ناراضی کی پروا کئے بغیر پاکپتن کے ڈی پی او رضوان گوندل کے ٹرانسفر پر از خود نوٹس لے کر یہ تبادلہ منسوخ کیا۔ موجودہ حکومت کے سابق وفاقی وزیر، اعظم سواتی نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو اس پر ثاقب نثار نے ایکشن لیا۔ اعظم سواتی عہدے سے مستعفی ہو کر اب پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کراچی کے شاہ زیب نامی نوجوان کے قاتل شاہ رخ جتوئی کو جیل میں ملنے والی عیاشیوں پر متعلقہ حکام کو سزا دی اور مجرم کو واپس ڈیتھ سیل بھیج دیا۔ شرجیل میمن کو جیل سے بیماری کے بہانے اسپتال لاکر سہولیات دی گئیں تو چیف جسٹس نے چھاپا ما کر وہاں سے شراب کی بوتلیں برآمد کیں۔ ثاقب نثار اکتیس دسمبر دو ہزار سولہ کو پاکستان کے پچیسویں پاکستان کے چیف جسٹس بنے تھے۔ دو سال سترہ دن اس عہدے پررہے اور ایک لاکھ سے زائد سائلین کو انصاف فراہم کیا۔ جبکہ کئی تاریخی فیصلے بھی صادر کئے۔ ان کے اہم ترین فیصلوں میں پاناما کیس کے تحت سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی عہدے سے برطرفی اور پھر نااہلی بھی شامل ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا۔ علاوہ ازیں بھاری فیسیں لینے والے پرائیویٹ اسکولوں کو لگام دی۔ استحقاق نہ رکھنے والوں سے سیکورٹی واپس لینے کا حکم دیا۔ موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے عوام کو لوٹنے کا نوٹس لے کر سو روپے کے کارڈ میں چالیس روپے کے ٹیکس کو ختم کردیا۔ اسی طرح منرل واٹر کی بے لگام کمپنیوں کو ٹیکس دینے کا پابند کیا۔ کراچی میں دہائیوں سے سرکاری زمینوں پر قبضوں اور تجاوزات کو ہٹانے کا حکم دیا۔ مفاد عامہ کے مقدمات کو وہ ہفتہ وار تعطیل کے دن بھی عدالت لگا کر سنتے رہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے کئی فیصلے سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔ عدالتی امور سے ہٹ کر بھی انہوں نے ملک کو درپیش انتہائی سنگین نوعیت کے مسائل پر عملی اقدام اٹھایا،جن میں پانی کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ ڈیموں کی تعمیر کیلئے فنڈ قائم کر کے انہوں نے پانی کی ضرورت و اہمیت کو اتنا اجاگر کیا کہ اب میڈیا میں بھی ایک اہم ایشو بن گیا ہے۔ تاہم اس سے ایک خرابی یہ پیدا ہوئی کہ عدالتی امور سے ان کی توجہ ہٹ گئی اورسپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ جب ثاقب نثار چیف جسٹس بنے تھے تو ان مقدمات کی تعداد تیس ہزار تھی، اب یہ تعداد چالیس ہزار پانچ سو چالیس ہو چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ سیاسی کیسوں کو تو ثاقب نثار نے بعجلت نمٹالیا، مگر سانحہ بلدیہ، کراچی بدامنی، بارہ مئی اور ماورائے عدالت قتل سمیت کئی بڑے مقدمات ہنوز لٹکے ہوئے ہیں۔ نئے چیف جسٹس، آصف کھوسہ اکیس دسمبر انیس سو چوّن کو ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ وہ جامعہ پنجاب اور کیمبرج یونیورسٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بائیس مئی انیس سو اٹھانوے کو لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے اور رواں برس کے آخر میں ہی اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ جسٹس کھوسہ بطور جج پچپن ہزار مقدمہ کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ وہ ان ججز میں سے ہیں، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی ایمرجنسی کے دوران تین نومبر دو ہزار سات کو پی سی او کا حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سماعت ملتوی کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ ہونا بھی یہی چاہئے کہ فیصلہ جلد از جلد سنایا جائے، تاکہ بروقت انصاف مل سکے۔ جبکہ عدالتی نظام کی بہتری کیلئے بھی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ مقدمات کے جلد فیصل ہونے کی راہ میں حائل ساری رکاوٹیں دور ہوسکیں۔ اس وقت ماتحت عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ججز اور عدالتی عملے کی کمی کو پورا کرے۔ نئے چیف جسٹس نے مقدمات کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ وہ اپنے عزم پر پورا اتریں گے۔ ان کا تدبر اور قابلیت مسلمہ اور شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ اس لئے قوم ان سے بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ ایسے مقدمات میں خصوصی دلچسپی لیں گے جو قومی مفادات اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔ اگرچہ ان کے اس عہدے کی مدت صرف تین سو سینتیس دن ہے۔ مگر وہ اپنی صلاحیتوں، اعلیٰ کارکردگی اور قوت فیصلہ کے بل بوتے پر اس مختصر عرصے میں زیادہ سے زیادہ مقدمات بھی نمٹائیں گے اور ایسے فیصلے بھی کریں گے، جو دور رس مثبت نتائج کے حامل اور عوامی امنگوں کے مطابق ہوں۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More