ہرا اٹیچی (پہلا حصہ)

0

ہم دونوں اپنے مختصر سے زاد راہ کے ساتھ جدہ سے مکہ مکرمہ پہنچے۔ یہ مختصر سا زاد سفر صرف ایک ہرا اٹیچی تھا، جو ہمارے حرمین کے سفر میں ہر مرتبہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ چودہ سال پہلے مکہ ہی کے محلہ مسفلہ کے بنگالی پاڑے سے 40 ریال کا خریدا گیا تھا۔ یہ اٹیچی دراصل ایک کوزہ تھا، جس میں دریا بند ہوتا تھا، اس میں چار مردانے، زنانے جوڑے، دو مردانہ احرام، زور مرہ استعمال کی ہر چھوٹی بڑی چیز (قینچی، سوئی دھاگہ، خلال، صابن، ٹوتھ پیسٹ، برش، کنگھی، کٹر پلاس دوائیں) رکھی ہوئی تھی۔ اس زاد راہ کے ساتھ کبھی پریشانی نہیں ہوئی۔ سفر بھی آسان، سامان بھی مختصر، وزن اٹھانے میں بھی کوئی دقت نہیں۔ ایئرپورٹ کی تمام کارروائی بھی بڑی آسانی سے طے ہو جاتی ہے۔ عمرے اور حج کے سفر کے بعد اس اٹیچی کو انہی تمام لوازمات کے ساتھ ازسر نو دھلوا کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس میں تالا لگا کر آئندہ کے سفر کیلئے دعائیں اور تیاری شروع کر دی جاتی ہے۔
ہم لوگ بھی SV 712 کے ذریعے جدہ پہنچے۔ ایئر پورٹ کا عملہ پوری تندہی اور ذمہ داری سے زائرین کے کاغذات کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرتا ہے۔ بظاہر یہ کام بڑا سست روی سے ہوتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ پوری عرق ریزی سے ہر زائر کے کوائف چیک کرتے ہیں۔ میں خواتین کے ساتھ لائن میں لگی ہوئی تھی، مجھ سے آگے ایک باپردہ پاکستانی خاتون تھی، جب وہ اپنی باری پر آگے بڑھیں تو کاؤنٹر پر کمپیوٹر کے سامنے پاسپورٹ کی تصویر چیک کرتے ہوئے افسر نے کاؤنٹر پر لگے ہوئے کیمرے کا رخ ان خاتون کی طرف کر کے ان سے چہرے کا نقاب ہٹانے کا اشارہ کیا۔
خاتون نقاب ہٹانے کا اشارہ دیکھ کر بھڑک اٹھیں اور نقاب ہٹانے سے انکار کر دیا۔ افیسر نے پاسپورٹ پر لگی تصویر دکھا کہ ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ صرف ان کے چہرے کو تصویر سے ملا کر چیک کرے گا۔ میں نے دیکھا خاتون خوامخواہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے افیسر نے ان کا پاسپورٹ ایک طرف رکھ کر ان کو قطار سے الگ ہٹ جانے کا حکم دیا تاکہ پیچھے کے لوگ آگے آسکیں۔
خاتون وہی جمی کھڑی رہیں، میں نے سمجھانے کی کوشش کی تو تنک کر بولیں ’’یہ اچھا قانون ہے، اپنی عورتوں کو تو سر سے پیر تک چھپا کر سات پردوں میں رکھتے ہیں، دوسری عورتوں کے بے نقاب کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔‘‘
میں نے نرمی سے بات کو سنبھالنے کی کوشش کی اور انہیں سمجھایا کہ یہ یہاں کا قانون ہے۔ اسی قانونی کی پابندی کے باعث یہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ آپ کی نیت بے پردگی کی نہیں ہے، اس لئے نقاب ہٹانے سے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ ہاں اگر آپ نے ان کا حکم نہیں مانا یا خلاف ورزی کی تو آپ خوا مخواہ پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گی۔ آپ کے ساتھی ہمسفر الگ پریشان ہوں گے۔ میری بات شاید ان کی سمجھ میں آگئی۔ انہوں نے سب سے آگے جاکر اپنے چہرے کا نقاب آہستہ سے ہٹا کر کیمرے کی طرف اپنا رخ کیا۔ آفیسر نے ایک اچٹی سی نظر ڈال کر پاسپورٹ ان کو ٹھپہ لگا کر واپس کر دیا۔
