چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

0

پاکستانی راک صوفی سنگر سلمان احمد اب اپنے کپتان کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ اس سلسلے میں نہ کسی اخبار اور الیکٹرانک میڈیا نے خبر دی ہے اور نہ کسی مایوس انصافی کارکن نے سوشل میڈیا پر کوئی انکشاف کیا ہے۔ ایک اداس آرٹسٹ کے راز پر ابھی تک پردہ پڑا ہوا ہے۔ وہ آرٹسٹ جو اب تحریک انصاف کے جلسوں میں نہیں آتا۔ جب تک عمران خان اقتدار کی مسند پر نہیں بیٹھے تھے، تب تک وہ اکثر جلسوں اور جلوسوں میں اپنا گٹار لے کر آتا تھا۔ وہ لوگوں کا لہو گرمانے والے گیت گاتا تھا۔ ان گیتوں پر وہ خود بھی ناچتا تھا اور شرکاء کو بھی نچاتا تھا۔ وہ جو اپنے آپ کو پاکستان کا وکٹر ہارا سمجھتا تھا، مگر اس کو معلوم نہ تھا کہ اس کا لیڈر یہ بھی نہیں جانتا کہ آلندے کون تھا؟ عمران خان کو یہ تو خبر ہوگی کہ لاطینی امریکہ میں چلی نامی ایک ملک ہے، مگر ان کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ اس چلی کی عوامی اور انقلابی روح کا نام پابلو نرودا ہے۔ عمران خان کو یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ جب آلندے کی منتخب حکومت کو امریکی سی ائی اے نے وہاں کے فوجی جنرل پنوشے کی معرفت بغاوت کرکے ختم کیا تھا اور جب چلی کے دارالحکومت سنیاگو کی سڑکوں پر گڑگڑاہٹ کرتے ہوئے فوجی ٹینک چل رہے تھے، تب ہمارا محبوب شاعر پابلو نرودا اسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا تھا اور اس نے دکھی دل سے یہ الفاظ لکھے تھے کہ ’’آج چلی کی فوج نے اپنے ملک کو ایک بار پھر فتح کیا ہے۔‘‘
چلی میں فوجی بغاوت کے باعث خوف کا شکار بننے والے لوگوں میں جذبات کی آگ جلانے کے لیے چلی کے انقلابی فنکار وکٹر ہارا نے اپنا گٹار اٹھایا اور وہ فٹ بال اسٹیڈیم کی طرف روانہ ہوا اور وہاں وہ گیت گانے لگا:
’’گھٹاؤں سے مت گھبراؤ
میں سورج کو طلوع ہوتے
دیکھ رہا ہوں…!!‘‘
چلی کی فوج نے وکٹر ہارا کو گولیوں سے بھون کر ختم کر دیا، مگر ان کو نہیں معلوم کہ آواز کبھی نہیں مرتی اور صدائیں کبھی دفن نہیں ہوتیں۔ تاریخ کے دروازے پر وکٹر ہارا کے گیت آج بھی دستک دے رہے ہیں اور ایک پھول جیسا بچہ سنتیاگو کے ایک فلیٹ کی بالکونی میں منتشر سروں کی طرح چلتے ہوئے لوگوں کو اس امید اور یقین سے دیکھ رہا ہے، جو اب ہمارے اس مغنی میں نہیں رہا، جس نے 33 برس قبل ’’احتساب‘‘ کے نام سے ایک گیت گایا تھا۔ وہ گیت 1995ء کے دوران عوامی ترانہ بن گیا تھا۔ اس گیت کی دھن بھی اچھی تھی اور اس گیت کے بول بھی بڑے پیارے تھے۔ وہ گیت صبح کے سورج کی طرح آہستہ آہستہ اوپر اٹھتا ہے اور سننے والوں کی سماعت سے یہ الفاظ ٹکراتے ہیں:
’’دلربا
دلنشیں
دل فریب
اور حسیں
لفظ یہ ہوں گے کہیں
ہم نے تو دیکھے نہیں
اپنی تو ہر طرف ایک ہی تصویر ہے
تم کہو کیا میری بس یہی تقدیر ہے؟
احتساب… احتساب… احتساب
بولو احتساب
کتنی آنکھیں دیکھیں گی
آدھی صدی پرانا خواب
احتساب… احتساب… احتساب
بولو احتساب…!‘‘
