سیدنا خبابؓ آزمائش کی بھٹی میں

0

حضرت خبابؓ اور ام انمار کے مابین پیش آنے والے اس واقعے کی خبر پورے مکے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ ان کی اس غیر معمولی جرأت پر دنگ ہو کر رہ گئے، کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے پیروان محمدؐ میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں سنا تھا کہ اس نے قبول اسلام کے بعد لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر اس طرح صراحت اور چیلنج کے ساتھ اپنے اسلام کا اعلان کیا ہو۔ سرداران قریش اس غیر معمولی جرأت اقدام پر سخت برہم ہوئے، کبھی ان کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ ام انمار کے اس غلام کی طرح کا کوئی غلام جس کا نہ کوئی خاندان ہو، نہ اس کی حمایت پر کمربستہ ہو اور نہ اس کا کوئی طرف دار ہو، جو اسے حفاظت اور پناہ فراہم کرے، اس حد تک جرأت کا مظاہرہ کرے گا کہ اس کے قابو سے باہر ہو کر برملا اس کے معبودوں کی توہین کرے اور اس کے آباء و اجداد کے دین کو سفاہت و گمراہی قرار دے۔
اس واقعے نے قریش کو اس بات کا یقین دلایا کہ یہ ان کی زندگی کا بدترین دن ہے اور ان کا یہ یقین کچھ غلط بھی نہ تھا۔ کیونکہ اس کے بعد ہی حضرت خبابؓ کی اس جرأت سے ان کے ساتھیوں کے اندر بھی اس بات کا حوصلہ پیدا ہو گیا کہ وہ کھل کر اپنے اسلام اعلان کریں۔ چنانچہ انہوں نے یکے بعد دیگر کلمہ حق کا علی الاعلان اظہار کرنا شروع کر دیا۔
ایک روز ابو سفیان بن حرب، ولید بن مغیرہ، ابو جہل بن ہشام اور دوسرے بہت سے شیوخ قریش کعبہ کے پاس ایک مجلس میں یکجا تھے اور حضور اکرمؐ کی ذات اور ان کا پیغام ان کا موضوع گفتگو تھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ محمدؐ کی دعوت روز بروز بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے اور ان کی مقبولیت میں ہر آن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، چنانچہ انہوں نے طے کیا کہ اسلام کے بڑھنے سے پہلے ہی اس کا استیصال ناگزیر ہے اور وہ متفقہ طور پر اس بات کا فیصلہ کر کے اس مجلس سے اٹھے کہ ہر شخص اپنے قبیلے کے ان افراد جنہوں نے محمدؐ کی پیروی اختیار کی ہے، ایسی دردناک اور عبرت انگیز سزا دے کہ یا تو وہ اپنے اس نئے دین کو ترک کر کے پرانے دین کی طرف پلٹ آئیں یا موت ان کی زندگی کا چراغ گل کر دے۔
حضرت خبابؓ کو ستانے کی ذمہ داری سباع بن عبدالعزیٰ اور اس کے قبیلے بنو خزاعہ پر عائد ہوئی۔ چنانچہ عین دوپہر میں جب دھوپ کی تمازت اپنے شباب پر ہوتی اور زمین سورج کی تیز اور گرم کرنوں سے تب کر توا بن جاتی، یہ لوگ حضرت خبابؓ کو مکے سے باہر سنگلاخ میدان میں نکال کر لے جاتے۔ ان کے جسم سے کپڑے اتار کر انہیں لوہے کی زرہ پہنا دیتے اور تیز چلچلاتی دھوپ میں جلتی ہوئی ریت پر کھڑا کر دیتے۔ مزید برآں ان پر پانی بھی بند کر دیتے، یہاں تک کہ جب ان کی تکلیف اپنی انتہا کو پہنچ جاتی تو اس سے پوچھتے: ’’محمدؐ کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟‘‘
’’ وہ خدا کے بندے اور اس کے رسولؐ ہیں۔ ہدایت اور دین حق کے ساتھ تشریف لائے ہیں تاکہ ہم لوگوں کو کفر و شرک کی ظلمت سے نکال کر ایمان و ہدایت کی روشنی میں داخل کریں‘‘۔ حضرت خبابؓ ان کو جواب دیتے۔ یہ سنتے ہی وہ لوگ بے تحاشا ان کو لاتوں اور مکوں نے مارنے لگتے اور پھر پوچھتے، ’’اور لات و عزیٰ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’ دو بت ہیں جو کسی کی بات سننے اور اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں، نہ کسی کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں نہ اس کو کوئی فائدہ دے سکتے…‘‘
اتنا سنتے ہی وہ آس پاس پڑے ہوئے گرم گرم پتھر اٹھا لاتے اور ان پتھروں کو ان کی پیٹھ سے چپکا دیتے اور انہیں چپکائے رہتے، یہاں تک کہ ان کے کندھے سے چربی پگھل کر بہنے لگتی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More