گزشتہ کئی برسوں سے سعودی حکومت نے مختلف سعودی ٹوور آپریٹر کے ذریعے عمرے اور حج پر آنے والوں کو پابند کر دیا ہے۔ ان سعودی ٹوور آپریٹرز نے کراچی، کوئٹہ، لاہورم پشاور اسلام آباد میں ٹریول ایجنٹ اپنے نمائندے کے طور پر مقرر کئے ہیں، جنہوں نے حج اور عمرے کے سفر کو پی آئی اے اور سعودی ایئر لائن سے مختص کر دیا ہے۔ اب کوئی شخص پرائیویٹ طور پر بغیر ایجنٹ کے حج اور عمرہ نہیں کر سکتا۔ اس تجارت کے سعودی حکومت نے خوب فائدہ اٹھایا ہے، مگر پاکستانی زائرین بہت پریشان ہوتے ہیں۔ کیونکہ جو ایجنٹ ان سے پاکستان میں معاملہ طے کرتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی جدہ مکہ یا مدینہ میں نہیں ہوتا اور جو نمائندے وہاں ملتے ہیں، وہ ان زائرین کیلئے قطعی اجنبی ہوتے ہیں۔ اگر وہ کوئی سہولت نہ دینا چاہیں تو ’’سعودی حکومت کا قانون‘‘ کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ دوسری پریشانی عربی زبان سے ناواقفیت ہے۔ سعودی اردو انگریزی جانتے ہوئے بھی صرف عربی بولتے ہیں۔ اس سال بھی بہت سے پاکستانی بوڑھے اور لاغر مرد عورتوں کو حرم کے اندر اور باہر بھیک مانگتے دیکھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ سب ٹریول آپریٹر کے ستائے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان میں خطیر رقم زائرین سے وصول کر کے حرم سے بہت دور رہائش کا انتظام کیا اور ان کے احتجاج کرنے پر ان سے کہا گیا کہ مزید رقم کا بندوبست کریں تو قریبی رہائش دے دی جائے گی۔ پاکستانی حکومت کو اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہئے۔ وہ غریب لوگ جو ساری زندگی حج کیلئے جمع کرتے ہیں۔ وہ اپنی ساری پونجی اس مد میں خرچ کردیتے ہیں۔ اس عبادت کیلئے ان کو اگر سہولیات نہ دی جائیں تو یہ ان کی جسمانی اور ذہنی تھکن کا باعث بن جاتا ہے اور سارا وقت صرف آمد و رفت میں ختم ہو جاتا ہے۔
ہم لوگ مکہ پہنچے، مسفلہ میں رہائش کیلئے ہوٹل ملا، جو جانا پہچانا تھا۔ ہم لوگوں نے کمرے میں اکلوتا اٹیچی رکھا۔ ضروریات سے فارغ ہوئے، وضو کیا اور عمرے کے لئے حرم شریف پہنچ گئے۔ مسجد الحرام کے بلند و بالا مینار روشنی میں نہائے ہوئے تھے۔ ان میناروں سے مؤذن صالح نائف کی دلنشین اذان گونج رہی تھی۔ عمرے کیلئے طواف اور سعی ایک بڑی سعادت ہے، لیکن ان مناظر کا محض دیکھنا بھی خدا تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ طواف کا نظارہ تو ایسا روح پرور ہوتا ہے، جس کی نظیر دنیا کے کسی مقام پر نہیں ملتی۔ جذبہ عبودیت سے سرشار ہزاروں فرزندان توحید دیوانہ وار کعبہ شریف کا چکر کاٹتے ہیں اور خانہ کعبہ کی مقناطیسیت انہیں اپنی کشش سے باہر نہیں نکلنے دیتی۔ مطاف میں خواہ لاکھوں زائرین طواف کررہے ہوں، وہ ایک ہی دائرے میں بندھے نظر آئے ہیں۔ خدا کی رحمت مسلسل برستی رہی ہے اور اس کے چھینٹے ہر ایک پر پڑتے ہیں۔ اسی رحمت کے چھینٹے کی جستجو میں ہر زائر کعبہ کے قریب ملتزم کو چھونے کی کوشش کرتا ہے۔ خانہ کعبہ کی دیوار کو ہاتھ لگانے کیلئے آگے بڑھتا ہے۔ اسی کوشش میں سانس رک جاتا ہے، یہ سارے مقامات بے خودی ہیں، جہاں پہنچ کر جذبات اختیار سے باہر ہو جاتے ہیں اور انسانی کیفیات الفاظ کا جامہ پہننے سے قاصر ہوتی ہیں۔ خانہ کعبہ ایسا مقام ہے، جہاں آفاقیت اپنی پوری جامعیت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ جانے خدا کے گھر میں یہ کیسی کشش ہے کہ نظر ہٹائے نہیں ہٹتی۔ لاکھوں نگاہیں ایک ہی مرکز کا طواف کرتی ہیں۔ خدا سے محبت کرنے والے دنیا میں اس گھر کا طواف کر کے اپنے آپ کو خدا کے قریب محسوس کرتے ہیں۔ ہم دونوں بھی عمرے سے فارغ ہوکر صحن کعبہ کے اطراف بنی ہوئی سیڑھیوں پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کو دیکھتے رہے۔
