پاکستانی قیدی کا قتل بھارتی جیل انتظامیہ کی آشیرواد سے ہوا

0

عظمت علی رحمانی
پاکستانی شہری شاکر اللہ کا قتل بھارتی جیل انتظامیہ کی آشیرواد سے ہوا۔ جبکہ شاکر اللہ کی میت پاکستان بھجوانے کا بھی تاحال کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ شاکر اللہ کے خاندانی ذرائع کے مطابق اس کے والد بیٹے کی گرفتاری کے 6 ماہ بعد غم سے انتقال کر گئے تھے۔ جبکہ بھائی نے متعدد جگہوں پر اپیلیں کیں، مگر کوئی شنوائی نہیں ہو سکی اور اہل خانہ سے کسی بھی سرکاری ادارے نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
پاکستانی شہر سیالکوٹ کے نو مسلم رہائشی شاکراللہ ولد صوبہ خان کو متعصب ہندو قیدیوں کے ہجوم نے بہیمانہ تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتارا۔ اس دوران پاکستان مخالف نعرے بازی بھی جاری رہی۔ تاہم جیل انتظامیہ شاکراللہ کی جان بچانے اور ہندو قیدیوں کو منتشر کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی۔ اس حقیقت کا ثبوت واقعے کی ویڈیو فوٹیج سے بخوبی ملتا ہے۔ مذکورہ ویڈیو بھارتی نیوز چینل پر نشر ہونے کے بعد پولیس حکام، فارنسک ماہرین کے ہمراہ جیل پہنچے۔ جہاں انہوں نے ہندو انتہا پسند قیدیوں کو اپنی حفاظتی تحویل میں لیا اور دوسری جیل منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مشتعل ہندو قیدیوں کا ردعمل پلوامہ حملے کے تناظر میں ظاہر کیا جارہا ہے۔
شاکراللہ کا تعلق سیالکوٹ کے نواحی علاقے موضع جیسر والا سے تھا۔ مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے نوجوان نے 1997ء میں اسلام قبول کیا تھا۔ اسے غلطی سے کنٹرول لائن عبور کرنے پر بھارتی فوج نے گرفتار کر لیا تھا۔ شاکراللہ کو 2001ء میں گرفتارکرکے راجستھان کی جے پور سینٹرل جیل میں قید کردیا گیا تھا۔ بھارتی پولیس کے مطابق 4 ہندو قیدیوں پر پاکستانی قیدی کے قتل کا الزام لگایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ قتل ہونے والے قیدی کا نام شاکراللہ عرف حنیف محمد ہے اور اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ راجستھان پولیس کے ایڈیشنل کمشنر لکشمن گور کے مطابق شاکر اللہ کی ہلاکت جیل میں ٹی وی کی آواز اونچی ہونے پر جھگڑے کے دوران ہوئی۔ قیدی کے قتل میں 4 ہندو قیدیوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ لکشمن گور کے مطابق شاکر اللہ کو 2011ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور اسے 2017ء میں سزا سنائی گئی تھی۔
شاکراللہ کے چچا رحمت مسیح اور جاوید مسیح نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کو اعلیٰ سطح پر اٹھائیں کہ بھارتی جیل میں غلطی سے سرحد پار کرنے والے نوجوان کو بے دردی سے کیوں مارا گیا؟ کراچی کے علاقے جونیجو ٹاؤن کے رہائشی اور شاکراللہ کے بھائی شہزاد خان نے ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’’ہم 5 بہن بھائی ہیں، جن میں دو بھائی اور 3 بہنیں ہیں۔ ہمارے ساتھ اب تک کسی بھی حکومتی نمائندے نے رابطہ نہیں کیا ہے۔ 2001ء میرا بھائی سیالکوٹ باڈر سے غلطی سے بھارتی حدود میں داخل ہوا تھا اسی سال میرے والد صوبہ خان کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ہم والدہ کو دلاسے دیتے رہے مگر کہیں بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ متعدد جگہوں پر احتجاج بھی کئے، مگر کسی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ اب 19 برس بعد میڈیا پر خبر نشر ہوئی اور اس میں ہمارے بھائی کی تصویر دکھائی گئی۔ ہمیں رشتہ داروں نے بتایا کہ شاکراللہ کے بارے میں ٹیلی ویژن پر بتایا جارہا ہے جس کے بعد ہم نے بھی دیکھا تو پتا چلا کہ اسے تشدد کرکے مارا گیا ہے‘‘۔ شہزاد خان نے شکوہ کرتے ہوئے پاکستان حکام سے اپیل کی ہے کہ اب تک اس کے بھائی کی لاش کی حوالگی سمیت کسی بھی معاملے کیلئے کسی نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ شہزاد خان کا کہنا تھا کہ ’’شاکر اللہ نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ ہمارا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ اسی تعلق کی بنا پر ہم پوپ فرانسس و مسیحی برادری سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔ ہم غریب فیملی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سے ہماری اپیل ہے کہ وہ ہمارے بھائی شاکراللہ کی لاش حوالگی کیلئے ہماری مدد کریں‘‘۔ شاکر اللہ کیس کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال جاننے کیلئے دفتر خارجہ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فیصل سے رابطہ کیا گیا، تاہم انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔
واضح رہے کہ بھارت کی مختلف جیلوں میں 400 سے زائد پاکستانی قید ہیں جن میں اکثریت ماہی گیروں اور غلطی سے سرحد پارکرنے والوں کی ہے۔ جبکہ کچھ پاکستانی سفری دستاویزات گم ہوجانے یا معیاد سے زیادہ دن مقیم رہنے کے جرم میں قید ہیں۔ ادھر جے پور جیل میں پاکستانی قیدی کی ہلاکت پر پاکستان نے بھارت سے جواب مانگ لیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق قیدی شاکر اللہ کو قتل کیے جانے کی خبروں پر انہیں تشویش ہے۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے بھارتی حکام سے رابطہ کیا ہے اور بھارتی حکام سے واقعے کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت اپنی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ جبکہ بھارت میں موجود پاکستانی سیاحوں کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جائے۔
ادھر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شاکر اللہ کے معاملے پر تنقید کرتے ہوئے مختلف سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ صارفین کے مطابق بھارتی پولیس اور اعلیٰ حکام کی جانب سے انتہا پسند ہندوئوں کو شہ دی جارہی ہے جس کی وجہ سے بھارتی میں کسی بھی جگہ پر موجود پاکستانی محفوظ نہیں ہیں۔ صارفین کے مطابق قیدی کو قتل کیے جانے کے وقت جیل حکام کہاں تھے؟ قیدیوں کی پاس پتھر کہاں سے آئے؟ واقعے نے ان سمیت کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More