معارف القرآن

0

معارف و مسائل
اور جس واقعہ میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ آنحضرتؐ صفہ مسجد میں تشریف رکھتے تھے، بعد میں بعض اکابر صحابہؓ جو شرکائے بدر ہونے کے سبب قابل احترام تھے، وہ پہنچے اور جگہ نہ ہونے کے سبب کھڑے رہے، اس وقت رسول اقدسؐ نے پہلے تو عام حکم یہ دیا کہ ذرا کھسک کر مجلس میں کشادگی پیدا کرو اور ان کو جگہ دیدو اور بعض حضرات صحابہؓ کو اٹھ جانے کیلئے بھی فرمایا، جس کو مجلس سے اٹھایا، ان میں یہ احتمال ہے کہ وہ ہر وقت کے حاضر باش لوگ ہوں گے، جن کے اس وقت کی مجلس سے اٹھ جانے میں کوئی بڑا نقصان نہیں تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپؐ نے جب مجلس میں وسعت کرنے اور سمٹ کر بیٹھنے کا حکم دیا تو کچھ لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا، ان کو تادیباً مجلس سے اٹھ جانے کا حکم دیا ہو۔
بہرحال اس آیت اور احادیث واردہ سے آداب مجلس کے متعلق ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ اہل مجلس کو چاہئے کہ بعد میں آنے والوں کو جگہ دینے کی کوشش کریں، اور دوسری بات آنے والوں کیلئے یہ ثابت ہوئی کہ وہ کسی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائیں، تیسری بات صاحب مجلس کیلئے یہ ثابت ہوئی کہ وہ ضرورت سمجھے تو بعض لوگوں کو مجلس سے اٹھا دینے کی بھی اس کو گنجائش ہے اور بعض دوسری روایات حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والوں کیلئے ادب یہ ہے کہ پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں میں گھسنے کے بجائے کسی کنارے پر بیٹھ جائے، جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں تین آنے والے شخصوں کا ذکر ہے، ان میں ایک وہ بھی جو مجلس میں جگہ نہ پانے کی وجہ سے ایک گوشے میں بیٹھ گیا، آنحضرتؐ نے اس کی پھر تعریف و ثنا فرمائی۔
مسئلہ:
مجلس کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دو شخصوں کے درمیان بغیر ان کی اجازت کے داخل نہ ہو کہ بعض اوقات دونوں کے یکجا بیٹھنے میں ان کی کوئی خاص مصلحت ہوتی ہے۔حضرت اسامہ بن زید لیثیؓ کی روایت ابودائود و ترمذی میں ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ ’’کسی شخص کیلئے حلال نہیں کہ دو شخص ملے بیٹھے ہیں، ان کے درمیان تفریق پیدا کرے، جب تک کہ ان سے ہی اجازت نہ ملے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More