خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے

0

امن و امان کے بعد ہر حکومت کی بنیادی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ عام شہری کی مشکلات دور کر کے ان کی زندگی آسان بنائے۔ اس میں مہنگائی کو کم کرنا، ٹیکسوں میں اضافے کو روکنا اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنا شامل ہے۔ بعض حکومتوں کو ماضی کے حکمرانوں سے ورثے میں معاشی مسائل ملتے ہیں، جنہیں اپنے حسن تدبیر سے دور کرنا آنے والی حکومت کا فرض قرار پاتا ہے۔ ابتدائی قدم کے طور پر مہنگائی اور ٹیکسوں کے بجائے انہیں فوری طور پر اپنی جگہ روکنا ضروری ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے نام، منشور اور وعدوں، دعوئوں کے بالکل برعکس مہنگائی اور بے روزگاری کو آگے بڑھنے سے روکنا تو درکنار، برسراقتدار آتے ہی ان میں تیز رفتار اضافہ کیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے والا متوسط طبقہ اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان سے متنفر اور حکومت سے بیزار نظر آتی ہے۔ اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات یعنی حکومتی پروپیگنڈا ٹیم کے سربراہ فواد چوہدری نے اعتراف کیا ہے کہ ہمارے ہاتھ معاشی مسائل کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں اور یہ مسائل انہیں سابقہ حکومت سے ورثے میں ملے ہیں۔ ہمیں سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اس طبقے کو ریلیف نہیں دے سکے، جو ہمیں ووٹ دے کر اقتدار میں لایا۔ بعض باخبر حلقے تو کچھ دوسرے مقتدر طبقوں کو بھی ذمے دار قرار دیتے ہیں کہ ان کی تائید و حمایت سے تحریک انصاف 2018ء کے عام انتخابات میں برسر اقتدار آئی۔ اس بات سے قطع نظر کہ عمران خان کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا کرانے میں کن کن قوتوں اور طبقوں نے کام کیا۔ اصل توجہ طلب امر یہ ہے کہ ہر اچھی حکومت ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں کی رٹ لگانے اور انہیں دوہرانے کے بجائے انقلابی اقدامات کے ذریعے ملک بھر کے عوام کو فوری طور پر بعض سہولتیں فراہم کر کے انہیں آسانی سے سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ موجودہ حکومت نے یہ کام ایک فیصد بھی نہیں کیا، بلکہ لوگوں پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا مزید بوجھ لاد کر ان کی زندگی پہلے سے زیادہ اجیرن کردی ہے۔ فواد چوہدری ہر نئی حکومت کے اسی رٹے پٹے جملے کی جگالی کررہے ہیں، کہ ہمیں سابقہ حکومت سے ورثے میں مسائل ملے، اس سے ہمارے ہاتھ معاشی طور پر بندھے ہوئے ہیں۔ اگر تحریک انصاف اتنی ہی نااہل تھی اور اس کے پاس عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا تو پچھلی حکومت کیا بری تھی، جس نے بہت کچھ کھا پی کر بھی مہنگائی کو ایک مقام پربرقرار رکھا۔ اب اس میں نئی حکومت مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ ان کی حکومت اس متوسط طبقے کو ریلیف نہیں دے سکی، جس نے انہیں ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا۔ حکومت کی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ بلاتفریق ملک بھر کے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرے۔ بلکہ اس کی توجہ کا اصل مرکز غریبوں کا وہ مظلوم طبقہ ہونا چاہئے، جو ستر برسوں سے صاف پانی، آلودگی سے پاک فضائ، مناسب خوراک، علاج اور تعلیم سے محروم ہے اور جن کے خون پسینے کی کمائی سے حکمران طبقے ہمیشہ داد عیش دیتے چلے آرہے ہیں۔ وہ جیل کے اندر بھی ہوں تو انہیں بہترین علاج اور خوراک سمیت تمام سہولتیں ہی نہیں آسائش و عیاشی کے تمام مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ اپنے نام کے برعکس تحریک انصاف کے دور میں بھی یہی سب کچھ ہوتا رہے تو اہل وطن کے لیے اس کا وجود اور عدم وجود برابر ہے۔ حکومت کی اقتصادی ناکامیوں کے مظاہر قدم قدم پر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کیلئے تحریک انصاف کی حکومت کے پاس بھی آئی ایم ایف سے قرضے کی بھیک مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ مذاکرات اب تک تعطل کا شکار ہیں۔ صرف سعودی عرب سے قرضہ اور ادھار تیل ملنا شروع ہوا ہے۔ قطر نے ادھار تیل دینے سے معذرت کرلی ہے، چین سے معاملات ابھی طے پارہے ہیں، تاہم اس سے ملنے والے قرضے پر آٹھ فیصد سود ادا کرنا ہوگا۔ روس سے سرمایہ کاری کے معاہدوں کی اب تک صرف خبریں آئی ہیں۔ عمران خان کی حکومت رواں مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں دو ارب تیس کروڑ ڈالر قرض لے چکی ہے۔ اقتصادی امور ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اس مدت کے دوران سابقہ حکومت پانچ ارب نوے کروڑ ڈالر کا بیرونی قرضہ لینے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ کسی حکومت کا زیادہ قرضہ لینا کوئی مستحسن اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا، لیکن پچھلی حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی دنیا بھر میں بھیک کا کشکول لیے پھر رہی ہے، لیکن اس پر آئی ایم ایف سمیت عالمی برادری کا اعتماد بہت کم نظر آتا ہے۔ موجودہ حکومت کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ اسے ادائیگیوں کے بدترین بحران کا سامنا ہے، جون تک پانچ ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ مشہور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ دوست ممالک پر کب تک اور کتنا انحصار کرسکتے ہیں؟ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر یکم فروری 2019ء کو صرف آٹھ ارب اُنیس کروڑ ڈالر تھے، جب کہ فی الحال اس میں اضافے کے امکانات بھی نظر نہیں آتے۔
کچھ تو خدا کا خوف کریں
ملازمتوں سے برطرف کیے جانے والے اور گزشتہ چھ ماہ کے دوران تنخواہوں سے محروم رہنے والے صحافیوں کے لیے یہ خبر کسی قدر خوش کن ہوسکتی ہے کہ سندھ اسمبلی نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جانے والے سرکاری اشتہارات کے بقایا جات اور ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایوان کو یقین دلایا ہے کہ حکومت سندھ تمام بقایاجات کی ادائیگی کو یقینی بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ادائیگیوں کے لیے تھرڈ پارٹی آڈٹ کا انتظار کر رہے ہیں، وہ آجائے تو ہم
ادائیگیاں کریں گے۔ اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ اور ذرائع ابلاغ کے مالکان سے صرف یہ دریافت کیا جا سکتا ہے کہ ملازمتوں اور تنخواہوں سے محروم صحافیوں کے گھروں میں فاقے تو آج پڑ رہے ہیں۔ ان کے پاس بچوں کی فیسیں ادا کرنے اور علاج کرانے کے بھی پیسے نہیں ہیں، لیکن انہیں اب تک صرف زبانی یقین دہانی پر ٹرخایا جا رہا ہے۔ حکومت سندھ کو پارٹی آڈٹ کا انتظار ہے۔ اس کے بعد وہ ذرائع ابلاغ کے مالکان کو اشتہارات کی مد میں کیا اور کب ادا کرے گی اور پھر صحافیوں کو ادائیگی کی باری کب آئے گی؟ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More