یہ کعبہ شریف ہمارا قبلہ، ہماری عقیدتوں کا مرکز اور محبت کا محور ہے۔ حرم کی پوری عمارت بقعہ نور بنی ہوئی تھی۔ دالان میں لوگ نفل ادا کرنے میں مصروف تھے۔ ایک طرف سعودی نوجوان اوندھا لیٹا قرآن اس طرح پڑھ رہا تھا جیسے کوئی بے فکرا منچلا نوجوان روحانی ناول پڑھتا ہے۔ خواتین کے حصے میں دو چھوٹے بچوں کے ساتھ ایک عربی خاتون تلاوت قرآن اس طرح کررہی تھیں کہ گود کے بچے کو نیند کراتی جا رہی تھیں اور دوسری بیٹی جو تقریباً تین سال کی ہوگی، وہ بھائی کو تنگ کرتی تو وہ قرآن مجید کو اوندھا کرکے قالین پر رکھ دیتیں اور بچی کو دو تین تھپڑ رسید کر کے پھر تلاوت کرنے لگتیں۔ ایک مرتبہ جب انہوں نے قرآن مجید اوندھا رکھا تو بچی سینڈل سمیت اس پر آکر کودنے لگی۔ میں دور بیٹھی تھی، تڑپ کر اٹھی، بچی کا ہاتھ پکڑ کر قرآن مجید پر سے اتارا اور اسے چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ قرآن مجید کو سنہری شیلف میں رکھ دیا۔ ان خاتون نے اس بات کا بہت برا مانا اور غصے سے بڑ بڑاتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔ قرآن مجید کا جتنا احترام پاک و ہند کے مسلمان کرتے ہیں، شاید دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ عرب دنیا تو قرآن کو صرف ایک کتاب سمجھتی ہے۔ خدا کی بھیجی ہوئی کتاب۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ قرآن میں دیئے ہوئے احکامات کی عملی تصویر بھی سعودی عرب میں نظر آتی ہے۔ خصوصاً نماز کے حکم کی پابندی جتنی مکہ مدینہ میں نظر آئی اور کہیں نہیں۔ جونہی اذان کی آواز بلند ہوئی، ہر قسم کا کاروبار فوراً بند کر دیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی دکانوں پر کپڑے ڈال دیئے جاتے ہیں، اکثر دکاندار تو دکانیں کھلی چھوڑ جاتے ہیں۔ نماز کے اوقات میں سارا بازار بالکل خالی ہوتا ہے۔ انسانوں کا ایک سیلاب ہوتا ہے، جو حرم کی طرف بہتا نظر آتا ہے اور میرا خیال ہے اسی نماز کی برکت سے سعودی عرب میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ قتل، چوری، ڈکیتی، خونریزی جیسے جرائم بہت کم ہیں۔ حالانکہ مسجد نبویؐ اور حرم پاک کے باہر سونے کے زیورات ’’جواھر الذہب‘‘ اور کرنسی تبدیل کرنے والوں کی بے شمار دکانیں ہیں۔ جن میں کروڑوں روپے کے بھاری بھرکم زیورات شیشے کی الماریوں میں دروازے تک لٹکے نظر آتے ہیں۔ لیکن وہاں بھی کوئی گن مین نظر نہیں آیا۔ اسی طرح کرنسی تبدیل کرنے والے لاکھوں کروڑوں کا اثاثہ 5 فٹ کی مختصر سی دکان میں لئے بیٹھے ہیں۔ وہ رات گئے تک یہ کاروبار کرتے ہیں اور انہیں لٹ جانے کا خوف نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہاں کسی چور کی مجال نہیں کہ وہ چوری کی ہمت کرے، اسے معلوم ہے کہ اگر وہ پکڑا گیا تو سزا سے نہیں بچ سکے گا، خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو۔ قانون کی پاسداری اور ضابطوں کی پابندی نے سعودی عرب کو ایک پرامن ملک بنادیا ہے، جہاں لاکھوں زائرین بلاخوف و خطرے سفر کرتے ہیں اور کسی کو لٹ جانے کی کبھی شکایت نہیں ہوتی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More