سرفروش

0

عباس ثاقب
موسم سرما کی رات میں فولاد کے سرد مہر لمس نے سکھبیر کی خوابیدگی دور کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اس نے پہلے غیر ارادی طور پر اپنے سر کو جنبش دے کر اس ناپسندیدہ ٹھنڈک سے نجات حاصل کرنا چاہی۔ پھر حواس پوری طرح بیدار ہونے پر اس نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔ اسے صورتِ حال سمجھنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ میں نے اس اثنا میں پستول کی نال پیچھے ہٹالی تھی۔ البتہ اس کا رخ سکھبیر کی جانب ہی رہا۔
اس نے بے خوف نظروں سے میرے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا اور کہا۔ ’’تم تو اپنے آپ کو ہمارا دوست جتاتے رہے ہو بھائی۔ پھر اس طرح میرے اوپر ہتھیار اٹھانے کا مطلب؟ کیا تم واقعی سرکاری مخبر ہو؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تم ٹھیک سمجھے۔ ہم بہت دنوں سے ڈاکٹر چوہان کی نگرانی کر رہے تھے۔ تم لوگ بہت چالاک اور محتاط ہو۔ لیکن میں بالآخر اپنی مسلسل کوشش کے نتیجے میں اس وطن دشمن گروہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ میں نے تم لوگوں کی ساری باتیں ریکارڈ کرلی ہیں۔ مجھے یہ بھی پتا چل گیا کہ ڈمڈمی ٹکسال بھی تم دہشت گردوں کا ایک مضبوط ٹھکانا ہے۔ اب تم لوگوں کی جڑیں کاٹنا بہت آسان ہوجائے گا‘‘۔
اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بغور دیکھا اور اپنے مخصوص بے تاثر لہجے میں کہا۔ ’’یعنی تم نے کشمیری لڑاکا ہونے کا صرف ناٹک کیا تھا؟ اور مجھے جو کچھ بتایا، وہ صرف من گھڑت کہانی تھی؟‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں، ہم بہت دنوں سے تم لوگوں کی سازش کا پتا لگانے کی تاک میں تھے۔ ہم نے مٹھو سنگھ کے منیجر اور گارڈ کو قتل کر کے دولت لوٹنے والے کشمیری غدار کو پکڑ لیا تھا۔ اسی کے بیان کی روشنی میں ہم نے پہلے ڈاکٹر چوہان کو پھانسنے اور پھر اس کے ذریعے تم لوگوں تک پہنچنے کا منصوبہ تیار کیا تھا‘‘۔
میں یہ دھماکا خیز انکشاف کرنے کے باوجود اس کے چہرے پر اضطراب یا پریشانی کے کوئی واضح آثار تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ اس نے سرد لہجے میں سوال کیا۔ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمندر صاحب کے اندر تمہارے اور ساتھی بھی موجود ہیں؟‘‘۔
میں نے فاتحانہ لہجے میں کہا۔ ’’ہاں، کم ازکم دس کمانڈو سادہ لباس میں میرے ایک اشارے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ چند ہی لمحوں میں تمہارے اس ٹھکانے پر دھاوا بول کر تم سب کو دھر دبوچیں گے اور بھارت ماتا کے ٹکڑے کرنے کی تمہاری سازش ہمیشہ کے لیے ناکام ہو جائے گی‘‘۔
اس نے برفیلے لہجے میں کہا۔ ’’تو پھر انتظار کس بات کا ہے؟ بلالو انہیں۔ بلکہ میری نیند خراب کرنے سے پہلے تمہیں یہ کام کرلینا چاہیے تھا۔ دروازے پر تو صرف اندر سے کنڈی لگی ہوئی ہے۔ کوئی پہرے پر بھی نہیں ہوتا‘‘۔
میں نے سخت لہجے میںکہا۔ ’’اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو۔ مجھے پتا ہے کہ کس انداز میں کام کرنا ہے۔ تم کوئی ہوشیاری دکھائے بغیر، چپ چاپ میرے ساتھ باہر چلو گے۔ اس کے بعد میرے ماتحت کمانڈو یہاں داخل ہوں گے اور تمہارے سارے دہشت گرد ساتھیوں کو اسی طرح ہتھیار کی نوک پر چپ چاپ ساتھ لے جائیں گے۔ ہمیں پتا ہے کہ ہم نے یہاں اعلانیہ کوئی کارروائی کی تو تمہاری جاہل قوم اسے ہرمندر صاحب کی بے حرمتی قرار دے کر ہنگامہ کھڑا کر دے گی‘‘۔
سکھبیر نے میری بات سن کر خوں خوار لہجے میں کہا۔ ’’پہلے یہ بتاؤ، تمھارا اصل نام کیا ہے؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’مہیش یادیو۔ انسپکٹر اسپیشل ٹاسک فورس!‘‘۔
سکھبیر نے کھا جانے والی نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’میری بات کان کھول کر سن لو مہیش جی۔ تمہیں جوکرنا ہے کرو، لیکن میری قوم کو دوبارہ گالی دی تو میں سب کچھ بھول کر تمہاری گردن توڑ دوں گا۔ چاہے اس کوشش میں میری جان چلی جائے۔ ہم اپنی قوم کی عزت کی خاطر ہی تمہاری سرکار کے خلاف سر کی بازی لگانے نکلے ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ گھٹیا لطیفوں کے ذریعے سنگھ قوم کا مذاق اڑانے کی منظم سازش کے پیچھے کون سے عناصر ہیں‘‘۔
میں نے اس کے غیظ و غضب سے گویا لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ ’’پتا نہیں یار تم کون سی سازش کی بات کر رہے ہو۔ سردارقوم کی بے وقوفیوں پر لطیفے تو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ بہرحال۔ اب تم لوگوں کی گرفتاری کے ساتھ ہی تم لوگوں کو اس روز روز کی شرمندگی سے نجات مل جائے گی‘‘۔
میری بات سن کر سکھبیر نے پُر عزم لہجے میں کہا۔ ’’خالصہ قوم کو آزاد وطن حاصل کرنے سے روکنا اب نہرو سرکار کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہم سات آٹھ بندے تمہارے قبضے میں آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہمارے ہم خیال جوانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور وہ سب اپنے مقصد کے لیے سرکٹوانے کی سوگند کھاکر گھر سے نکلے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ان سے بھی نمٹ لیں گے۔ پہلے فساد کی اصل جڑ کو تو نکال کر پھینک دیں۔ میرا خیال ہے ڈاکٹر چوہان کو اب تک میرے ساتھی دلّی میں ہمارے ہیڈ آفس کے لاک اپ میں پہنچا چکے ہوں گے اور ان کی خاطر تواضع بھی کی جا چکی ہوگی۔ تم لوگوں کی پوری کھیپ بھی صبح تک وہاں پہنچ جائے گی۔ میرے ساتھی اس کے بعد بھی یہاں موجود رہیں گے اور یہاں کا رخ کرنے والے تمام افراد کو اسی طرح باری باری یہاں سے پستول کی نوک پر چپکے چپکے غائب کرتے رہیں گے۔ ڈمڈمی ٹکسال کے بارے میں بھی کوئی منصوبہ سوچ لیں گے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More