یہ گیت اس وقت لکھا اور گایا گیا تھا، جب عمران خان کرکٹ سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد لاہور میں شوکت خانم اسپتال کے لیے چندہ جمع کر رہے تھے۔ اس وقت انہوں نے سیاست کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ مگر اس ملک کے عوام ایک نوجوان فنکار کے ان جذبات پر جھوم رہے تھے کہ ملک کے لٹیروں کا احتساب ہونا چاہئے۔ اپنے دور کے مشہور ’’جنون‘‘ بینڈ کے اس گیت سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہل گئی اور اپنے آپ کو وسطی بائیں بازو کی پارٹی کہنے والی جماعت نے ’’جنون گروپ‘‘ پر سختی کی۔ وہ سختی ان فنکار لوگوں پر میاں نواز شریف کے دور میں بھی ختم نہیں ہوئی۔
وہ فنکار تو صرف چند گیت گانے آئے تھے۔ ان کا مقصد سیاست کرنا نہیں تھا۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے ان فنکاروں کو سیاست میں دلچسپی لینے کے سلسلے میں مجبور کر دیا۔ اس ملک کے معصوم متوسط طبقے کی طرح اس میوزک گروپ کے لیڈر سلمان احمد کو محسوس ہوا کہ عمران خان پاکستان کی تاریخ تبدیل کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ تبدیلی کی تمنا لے کر عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے اپنی آواز اور گٹار لے کر آئے۔ انہوں نے عمران خان کو عوام کے دل میں اتارنے کے لیے اپنے فن کو بھرپور انداز سے استعمال کیا اور وہ کامیاب تو ہوئے، مگر ان کی کامیابی ان کے لیے اس وقت اداسی کا سبب بن گئی، جب انہوں نے دیکھا کہ عمران خان جیسے جیسے اقتدار کے قریب آ رہے تھے اور غیر روایتی سیاستدان سے ایک روایتی سیاستدان بنتے جا رہے تھے۔ سلمان احمد کو پہلی بار عمران خان کے حوالے سے دھچکا تب لگا، جب انہوں نے عمران خان کو ملک کے بدنام کردار عامر لیاقت کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے دیکھا اور سنا۔ سلمان احمد جیسے افراد کے لیے یہ تسلیم کرنا بہت آسان نہیں تھا کہ وہ جس شخص کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں، وہ ایک بدنام ولن کے بازو میں بیٹھے مسکرا رہے تھے اور اسے پارٹی کا اہم اثاثہ قرار دے رہے تھے۔ سلمان احمد سے یہ صدمہ سہا نہیں گیا۔ انہوں نے فوری طور پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا اور عمران خان نے انہیں فوری طور منایا۔ کیوں کہ عمران خان اقتدار کے قریبی موڑ پر ایک مشہور فنکار کی بغاوت کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، مگر جب عمران خان کو اقتدار مل گیا، تب انہوں نے سارے وعدے فراموش کردیئے۔
عمران خان کو معلوم ہے کہ ان کے ماضی کے وہ دوست جن کی وجہ سے وہ کامیاب ہوئے، وہ ان کی کارکردگی سے بہت مایوس ہیں۔ انہوں نے سوچا تھا کہ عمران خان اس ملک میں اپنے لیے اقتدار حاصل نہیں کریں گے، بلکہ وہ تاریخی انصاف کی تحریک چلا کر پاکستان کو اس منزل پر پہنچائیں گے، جہاں لوگ اپنے ملک کے حقیقی مالک ہو جاتے ہیں۔ عمران خان تو اس وقت مفاد پرست ٹولے کے گھیرے میں ہیں، مگر وہ وقت سب کو یاد ہے، جب عمران خان کے ساتھ اس ملک کی وہ کلاس آئی تھی، جو سیاسی طور پر کنواری تھی۔ وہ اپر مڈل کلاس کے نوجوان تھے، جنہوں نے پہلی بار عمران خان پر اعتبار کیا تھا۔ ان کے ہوشیار خاندانوں نے اپنے بچوں کو بہت سمجھایا تھا کہ خواہ مخوا تمہارا دل ٹوٹ جائے گا، مگر سیاست کے سنگریز سفر سے وہ زخمی وجود کے ساتھ واپس لوٹے۔ ان کے خاندان والوں نے انہیں صرف دیکھا اور کچھ نہ کہا۔ سلمان احمد بھی اسی مٹی سے بنا ہوا ہے، جس مٹی سے وہ کلاس بنی ہوئی تھی، جو کلاس بظاہر بہت مضبوط نظر آتی ہے، مگر اس کلاس کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔ سلمان احمد کے دل میں یہ احساس جرم بھی ہے کہ وہ کلاس جو سیاسی بے وفائی کے بعد بہت دل شکستہ ہے۔ اس کلاس کو عمران خان کے پیچھے لگانے میں سلمان احمد کے ان گیتوں کا بھی عمل دخل تھا، جو گیت وہ ماڈرن انداز کے ساتھ گاتا تھا۔ ان گیتوں میں ایک پراثر پکار تھی۔ ان گیتوں نے عمران خان کے حق میں گواہی دی تھی۔ اقتدار کے بعد بدل جانے والے عمران خان کی شکایت صرف اس کلاس کے نوجوانوں کی باتوں میں نہیں، بلکہ ان گیتوں کے بولوں میں بھی ہے، جو گیت سلمان احمد جیسے گلوکاروں نے عمران خان کی سچائی اور اچھائی سے منسوب کیے تھے۔
سلمان احمد جیسے آرٹسٹوں کی یادوں میں جب بھی وہ گیت گونجتے ہیں، تب انہیں اپنے گیتوں سے ایک سلگتی ہوئی شکایت محسوس ہوتی ہے۔ ان کے گیت ان سے پوچھتے ہیں کہ ہماری معصومیت اور ہمارے بولوں کو آپ نے ایک عام سیاستدان کے پیروں میں کیوں رکھا؟ وہ گیت جن میں مدھر ترنم تھا۔ وہ گیت جن میں پر اثر الفاظ تھے۔ وہ گیت جن میں ایک خوشبو بھرا خواب تھا۔ وہ گیت اقتدار کی طرف جانے والے قدموں کے تلے کچلے گئے۔ آرٹسٹ سیاست میں آنے سے ڈرتے ہیں۔ وہ سیاستدانوں سے کہتے ہیں کہ ’’ہم تو سب کے لیے گاتے ہیں۔ ہم تو سب کا دل بہلاتے ہیں۔ ہم کسی ایک کی طرف نہیں لے سکتے۔‘‘ مگر عمران خان کے لیے انہوں نے اپنی روایت کو تبدیل کیا۔ انہوں نے اپنے گیت پہلی بار سیاسی اسٹیج پر سجائے۔ ان گیتوں کی وجہ سے ملک کے تعلیم یافتہ نوجوان ساری رکاوٹیں عبور کرکے عمران خان کے گرد جمع ہوگئے اور وہ نہ صرف نعرے لگانے لگے اور موبائل کا ٹارچ جلا کر لہرانے لگے، بلکہ وہ آنے والے اچھے وقت کی مسرت میں دھومیں مچانے لگے، مگر سروں پر ناچتے چلتے ہوئے نوجوانوں کو سپنوں والی منزل کے بجائے سیاست کا سراب ملا۔ آج وہ سارے نوجوان مایوس اور وہ آرٹسٹ اداس ہیں۔ وہ آرٹسٹ جو کبھی بچوں کو ’’پائپر‘‘ والی کہانی سناتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے عمران خان پر اعتبار کرتے ہوئے اس پائپر کا کردار ادا کیا، جو بچوں کو مایوسی کے اندھیرے غار میں دھکیل آئے۔ آج ان آرٹسٹوں کا دل غم سے بوجھل ہے۔ وہ آرٹسٹ جو ایک نیا پاکستان بنانے کی امنگ میں آگے بڑھے اور انہیں مایوسی کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔ اب وہ فنکار جب بھی اپنے سازوں کو اٹھاتے ہیں، تب اداسی کا بوجھ انہیں تھکا دیتا ہے۔ وہ اداس آرٹسٹ اب سوچتے ہیں کہ اس جرم کا جرمانہ وہ کس صورت میں ادا کریں؟ وہ نسل نو کو کیا کہیں؟ وہ آرٹسٹ جو اپنے چاہنے والوں کے ساتھ سیاسی صحرا کے سراب میں خاموش کھڑے ہیں۔
سلمان احمد کی صورت وہ اداس آرٹسٹ سوچ رہے ہیں کہ اپنے دل میں ٹھہر جانے والے غم کو وہ کس طرح کم کریں؟ اب وہ اپنے پرستاروں سے کیا کہیں؟ وہ اداس آرٹسٹ سیاست کے صحرا میں خاموش کھڑے ہیں۔ وہ اداس آرٹسٹ سوچ رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی نوجوان نسل کے لیے کون سا گیت گائیں؟ ان اداس آرٹسٹوں کی نجات کا راستہ فیض احمد فیض کی وہ نظم ہے، جس نظم میں فیض نے کہا تھا:
’’نجات دید و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!‘‘
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More