پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

0

ورلڈ ریلیجن ڈیٹا بیس اور پیو ریسرچ سینٹر نے کہا ہے کہ سن دو ہزار پچاس تک دنیا میں مسلمانوں کا غلبہ ہوگا۔ تین برس قبل بھی پیو ریسرچ نے مذاہب پر اپنے ایک سروے میں بتایا تھا کہ دو ہزار ستّر تک مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے بڑھ جائے گی۔ اس وقت پیروکار کی تعداد کے اعتبار سے عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ مگر مذاہب پر تحقیقات کرنے والے مختلف ادارے وقتاً فوقتاً اپنی رپورٹوں میں اعتراف کرتے رہتے ہیں کہ دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا سب سے بڑا مذہب اسلام ہے۔ پیو ریسرچ کے مطابق اسلام دیگر مذاہب کے مقابلے میں جواں سال ہے۔ اس کو ظہور پذیر ہوئے صرف چودہ سو سال گزرے ہیں۔ لیکن جس تیزی سے یہ پھیل رہا ہے، یہ رواں صدی کے دوران دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ یورپ میں اس دوران مسلمانوں میں اضافے کی شرح چھ تا دس فیصد ہوگی۔ ورلڈ ریلیجن ڈیٹا بیس نے اُنیس سو دس سے دو ہزار دس تک کی ایک صدی کے درمیان دنیا بھر کی مذہبی آبادی پر تحقیق کرکے بتایا ہے کہ اس دوران اسلام سب سے تیزی پھیلنے والا مذہب رہا۔ پیو ریسرچ کے سروے میں بتایا گیا کہ دیگر مذاہب کے مقابلے میں مسلمانوں میں نوجوانوں کی تعداد اوسطاً زیادہ ہے۔ اگرچہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث موجودہ دور میں مادہ پرستی کا رجحان عام ہے۔ عموماً یہی باور کرایا جاتا ہے کہ اب انسانوں کو مذہب کی ضرورت نہیں رہی۔ مگر اس کے باوجود بھی انسان قلبی سکون و اطمینان پانے کے لئے مذہب کی چھائوں میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے۔ جسم کی راحت کیلئے قدرت نے اسباب بھی اسی زمین پر پیدا کئے ہیں، جس سے انسانی جسم کی تخلیق ہوئی ہے۔ جبکہ روح کا تعلق چونکہ عالم بالا سے ہے۔ اس لئے اس کی غذا کا اہتمام بھی وحی الٰہی سے کیا گیا ہے۔ جو مذاہب غیر الہامی یعنی انسانوں کے خود ساختہ ہیں، ان میں قلبی سکون کا حصول ہی ناممکن ہے۔ جبکہ آسمانی مذاہب تحریف در تحریف کا شکار ہوکر اپنی اصلی ہیئت و صورت کھو چکے ہیں۔ ان میں سے صرف اسلام ہے، جسے انسانوں کے دست برد سے خالق کائنات نے خود محفوظ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب کے پیروکار جب مذہب سے مایوس ہو جاتے ہیں تو وہ الحاد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ مذہبی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں معمولی باتوں پر خود کشی کا رجحان بھی عام ہو چکا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے بعد سب سے زیادہ ملحدین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لیکن اسلام دین فطرت اور قیامت تک انسانوں کیلئے صراط مستقیم ہے۔ لہٰذا اس کے سایہ عاطفت میں آنے والے قلبی سکون سے سرفراز ہو جاتے ہیں۔ یورپ میں اسلام کو تیزی سے پھیلتے ہوئے دیکھ کر ایک مرتبہ سابق برطانوی وزیر اعظم جان میجر نے کہا تھا کہ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ایک دن مجھے بھی اہل خانہ کے ساتھ اسلام قبول کرنا پڑے گا۔ ایک اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی سالی محترمہ ریڈلے مریم بھی اسلام قبول کر چکی ہیں۔ چند ماہ قبل نامور آئرش گلوکارہ سینیڈ اکونور نے بھی اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ یورپ کی کئی ایسی نامی گرامی شخصیات بھی دین فطرت کو گلے لگا چکی ہیں، جن کی شہرت ہی اسلام دشمنی کی وجہ سے تھی۔ حال ہی میں بدنام زمانہ ڈچ سیاستدان گیرٹ ولڈرز کے سابق دست راست اور رکن پارلیمنٹ جورم وان کلیورین نے اسلام قبول کرنے کا انکشاف کرکے سب کو حیران کر دیا۔ موصوف اسلام کے خلاف کتاب لکھ رہے تھے کہ اس دوران سیرت النبیؐ کا مطالعہ کرکے ان کی کایا پلٹ گئی۔ اس سے قبل گیرٹ ولڈرز کے ساتھی اور اسلام مخالف فتنہ فلم کے پروڈیوسر آرنڈوان ڈوم اسلام قبول کرکے خود کو دین حنیف کی خدمت کیلئے وقف کر چکے ہیں۔ آرنڈوان نے جورم وان کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ایک دن آئے گا کہ گیرٹ ولڈرز کی پارٹی ہالینڈ میں اسلام کی سب سے بڑی اکیڈمی بن جائے گی۔ گزشتہ صدی کے اواخر میں مغرب میں اسلام کی تیزی سے اشاعت کو دیکھ کر طاغوتی قوتوں کے ہاتھ پیر پھول گئے تو انہوں نے اوچھے ہتھکنڈے آزمانے شروع کر دیئے۔ پہلے دہشت گردی کا ہوا کھڑا کر کے اسلام کی راہ روکنے کیلئے عالمی گٹھ جوڑ بنایا گیا۔ دہشت گردی کا لیبل لگا کر مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ مذہب سے قرب رکھنے والے ہر مسلمان کو مشکوک بنا دیا گیا۔ پھر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر کے انہیں انتہا پسندی کے راستے پر ڈالنے کیلئے توہین رسالت کا سلسلہ تواتر سے شروع کیا گیا۔ تاکہ وہ طیش میں آکر انتہائی قدم اٹھائیں تو اسے ان کے دہشت گرد و انتہا پسند ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ مگر ان کی یہ ساری بھونڈی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ بلکہ نائن الیون کے واقعہ کا الٹا اثر ہوا۔ اس کے بعد یورپ میں ریکارڈ تعداد میں اسلامی کتب خصوصاً قرآن کریم کے نسخے خریدے گئے۔ بقول مولانا ظفر علی خاںؒ: ’’نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن… پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔‘‘ چونکہ یہ علم و حکمت کا دور (Age of Wisdom) ہے۔ لوگ خصوصاً مغرب کے باشندے تحقیق و جستجو اور طویل مطالعے کے بعد حق و باطل کا فرق خود ہی جان لیتے ہیں۔ اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی مذہب کے پاس موجودہ جدید دور کے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دینے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اس لئے فطری طور پر لوگ خود اسلام کی طرف کھنچتے چلے آ رہے ہیں۔ قرآن کریم میں حق تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کرکے رہیں گے۔ اگرچہ مشرکین کو یہ بات ناپسند ہو۔ (سورۃ التوبۃ: 33)۔ جبکہ نبی صادقؐ کا بھی سچا فرمان ہے کہ خدا تعالیٰ اس دین کو ہر کچے پکے گھر میں داخل فرمائیں گے۔ (مسند احمد)۔ مگر اس راستے میں خود مسلمان رکاوٹ ہیں۔ کاش کہ وہ اپنے اعمال و کردار کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں تو غیر مسلموں کو دعوت دینے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More