پس چہ باید کرد!

0

ایک طرف پاکستانی قوم نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں میں جنونی سفید فام دہشت گرد کی فائرنگ سے نو پاکستانیوں سمیت پچاس سے زائد مسلمانوں کی شہادت کا سوگ منا رہی تھی، تو دوسری جانب کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میںناچ گانے اور اچھل کود کا سلسلہ جاری تھا۔ پاکستان سپر لیگ کے فائنل میچ کی اختتامی تقریب میں شریک فنکاروں نے اپنے فن کا جادو جگایا۔ سپرلیگ کی انتظامیہ کو بس اس حد تک شرم آئی کہ انہوں نے تقریب سے قبل سانحہ نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ یاد رہے کہ اسلامی روایات کے مطابق کسی مسلمان کی شہادت یا انتقال کے موقع پر ایک یا دو منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے، نہ موم بتیاں جلا کر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ دوسرے مذاہب میں بھی اس قسم کی حرکتوں کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی اور ان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، یہ مغرب کی نام نہاد روشن خیال جدید تہذیب کے نمونے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان اپنے مرحومین کے لیے فاتحہ خوانی کر کے ان کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعائیں مانگتے ہیں۔ اتوار کو پچاس سے زائد مسلمانوں کی شہادت کا تیسرا دن تھا، لہٰذا پاکستان سپر لیگ کی انتظامیہ سے یہ توقع اور اپیل کی جارہی تھی کہ وہ میچ کو ملتوی کردے، لیکن اختتامی تقریب میں صرف خواتین کے رقص کو روک کر باقی تمام فضولیات کو جاری رکھا گیا۔ کیوںکہ پاکستان سپرلیگ کے ایک اہلکار کے مطابق کھیل کے اس پروگرام کو روکنے سے ان کے لیے کئی مالی مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سیاہ لباس اور دوپٹے میں ملبوس ہوکر متاثرہ مسلم خاندانوں کے گھر گئیں اور خواتین کو گلے لگا کر انہیں تسلی دی، اس دوران وہ آبدیدہ بھی نظر آئیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں نیوزی لینڈ سانحے کا سوگ منایا گیا۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کرکٹ میچ کے شائقین کی تعداد کم وبیش پینتیس ہزار بتائی گئی۔ کھلاڑیوں اور میچ دیکھنے کے لیے آنے والی مقتدر شخصیات کی حفاظت کے لئے پولیس اور رینجرز کے بیس ہزار سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ موسیقی کے پروگرام اور آتش بازی پر کروڑوں روپے پھونک دیئے گئے۔ کراچی کی آبادی دو کروڑ ہے، میچ میں ملک بھر سے پینتیس ہزار افراد شریک ہوئے اور انہوں نے شہدا کو بھلا کر خوب ہلّا گلّا کیا، اسے پوری قوم سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ نیشنل اسٹیڈیم میں گانے بجانے کی تقریب کے خلاف بعض شائقین کرکٹ نے جو پلے کارڈز اٹھاکر احتجاج کیا، ان پر درج تھا کہ نازیہ حسن (گلوکارہ) کو یاد رکھنے والے نعیم رشید کو کیوں بھول گئے، ان کا یہ فعل شرمناک ہے۔ دوسرے پلے کارڈ کی تحریر تھی، نیوزی لینڈ کے شہدا کا سوئم، قرآنی خوانی یا نغمے؟ ایک پلے کارڈ پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ احسان مانی سے براہ راست سوال کیا گیا کہ اگر آپ کا بھائی قتل ہوتا تب بھی آپ اس کے سوئم پر قرآن خوانی کے بجائے باجے بجاتے؟ حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ میچ کے موقع پر ناچ گانے کا اہتمام پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔
ہم ان کالموں میں متعدد بار واضح کرچکے ہیں کہ کرکٹ ہمارا قومی کھیل نہیں، یہ انگریزوں کے دور غلامی کی یادگار ہے۔ جسے غلامانہ ذہنیت کے حامل طبقوں نے ستر سال کے بعد بھی سینے سے لگا رکھا ہے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ حکمرانوں نے بھی اپنے قومی کھیل ہاکی اور عالمی کھیل فٹ بال کو چھوڑ کر کرکٹ کی ہمیشہ سرپرستی کی ہے۔ ہاکی اور فٹ بال سمیت ایسے بہت کھیل ہیں جو کم وقت اور سرمائے میں تفریح کے علاوہ صحت کے بھی ضامن ہیں۔ سرکاری سرپرستی سے محروم ہونے کی وجہ سے ہاکی کا مستقبل مخدوش ہوگیا ہے، جبکہ صرف کراچی کے ایک علاقے لیاری سے فٹ بال کے ایسے بلند پایہ کھلاڑی نکل سکتے ہیں، جو عالمی ٹیموں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کرکٹ کے ساتھ وقت اور پیسے کا ضیاع لازم و ملزوم ہے۔ نوجوان نسل کو تعمیری کاموں پر لگانے کے بجائے فضول اور غلامی کی یادگار ایک کھیل میں مصروف کر کے ان کی صلاحیتوں کو ضائع کیا جارہا ہے، جبکہ اس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچتا۔ اس کے ساتھ جو دوسرا منفی پہلو جڑا ہوا ہے، وہ حرام ناچ گانے، بیہودگی اور فحاشی ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بھانڈ اور مراثیوں کی کثیر تعداد کسی نہ کسی نشے کی علت میں مبتلا ہوتی ہے اور یہ سب چیزیں پاکستان کے مسلم معاشرے کا تشخص برباد کرنے والی ہیں۔ کرکٹ میچ کے موقع پر ہزاروں اہلکاروں کی تعیناتی پر جو اخراجات ہوتے ہیں، وہ عوام کی دولت کا ناجائز استعمال ہے۔ لوگ ہر شے پر جائز اور ناجائز ٹیکس اس لیے نہیں دیتے کہ ان کی خون پسینے کی کمائی رقص وسرور کے ایسے افراد کی حفاظت پر ضائع کی جائے۔ میچوں کے دوران اردگرد کے علاقوں میں تجارتی و کاروباری سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے لوگوں کا جو مالی نقصان ہوتا ہے، اسے پورا کرنے کا کوئی ذریعہ ہے نہ کوئی ادارہ۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ مناظر اس وقت دیکھنے میں آتے ہیں جب اہم شاہراہیں مختلف مقامات پر بند کر کے ٹریفک جام کی کیفیت سے شہریوں کو گزرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سڑکوں کی بندش سے گھنٹوں ہجوم میں پھنسے رہنے والے مسافروں اور پیدل جانے والوں میں بچے، بوڑھے، مریض اور خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، وہ سب اذیت سے گزرتے ہیں، ان کا کسی کو ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ چند ہزار لوگوں کی خوشی کی خاطر لاکھوں شہریوں کو عذاب میں مبتلا کرنے والے اہلکار اپنے اصل فرائض کی عدم ادائیگی اور غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ خدا و خلق کے خوف سے عاری یہ لوگ کسی کو جوابدہ نہیں، کیوں کہ ان سے اوپر کے حکام خود فواحش و منکرات کے نہ صرف عادی ہیں، بلکہ دوسروں کی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ ان حالات میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں اور ملک کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کے سامنے مظلوم و مقہور عوام یہی بات دوہراتے نظر آتے ہیں کہ: پس چہ باید کرد؟ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More