بھار ت اور ایران کیلئے لمحہ فکریہ

0

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورئہ پاکستان کے بعد پیر کو جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، اس میں علاقائی امن و سلامتی کیلئے پاکستان کی کوششوں اور مسلم دنیا میں اس کی اہم سیاسی و جغرافیائی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی ولی عہد نے اپنے ملک میں قید دو ہزار سترہ پاکستانیوں کی رہائی کا حکم جاری کرکے پاکستانیوں کے دل موہ لئے ہیں۔ انہوں نے یہاں سے روانگی کے وقت یہ کہہ کر ہماری زبردست حوصلہ افزائی کی کہ 2030ء میں پاکستان دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرے گا، جبکہ چین پہلے نمبر پر ہوگا۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کو اپنا گھر قرار دیا اورکہا کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہوں گے، یعنی پاکستانی مفادات کا ہر ممکن خیال رکھیں گے۔ پاکستان میں بیس ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری محض ابتدا ہے، آئندہ اس میں بہت اضافہ ہوگا۔ ادھر سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے یقین دلایا ہے کہ ان کا ملک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو امداد یا بھیک نہیں دے رہے، بلکہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جس میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔ پاکستان کے معاشی مستقبل اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا یقین نہ ہوتا تو ہم یہاں سرمایہ کاری نہ کرتے۔ سعودی عرب کی یہ سوچ نہایت مثبت اور حقیقت پسندانہ ہے کہ وہ پاکستان کو گرا پڑا ملک سمجھ کر امداد دینے کے بجائے اس کے روشن مستقبل کو دیکھتے ہوئے سرمایہ کاری کر رہا ہے اور کوئی احسان جتانے کے بجائے یہ بھی تسلیم کر رہا ہے کہ اس سرمایہ کاری سے صرف پاکستان کو نہیں، سعودی عرب کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے مطابق پندرہ لاکھ پاکستانی پہلے ہی سعودی عرب میں کام کرکے اس کی ترقی و خوشحالی میں نمایاںکردار ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت خطے کی صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف بھارت پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اسے دھمکیاں دینے میں لگا ہوا ہے تو دوسری جانب بردار مسلم ملک ایران بھی اسی قسم کے بے بنیاد الزامات لگا کر پاکستان کے اندر گھس کر دہشت گردوں کے خلاف خود کارروائی کا عندیہ دے رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں گزشتہ دنوں بھارت کے کم وبیش ایک سو سیکورٹی اہلکار خودکش حملے میں مارے گئے تھے۔ اس کے چار روز بعد پلوامہ ہی کے ایک اور مقام پنگلینا میں اٹھارہ گھنٹوں تک جاری جھڑپ کے دوران بھارتی فوج کے میجر ڈی ایس دھنیال سمیت پانچ اہلکار ہلاک ہوگئے۔ تین اعلیٰ افسران اور اہلکاروںکے علاوہ کئی افراد کے زخمی ہونے کی بھی خبریں ہیں، جبکہ تین محصور مجاہدوں سمیت چار کشمیری بھی شہید ہوئے۔ اپنے فوجیوں کی پے در پے ہلاکتوں اور مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی رفتار تیز ہونے پر بھارت کے انتہا پسند ذرائع ابلاغ، حکام اور عوام بری طرح بوکھلائے ہوئے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکومت جلتی پر تیل چھڑکنے کے بجائے پورے ملک میں بھارت کے خلاف علیحدگی کی جاری تحریکوں پر باہم گفت و شنید کے ذریعے قابو پانے کی کوشش کرے، لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس کے بالکل برعکس پاکستان کے خلاف الزام تراشی اور بیان بازی میں مصروف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بات چیت کا وقت گزر گیا، اب ٹھوس اقدامات اور مؤثر کارروائی کا وقت ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جدوجہد میں پوری دنیا کو متحد ہونا پڑے گا۔ کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ دہشت گردی کو فروغ دینے کے مترادف ہوگی۔ اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم پاکستان پر حملے کی کھلی دھمکی دے چکے ہیں، جس کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر بھارت نے ایسی کوئی حماقت کی تو پاکستان سوچنے اور غور کرنے پر وقت ضائع نہیںکرے گا، بلکہ فوراً ہی جوابی کارروائی کرکے بھارت کے چھکے چھڑا دے گا۔ واضح رہے کہ دونوں ممالک کے ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے پہل کوئی بھی کرے، دوطرفہ نقصان میں کروڑوں لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ایک طرف چین جیسا عظیم ملک ممکنہ بھارتی جارحیت کی صورت میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو پاکستان اور چین پر الزام تراشی کے بجائے اپنی انتہا پسندانہ پالیسیوں اور سیکورٹی اقدامات پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ دوسری جانب سعودی عرب جو پاکستان کے ویسے یہ بہت قریب تھا، اب ایران کی پاکستان مخالف پالیسیوں نے سعودی مملکت کی پاکستان سے ہمدردی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایران اگر بھارت سے تجارتی و ثقافتی تعلقات کا فروغ چاہتا ہے تو یہ اس کا حق ہے، لیکن اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر دینی رشتوںکو بھلا کر اگر وہ بھارت کا ہمنوا بنتا اور پاکستان پر بلاجواز اور بے بنیاد طور پر دہشت گردی کے الزامات لگاتا ہے تو اسے مسلم دنیا کے شدید ردعمل کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ اپنے حالیہ دورئہ پاکستان کے موقع پر دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ ایران خود دہشت گردی میں ملوث ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ پاکستان پر الزامات لگا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یمن، شام، عراق اور دیگر ممالک میں ایران دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب میں بھی ایران کی جانب سے دہشت گرد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ پاکستان کی اپنی جغرافیائی پوزیشن، دفاعی صلاحیت، ایٹمی قوت، مسلم دنیا کیلئے قائدانہ اہلیت کے علاوہ حکومت، افواج پاکستان، حزب اختلاف اور عوام کا بھارت کے خلاف اتفاق و اتحاد اپنی جگہ، لیکن موجودہ حالات میں چین اور سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی حمایت کا بھرپور اظہار ایران اور بھارت، دونوںکو امن و سلامتی کی راہ پر گامزن رہ کر تباہی سے بچنے اور اپنے ملکوں کی ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دے رہا ہے۔ انتہا پسندی، جنون اور دہشت گردی کو خود جاری رکھنا اور دوسروں پر الزامات لگانا، کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ بھارت اور ایران کی سیاسی و عسکری قیادتوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More