ڈالروں کے عوض پاکستان کا قومی جانور مارنے کی کھلی چھوٹ

0

میگزین رپورٹ
امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک رئیس کو ایک لاکھ دس ہزار ڈالر کے عوض پاکستان کے قومی جانور مار خور کے شکار کی اجازت دیدی گئی۔ امریکی شہری برائن ہارلن نے گلگت بلتستان کے علاقے وادیٔ استور میں ایک نادر و کم یاب مار خور کو نہ صرف گولی کا نشانہ بنایا، بلکہ اپنے شکار کے ساتھ وڈیو اور تصاویر نہایت فخر سے سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیں۔ یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو میں جوان مار خور ایک پہاڑی پر سر اٹھائے کھڑا نظر آتا ہے۔ پھر شکاری مار خور پر گولی چلاتا ہے اور اس کے بعد نشانہ بننے والے جانور کو اچھل کر گرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد شکاری فاتحانہ انداز میں اپنی شکاری پارٹی کے ایک رکن کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے۔ پھر انہیں مارخور کو گھسیٹ کر ایک پہاڑی پر لے جاتے دکھایا گیا ہے، جہاں وہ سب مارخور کی لاش کے پاس پوز بناکر تصویریں بنواتے ہیں۔ اس وڈیو اور مذکورہ تصاویر سے ایک طرف اسے شہرت ملی، تو دوسری جانب پاکستانیوں کا امیج خراب ہوا کہ اس نے پابندی کے باوجود ایک نایاب جانور کے شکار کی اجازت دی۔ یقیناً اب امریکا کے نو دولتیے ہی نہیں، یورپ اور باقی ترقی یافتہ دنیا کے امرا بھی برائن کنسل ہارلن نامی اس بینکار کی طرح شکار کی مطلوبہ بھاری فیس ادا کرکے بل کھائے ہوئے عالی شان سینگوں والے اس جانور کی لاش گرا کر اور اس کے پاس تصویر کھنچوانے کے لئے مچل اٹھے ہوں گے۔ برائن ہارلن نے بعد ازاں ایک مقامی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں اپنے اس کارنامے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا۔ ’’میں تیسری بار شکار کے لئے پاکستان آیا ہوں۔ میں یہاں لگ بھگ تمام جانوروں کا شکار کر چکا ہوں۔ مارخور کے شکار کو میں نے آخر کے لئے چھوڑ رکھا تھا۔ میں نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ تین مار خور شکار کرنے کے لیے ادائیگی کی ہے اور یہ ہمارا تیسرا ہی شکار تھا‘‘۔
تبدیلی سرکار کے نزدیک شاید یہ بھی دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنے ملک کی طرف راغب کرنے کی ایک تیر بہدف ترکیب رہی ہو۔ لیکن یہ مناظر سوشل میڈیا میں پھیلنے پر پاکستانی قوم کے جذبات ایک بار پھر مجروح ہوئے اور حقوق حیوانات کے علمبرداروں نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا اور اشتعال کی لہر نے سوشل میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تاہم سرکاری عہدیداروں اور جانوروں کے تحفظ کی کچھ تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے شکار کے اجازت نامے کے پروگرام سے درحقیقت غیر قانونی شکار کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور مار خور کی آبادی کے تحفظ میں مدد میں ملی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق ہنٹنگ پرمٹ پروگرام کے تحت ایک لاکھ دس ہزار ڈالر کی اس خطیر رقم میں سے اسّی فیصد مقامی آبادی کے حصے میں جائے گی، جبکہ باقی بیس فیصد پاکستانی جنگلی حیات کے اداروں کو ملے گا۔ اس پروگرام کے منتظمین کے مطابق جنگلات میں کمی، خوراک کے لئے غیر قانونی شکار اور ان کے پانچ فٹ تک لمبے ہو جانے والے شان دار سینگوں کی خاطر بے دریغ ہلاک کیے جانے کی وجہ سے2011ء میں مار خور کی تعداد ڈھائی ہزار رہ گئی تھی اور اس کو معدومی کے خطرے سے دو چار جانور قرار دے دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے مقامی شکاریوں کیلئے مار خور کا شکار ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ لیکن غیر ملکی شکاریوں کو ہر سیزن میں بارہ مار خور شکار کرنے کا پرمٹ دیاجاتا ہے۔ ایک پرمٹ کے تحت صرف ایک مارخور شکار کرنے کی اجازت ہے۔ حکام کے مطابق شکار پر پابندی کے نتیجے میں 2015ء تک مارخور کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں انہیں معدومی کے خطرے سے دو چار جانوروں کے درجے سے نکال کر صرف خطرے کی زد میں (Endangored) کے درجے میں شامل کر دیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت مناسب ہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختون کے علاقے چترال، شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور صوبہ بلوچستان میں مارخور کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ تاہم ان میں استور مارخور، کشمیر مارخور، سلیمان مارخور اور چلتن مارخور قابل ذکر ہیں۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان، بھارت، تاجکستان اور ازبکستان میں بھی اس نایاب نسل کے جانور پائے جاتے ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین صفوان شہاب احمد کا کہنا ہے کہ قومی جانور مارخور کے قانونی شکار کے لئے حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ٹرافی ہنٹنگ کی اسکیم کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔ تاہم اس کے نقصانات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ جیسا کی ٹرافی ہنٹنگ میں سب سے اچھی نسل کے نر استور مارخور کو شکار کیا جاتا ہے۔ نر استور مارخور ایک نایاب نسل ہے۔ اس کے عوض بھاری قیمت تو مل جاتی ہے، مگر ایک اچھی نسل کا قیمتی جانور ختم ہو جاتا ہے۔ صفوان شہاب احمد کا مزید کہنا ہے کی اسّی کی دہائی میں ملک بھر میں مار خور کے غیر قانونی شکار کے باعث اس کی نسل کے ختم ہونے کے شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ حکومت اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سرگرم عالمی اداروں کی شراکت سے ٹرافی ہنٹنگ کی اسکیم شروع کی گئی۔ اس اسکیم کا بنیادی مقصد مارخور کے شکار کو کنٹرول میں لانا تھا اور اس کے علاوہ مقامی آبادی کو بھی اس پورے عمل میں شامل کرنا تھا۔ تاکہ اس نایاب جانور کی نسل کو بچایا جا سکے۔ مگر یہ نایاب جانور تب ہی بچ سکتا ہے جب اس کے شکار سے حاصل کردہ رقم اسی کی افزائش نسل کے لئے استعمال کی جائے۔ صفوان شہاب کے مطابق برائن کنسل ہارلن نے سسی ہارموش برادری کے جانوروں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے علاقے میں خوبصورت سینگوں والے مارخور کا شکار کیا۔ یہ غیر ملکی شکاری اکتالیس انچ کی مار خور ٹرافی حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ برائن کنسل حالیہ عرصے کے دوران پاکستان میں مارخور کا شکار کرنے والے تیسرا امریکی شہری ہے۔ اس سے پہلے جنوری میں امریکی شہری جان ایمسٹوسو نے گلگت بلتستان میں استور کے مقام پر مار خور کا شکار کھیلا۔ یہ استور کے مقام پر پہلی ہنٹنگ ٹرافی ایوارڈ کا انعقاد تھا۔ محکمہ جنگلات کے ذرائع نے بتایا کہ شکاری جان ایمسٹوسو نے مارخور کے شکار کے لئے 92 ہزار ڈالر فیس ادا کی تھی۔ صفوان شہاب کے بقول ہر سال مار خور کے شکار کے لئے ہنٹنگ ٹرافی کے لئے بین الاقوامی سطح پر بولی ہوتی ہے۔ جو شکاری سب سے زیادہ بولی دیتا ہے، اسی کو شکار کا لائسنس دے دیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں پرندوں کے شکار کے لئے آنے والے غیر ملکیوں کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں، اور یہ گائیڈ لائنز متعلقہ سفارتخانوں کو پہنچا دی گئی ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ہدایت نامے کی دستاویز میں کہا گیا کہ شکار کرنے والوں کو امریکی ڈالرز میں فیس ادا کرنا ہوگی۔ ڈویژنل فارسٹ آفیسر محمد حسین نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ امریکی شہری نے 92 ہزار امریکی ڈالر میں کامیاب بولی دے کر ٹرافی حاصل کی تھی اور دس ہزار روپے شوٹنگ لائسنس کیلئے جمع کئے تھے۔ امریکی شہری نے مار خور کا کامیاب شکار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ شکاری ایک ہیلی کاپٹر میں آئے تھے، جن میں تین غیر ملکی اور پاکستانی میڈیا ٹیم ہیں۔ اس مار خور کے سینگ 44 انچ لمبے ہیں اور اس کی عمر دس سال ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More