تثلیث سے توحید تک

0

میرا نام امینہ عینی سپیگٹ ہے۔ میرا تعلق برطانیہ سے ہے۔ میری پرورش و پرداخت چرچ آف انگلینڈ کے مذہبی ماحول میں ہوئی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ہر اتوار دراصل ’’انگلش اتوار‘‘ ہوتا تھا، جس میں عیسوی عقائد کے بجائے انگریزی روایات کی آمیزش زیادہ ہوتی تھی اور انگلستان میں یہ ایک مستحکم مذہبی رسم کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ پھر یہ دن اس اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں تسلسل کے ساتھ بچوں کو سمجھایا جاتا تھا کہ آج تم یہ کام کرو گے اور یہ نہیں کرو گے۔ بالخصوص اتوار کے روز معمولی سی شرارت کو بھی پسند نہیں کیا جاتا تھا اور اس پر سرزنش ہوتی تھی، جب کہ باقی دنوں میں ہر طرح کی شرارتیں جائز تھیں اور کسی کو ان پر ٹوکنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اتوار کو علی الصبح چرچ جانے کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیںاور اس سلسلے میں گھر کے بڑوں کا ذوق و شوق دیدنی ہوتا تھا۔
عمر ذرا سیانی ہوئی اور میں نے سوچنا شروع کیا تو ذہن میں طرح طرح کے سوال سر اٹھانے لگے۔ ان سب کا تعلق مذہب اور اس کے مختلف پہلوؤں سے تھا، لیکن عجیب بات ہے کہ کسی کے پاس میرے سوالوں کا جواب نہ تھا۔ ہر کوئی جواب میں سمجھانے لگتا کہ اس طرح سوال کرنا گناہ ہے۔ میری طرف سے اصرار بڑھا تو بتایا گیا کہ بائبل خدا نے خود لکھی ہے اور میں نے جواب میں دریافت کیا کہ کیا واقعی اس نے قلم سے لکھی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اسے لکھتے ہوئے کس نے دیکھا تھا اور اصل مسودہ کہاں موجود ہے؟ میرے یہ سوالات خصوصاً میری آیا (GOVERNESS) کو تو لرزا لرزا دیتے تھے۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگتی اور خوف سے تھرتھر کانپنے لگتی۔
مجھے میرے کسی سوال کا جواب نہ ملتا، تو میں سوچنے لگتی کہ یہ تو کند ذہی اور بے انتہا نالائقی کا ایک مظاہرہ ہے کہ میں ایسے مذہب پر کاربند رہوں جو اپنی بنیادی تعلیمات کے لیے نا صرف کوئی دلیل نہ رکھتا ہو، بلکہ وہ ناقابل عمل بھی ہو۔
بلاشبہ میں اپنے خدا سے گہری محبت رکھنا چاہتی تھی، اس میں گہری دلچسپی رکھتی تھی اور اس کو اس کی صحیح صورت میں جاننے کے طالب تھی، لیکن میں عیسائیت کے اس عقیدے سے سمجھوتہ نہ کر سکی کہ ’’قادر مطلق‘‘ اور ’’رحیم و کریم‘‘ خدا نے اتنی سنگدلی سے اپنے ’’اکلوتے بیٹے‘‘ کو محض جس اذیت ناک طریقے سے حضرت مسیحؑ کو صلیب پر چڑھایا اور جس مصیبت کا انہیں سامنا کرنا پڑا، میرا ذہن قبول ہی نہیں کرتا تھا کہ اس تناظر میں خدا ’’قادر مطلق‘‘ کیسے ہے؟ اور اسے ’’رحیم و کریم‘‘ کیسے مانا جائے؟ چنانچہ یہ خیال بار بار ذہن کو پریشان کرتا کہ اگر خدا واقعی قادر مطلق (ALL MIGHTY) ہے تو اس نے جانتے بوجھتے ہوئے ایک قطعی معصوم شخص کو جو اس کا اپنا بیٹا بھی ہو، عام گناہگار لوگوں کی پاداش میں بے رحمی کے ساتھ کیسے سولی پر چڑھا دیا؟ پھر یہی نہیں، جب میں اپنے اردگرد بے شمار لوگوں کو گناہ اور ظلم میں لت پت دیکھتی تو بے اختیار سوچنے لگتی کہ کیا یہ سب ظالم اور پاپی لوگ ایک بے گناہ شخص کی موت کے بدلے بخش دیئے جائیں گے؟ یہ تصور مجھے ہلکان کردیتا اور میں اپنے ہر جاننے والے سے دریافت کرنے لگتی کہ مجھے اس سلسلے میں دلائل سے مطمئن کرو، لیکن میں نے دیکھا کہ عیسائی کہلوانے والے کم از کم نصف ایسے لوگ تھے، جو ان عقائد کو درست نہیں سمجھتے تھے، لیکن چونکہ ان کے پاس ان کا کوئی متبادل نہ تھا، اس لیے وہ بے سوچے سمجھے انہیں سینے سے لگائے ہوئے تھے، بلکہ ان کے بارے میں انہیں چنداں پروا تھی نہ وہ اس سلسلے میں سنجیدہ تھے۔
اتوار کی سہ پہر کو ہم لوگ سوال و جواب کی محفل میں شمولیت کرتے یا پھر بائبل کے حمدیہ حصے گا کر پڑھتے۔ اس دوران خالق حقیقی کے بارے میں حق و صداقت پر مبنی باتیں بیان کی جاتیں اور وہ بے سروپا قصے بغیر سوچے سمجھے طوطے کی طرح نہ رٹے جاتے جن پر میں یقین ہی نہیں رکھتی تھی اور جو عقل و خرد کے بھی صریحاً منافی تھے۔ میں حسب عادت اپنی بے اطمینانی کا اظہار کرتی تو یہ کہہ کر مجھے نفسیاتی طور پر مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی کہ دراصل بچپن میں میری دینی توثیق کی رسم ادا نہیں ہو سکی تھی، جس کی وجہ سے میرے ذہن میں طرح طرح کے وساوس پیدا ہوتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ محض ان کا ایک بہکاوا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ عیسائیت کا ہر عقیدہ عقل سے بعید ہے اور کسی بھی سوچنے والے کو متاثر نہیں کرتا۔ چنانچہ مسیحؑ کے جسم اور خون والے عقیدے سے مجھے ہمیشہ گھن آتی رہی۔ پروٹسٹنٹ اسے محض استعارے اور نظریے کے طور پر مانتے ہیں، جب کہ کیتھولک دعویٰ کرتے ہیں کہ عشائے ربانی (SACRAMENTS) کی روٹی حقیقی معنوں میں حضرت عیسیٰؑ کے جسم اور خون کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ عشائے ربانی کے عقیدہ نے مجھے بہت پریشان کیا اور میں نے دل میں تہیہ کرلیا کہ میں بشپ سے اپنے عیسائی ہونے کی توثیق نہیں کراؤں گی۔ یاد رہے اس رسم کے مطابق بلوغت کے قریب بپتسمہ دیے ہوئے عیسائیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر پادری ان کے سچے اور پکے عیسائی ہونے کی توثیق کرتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More