کرائسٹ چرچ کا سانحہ

0

نیوزی لینڈ کا شمار انتہائی پرامن ممالک میں ہوتا تھا۔ 15 مارچ نیوزی لینڈ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے سیاہ دن کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس وقت جب نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں نمازی کاندھے سے کاندھا جوڑ کر فرض نماز ادا کر رہے تھے کہ اچانک ایک سفید فام جنونی جس کا تعلق وائٹ پاور گروپ سے تھا، نے مسجد میں داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ برینٹن ٹرینٹ نفرت کی آگ میں نمازیوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کرتا رہا، برینٹن ٹرینٹامیگریشن اور مسلمانوں سے بے پناہ نفرت کرتا ہے، جس ہولناک طریقے سے اس نے نمازیوں کو مارا، ایسے تو کوئی جانوروں کو بھی نہیں مار سکتا۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں 50 نمازی شہید ہوئے، جس میں بچے، مرد اور عورتیں شامل ہیں، جبکہ تقریباً 50 نمازی زخمی ہوئے۔
9/11کے بعد سے اسلامی فوبیا کینسر کی طرح پھیلنا شروع ہوا۔ نیوزی لینڈ کی النور مسجد اور لینڈوڈ میں ہونے والا دلخراش واقعہ اس کی کڑی ہے۔ شدت پسند سفید فام وائٹ پاور کی برتری حاصل کرنے کیلئے کھوکھلے نعرے برسوں سے لگا رہے ہیں۔ KKK تنظیم اور دیگر اس نوعیت کی تنظیمیں اپنے مقصد کیلئے اسلحے کا سہارا لے رہی ہیں۔ 9/11 کے بعد درجنوں مساجد کو جلایا گیا، نیوزی لینڈ میں مسلمان 100 سال سے پہلے سے آباد ہیں، برینٹن ٹرینٹ جیسی سوچ رکھنے والے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور تیزی سے پھیلتا اسلام سے خوفزدہ ہیں۔
نیوزی لینڈ میں 57 مساجد اور اسلامی سینٹر ہیں، جبکہ مسلمانوں کی آبادی 46,149 ہے، جو نیوزی لینڈ کی آبادی ایک فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 28 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2030ء تک یہ آبادی 100,000 تک پہنچ جائے گی۔ برینٹن ٹرینٹ3 سال قبل آسٹریلیا سے آکر نیوزی لینڈ میں آباد ہو گیا۔ 2018ء میں کئی ممالک میں گھوما، جبکہ اکتوبر کے مہینے وہ پاکستان آیا تھا، اس نے اپنے دوستوں کو ایک ٹیکس میں لکھا کہ میں پاکستانیوں سے بہت متاثر ہوا ہوں، اس کا کہنا تھا کہ پاکستانی ملنسار، بہت مہمان نواز اور محبت کرنے والے
ہیں۔ تصور کریں پاکستانیوں نے اپنے کردار سے اس کے دل میں گھر کیا، لیکن افسوس پھر بھی مسلمانوں کے خلاف اس کے دل سے نفرت کی آگ نہ بجھ سکی۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے عدم اتفاق کے نتیجے میں اسلام دشمن مسلمانوں کو تنہائی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں مسلمان اپنے آپ کو کیوں غیر محفوظ سمجھتے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان ہے۔ جس کا فائدہ اسلام دشمن بھر پور طریقے سے اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف بھرپور پرپیگنڈہ کر کے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا جو مسلمانوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ بات ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان عدم اتحاد کے مرض میں مبتلا ہیں۔ تصور کریں 1969ء میں 21 اگست کو ایک انتہائی ناخوشگور اور سنگین واقعہ پیش آیا۔ ایک اسرائیلی انتہا پسند نے مسلمانوں کے مرکز عقیدت مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچایا، جس پر عالم اسلام میں غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ اس واقعے کے بعد عالم اسلام کے رہنما اور سربراہان مراکش کے شہر رباط میں جمع ہوئے، جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مسلمان ممالک کو سیاسی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور سائنسی شعبوں میں متحد کرنے کیلئے اجتماعی کوشش کی جائے اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔
ان مقاصد کے حصول کیلئے او آئی سی کے نام سے ایک تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 25 ستمبر 1969ء کو او آئی سی وجود میں آئی۔ جس کا مقصد مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ آپس میں متحد رکھنا تھا۔ او آئی سی تنظیم 57 اسلامی ممالک پر مشتمل ہے، جس کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کی پانچواں حصہ ہے، اس کا دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ اس تنظیم کی سرکاری زبانیں عربی، انگریزی اور فرانسیسی ہیں۔ اس تنظیم کو اقوام متحدہ میں باضابطہ نمائندگی دی گئی ہے اور اس کا نمائندہ وفد اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں موجود رہتا ہے۔
امت مسلمہ کو متحد کرنے کی کوشش تقریباً انیسویں صدی سے جاری ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ 1969ء سے اب تک مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم مسلمانوں کے تحفظ کیلئے ایسا کوئی مثبت کام نہ کرسکی، جس کا ذکر یہاں کیا جائے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنی توانائی، صلاحیتیں اور سرمایہ لے کر مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں اور وہاں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں؟ او آئی سی مسلمانوں کو وہ مواقع دینے میں ناکام کیوں رہی؟ جو مسلمان مغربی ممالک میں حاصل کرتے ہیں۔ او آئی سی نے وجود میں آنے کے بعد کاغذی شیر کا کردار ادا کیا۔ بیانات تک محدود رہی اور قراردادیں منظور کر کے فائلوں کا پیٹ بھرتی رہی۔ او آئی سی اگر مسلمانوں کے لئے مثبت اقدامات کرتی تو اس طرح دنیا بھر میں مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح نہ مارا جاتا۔ آج دنیا بھر میں مسلمان اپنے آپ کو کیوںغیر محفوظ سمجھتے ہیں؟ بنیادی وجہ مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان ہے، جس کا فائدہ اسلام دشمن بھر پور طریقے سے اٹھا رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ میں جس بے دردی سے مسلمانوں کو شہید کیا گیا، یہ سانحہ پہلا اور آخری نہیں۔ او آئی سی کی ناک کے نیچے شام اور عراق کو کھنڈرات میںبدل دیا گیا اور اب شام و عراق میں داعش مسلمانوں کو مار رہی ہے۔ ان حالات میں او آئی سی کا کردار بیانات تک محدود ہے۔ فلسطین میں یہودیوں اور کشمیر میں ہندؤوں نے ظلم اور بربریت کی آخری حدیں پار کر کے رکھ دیں۔ جبکہ او آئی سی بے بس دکھائی دیتی ہے۔ برما میں بدھسٹ مسلمانوں کا کھلے عام خون بہا رہے ہیں۔ افسوس او آئی سی مجبور دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان اور افریقہ میں اسلام دشمنوں کے ہاتھ خون مسلم سے رنگے ہیں اور او آئی سی کے بس میں کچھ نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اس تمام صورت حال کے باوجود اسلام دشمنوں نے مسلمانوں کے لئے دہشت گرد کا فتویٰ جاری کر رکھا ہے۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والے دلخراش واقعہ کے بعد وزیر اعظم جیسنڈ آرڈن یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ النور اور لینڈوڈ مساجد میں ہونے والی دہشت گردی کی مثال نیوزی لینڈ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ رسول اقدسؐ کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جب جسم کے ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ کیا ہم مسلمان ہونے کے ناطے نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا درد محسوس کر رہے ہیں؟
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More