معارف القرآن

0

خلاصۂ تفسیر
اور وہ لوگ (ایسے ہیں کہ) جب آپؐ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ایسے لفظ سے سلام کرتے ہیں جس سے خدا تعالیٰ نے آپ کو سلام نہیں فرمایا( وہ السام علیک کہتے ہیں، جو دعا کے بجائے بددعا ہے) اور اپنے جی میں (یا اپنے آپس میں) کہتے ہیں کہ (اگر یہ پیغمبر ہیں تو) خدا تعالیٰ ہم کو ہمارے اس کہنے پر (جس میں سراسر آپؐ کی بے ادبی ہے) سزا (فوراً) کیوں نہیں دیتا؟ (جیسے واقعہ سوم و چہارم میں گزارا۔ آگے ان کے اس فعل کی وعید اور اس قول کا جواب ہے کہ جلدی عذاب بعض حکمتوں کے سبب نہ آنے سے مطلقاً عذاب نہ دینا لازم نہیں آتا) ان (کی سزا) کے لئے جہنم کافی ہے، اس میں یہ لوگ (ضرور) داخل ہوں گے، سو وہ برا ٹھکانہ ہے (آگے ایمان والوں کو خطاب ہے جس سے منافقین کے ساتھ مشابہت کرنے سے ان کو بھی ممانعت کی گئی ہے اور منافقین کو بھی سنانا منظور ہے کہ تم تو مدعی ایمان کے ہو تو مقتضائے ایمان پر عمل کرو، پس ارشاد ہے) اے ایمان والو جب تم (کسی ضرورت سے) سرگوشی کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسولؐ کی نافرمانی کی سرگوشیاں مت کرو(تفسیر ان الفاظ کی اوپر گزری ہے) اور نفع رسانی اور پرہیزگاری کی باتوں کی سرگوشیاں کرو (البر، عدوان کا مقابل ہے، اس سے مراد وہ نفع ہے جو دوسروں تک پہنچے اور تقویٰ، اثم، اور معصیت الرسول یعنی رسول کی نافرمانی کا مقابل ہے) اور خدا سے ڈرو جس کے پاس تم سب جمع کئے جائوگے، ایسی سرگوشی محض شیطان کی طرف سے (یعنی اس کے بہکانے سے) ہے تاکہ مسلمانوں کو رنج میں ڈالے (جیساواقعہ اول میں بیان ہوا) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More