عوام کا سونامی اور حکمرانوں کی چیخیں

0

عوامی معاملات میں شدید غفلت کا مظاہرہ کرنے والے ارکان پنجاب اسمبلی نے بدھ کو نہایت پھرتی کے ساتھ یعنی پانچ منٹ میں اپنی تنخواہوں میں زبردست اضافے کا بل منظور کرلیا۔ یہ چونکہ سرکاری خزانے سے لوٹ مار کا فیصلہ تھا، اس لیے آناً فاناًًً ہوگیا کہ کہیں دیر نہ ہو جائے اور وہ بہتی گنگا میں صرف ہاتھ دھونے کے بجائے اشنان کرنے سے محروم نہ رہ جائیں۔ بات بات پر دنگا فساد کرنے، اسمبلی میں ہنگامہ آرائی، احتجاج، واک آؤٹ اور اسپیکر کے ڈائس کے سامنے پہنچ کر ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ پھینکنے والے اپوزیشن کے ارکان نے بھی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی منظوری میں حکومتی ارکان کی بڑھ چڑھ کر تائید کی۔ اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے جو کئی مقدمات میں ملوث ہیں، پنجاب اسمبلی میں سرکاری ایجنڈا مکمل ہونے پر معمول کی کارروائی معطل کر کے تنخواہوں اور مراعات بڑھانے کا بل پیش کرنے کا حکم دیا۔ اسے تحریک انصاف کے غضنفر عباس، مسلم لیگ کے آغا علی اور شعیب عباسی اور پیپلز پارٹی کے مخدوم عثمان محمود نے مشترکہ طور پر پیش کیا۔ قائمہ کمیٹی بل کو پہلے ہی منظور کر چکی تھی۔ اس سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہوگئی کہ قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے طبقے مکمل طور پر متفق اور متحد ہیں۔ انہوں نے قومی یا کسی صوبائی اسمبلی میں ملک کے بائیس کروڑ لوگوں کو مشکلات و مصائب سے نجات دلانے کے لیے ایک مرتبہ بھی ایسے اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہیں، لیکن بل میں مفت ہاتھ آتا ہوا مال انہیں بھی برا نہیں لگا، کیوں کہ بل میں ان کی تنخواہ اننچاس ہزار میں ایک لاکھ چھبیس ہزار روپے بڑھا کر کل ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے کی تجویز شامل تھی۔ چنانچہ انہوں نے معمول کی کارروائی معطل کر کے اس بل کو فوری طور پر پیش کرنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ حکم دیا اور پانچ منٹ کی مختصر مدت میں بل متفقہ طور پر منظور ہوگیا۔ بل کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی تنخواہ انسٹھ ہزار سے بڑھا کر ساڑھے تین لاکھ ہونی تھی، جبکہ وزیروں کی تنخواہیں پنتالیس ہزار ماہانہ سے بڑھا کر ایک لاکھ پچاسی ہزار اور ہر رکن اسمبلی کی تراسی ہزار کے بجائے ایک لاکھ پچاس ہزار کرنا تجویز کیا گیا تھا۔ اس میں اضافی ڈیلی الاؤنس اور دیگر مراعات کو شامل کرلیا جائے تو اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزیر اعلیٰ، پنتیس وزیروں، اڑتیس پارلیمانی سیکریٹریوں، پانچ معاونین خصوصی، تین مشیروں، چالیس مجالس قائمہ کے سربراہوں اور ارکان اسمبلی پر مشتمل فوج ظفر موج کی ماہانہ آمدنی میں بے حساب اضافہ ہو جاتا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں مجوزہ اضافے کو غیر منطقی قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن اس کے چند پہلو یقیناً قابل غور ہیں۔ اول ملک میں روز افزوں گرانی کے ذمے دار یہی لوگ ہیں، جو عوام کو کچھ نہ دے کر اپنے اختیارات کے ذریعے قومی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ دوم، ان کے پاس پہلے ہی مال و دولت کے انبار ہیں، تنخواہ اور مراعات ان کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں، لیکن وہ پھر بھی اضافہ کر کے قومی خزانے کو خالی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ایسے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں بجلی تک نہیں ہے۔ انہیں عمر بھر کے لیے مکان دینے کی تجویز سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد ان کے ٹھاٹ بھاٹ اور پروٹوکول کی گاڑیوں کا ہجوم یہ ظاہر کرتا ہے کہ نمک کی کان میں پہنچ کر وہ بھی نمک بن چکے ہیں۔ سوم، اقتدار اور پارلیمان کے ایوانوں میں پہنچنے والے کسی شخص نے آج تک ملک کے غریب عوام کو بنیادی انسانی اور شہری سہولتیں پہنچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا تو انہیں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں بے تحاشا اضافہ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر بھی ان میں سے سینیٹر سراج الحق کے سوا شاید ہی کوئی پورا اترتا ہو۔ وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب اسمبلی میں بدھ کو منظور کی جانے والی مذکورہ قرارداد پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں خوشحالی کا دور شروع ہونے پر ہی اس اضافے کا جواز پیدا ہوسکتا ہے، اب جبکہ ہمارے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ غریب عوام کی بنیادی ضروریات بھی پوری کر سکیں تو پنجاب اسمبلی کا فیصلہ ناقابل قبول ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے پہلے تو پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ بل کی تعریف کی، لیکن بعد میں اپنی پارٹی کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان کے چشم ابرو پر نظر پڑی تو انہوں نے فوراً ہی اپنے قائد کے اصول پر عمل کر کے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت شاید تحریک استقلال کی کفایت شعاری پر مبنی پالیسی سے شاید لاعلم ہے۔ عمران خان کی ناراضگی کے بعد گورنر پنجاب اس بل پر دستخط یقیناً نہیں کریں گے اور فی الحال یہ ردی کی ٹوکری میں چلا جائے گا۔ لیکن اپنے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات کی خاطر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے اور اس کی خواہش رکھنے والے آئندہ کسی اور وقت یہ قانون سازی کرنے کی کوشش کریں گے۔ ادھر وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر عوام کو کسی سہولت کی خوشخبری سنانے کے بجائے حکومت کے آٹھ ماہ بعد بھی یہ کہہ کر انہیں خوفزدہ کررہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی، جس کا بوجھ عوام پر پڑے گا اور وہ چیخیں گے۔ اس کی دلیل انہوں نے یہ دی کہ معیشت بحال ہو تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں اس وقت ملکی معیشت مستحکم ہے، لیکن مہنگائی بڑھنے کی وجہ امریکی ڈالر اور بجلی، گیس جیسی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ساری دنیا یہ دیکھ کر حیران و پریشان ہے کہ پاکستانی عوام کی زندگی میں فوری تبدیلی لانے کی دعویدار تحریک انصاف کی حکومت معیشت بحالی کے نام پر مہنگائی میں مزید اضافے کی دھمکیاں دے رہی ہے، جس کے نتیجے میں عوام چیخنے پر پہلے سے زیادہ مجبور ہو جائیں گے۔ اہل وطن کو ایسی معاشی بحالی منظور نہیں جو ان کی تکالیف میں اضافے کا سبب بنے۔ اگر عمران خان ملک و قوم سے واقعی مخلص ہیں تو اپنے وعدوں اور دعوؤں کی تکمیل پر فوری توجہ دے کر عام لوگوں کو کم از کم اپنے دور میں پہنچنے والے شدید مہنگائی کے عذاب سے نجات دلائیں اور اپنی پارٹی کے ان تمام رہنماؤں، کارکنوں بشمول حکومتی ارکان کو لگام دیں، جو ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر عوام کی مزید چیخیں سننے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ بصورت دیگر عوام کا سونامی خود انہیں چیخنے چلانے کے قابل بھی نہ چھوڑے گا۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More