سفید فام انتہا پسندی

0

کرائسٹ چرچ کا گھاؤ بہت گہرا تھا، مگر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے اس گھاؤ پر اتنی نفاست اور اتنی شفقت سے مرہم رکھا کہ دنیا کے مسلمانوں کے دل میں پیدا ہونے والا درد کافی حد تک کم ہوگیا۔ لیبر پارٹی کی لیڈر اور اپنے ملک کی چالیسویں وزیر اعظم نے اپنے ملک کے مسلمانوں اور دردمند انسانوں کے احساسات کو جس طرح اپنے الفاظ میں پرویا اس کی تعریف پوری دنیا کر رہی ہے۔ جاسنڈا آرڈن کے سیاہ لباس اور دوپٹے سے ڈھکے ہوئے سر کے بارے میں بہت ساری باتیں ہوتی رہی ہیں، مگر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کرائسٹ چرچ والے واقعے کے بعد اپنے بیانات اور انٹریوز میں جو باتیں کی ہیں، وہ بہت اہم ہیں۔ جاسنڈا آرڈرن مغرب کی پہلی حکمران ہیں، جنہوں نے واضح طور پر اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ مغرب میں پنپنے والی انتہا پسندی عالمی امن کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ جاسنڈا آرڈرن نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ’’مغرب میں سفید فام قوم پرستی بہت بڑا چیلنج ہے۔‘‘
جاسنڈا آرڈرن نے جو باتیں کی ہیں، وہ نئی نہیں ہیں۔ سفید فام قوم پرستی پر بہت کچھ بولا اور لکھا گیا ہے، مگر افریقی قوم پرستی کے حوالے سے تو سفید فام قوم پرستی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جب افریقہ کے عظیم دانشور فرانز فینن نے ’’افتادگان خاک‘‘ کے نام سے اپنی مشہور کتاب تحریر کی تھی، تب اس کتاب کا دیباچہ لکھتے ہوئے فرانس کے وجودیت پسند دانشور سارتر نے کتاب کے مصنف کو ’’سیاہ رنگت، مگر سفید زبان‘‘ والا انسان قرار دیا تھا۔ مگر اس کالم میں اس سفید فام قوم پرستی کا تذکرہ نہیں ہے، جس سفید فام قوم پرستی کو دوسری جنگ عظیم سے قبل نوآبادیاتی نظام میں جکڑے ہوئے باغی اپنی نفرت کا نشانہ بناتے تھے۔ وہ سفید قوم پرستی کچھ اور تھی، جس کے تابوت میں بظاہر آخری کیل جنوبی افریقہ میں ٹھوکی گئی۔ اس قوم پرستی کے بارے میں خاموش کتابوں کے اندر طوفانی مباحثے موجود ہیں، مگر ہمارا موضوع وہ قوم پرستی نہیں، جو مغرب کے ماضی میں تھی۔ ہم اس سفید فام قوم پرستی کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جس پر بہت سارے مشرقی اور کچھ مغربی دانشوروں نے اظہار خیال کیا ہے، مگر سیاسی اسٹیج پر اس بیانیے کو مناسب اہمیت نہیں دی گئی۔ مغرب کے سیاستدان اپنے ایوانوں میں تو بہت چیختے اور چلاتے ہیں، مگر کسی ملک کے صدر یا وزیر اعظم نے یہ نہیں کہا کہ ہماری سرزمین پر نفرت کی نئے فصل پیدا ہو رہی ہے۔ اس خطرے کی نشاندہی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کی ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔
سفید فام انتہا پسندی اتنی خطرناک ہے کہ اس پر عالمی سطح پر مباحثے ہونے چاہئیں، اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے اور اس کو روکنے کے لیے حکمت عملی بنانے کے سلسلے میں دنیا کے دانشور اور سیاسی دماغ سر جوڑ کر بیٹھیں تو ہم اس ابھرتے ہوئے نقصان کی شدت سے بچ سکتے ہیں، مگر امریکہ اور کچھ یورپی ممالک اس سوچ کی مخالفت کرنے کے بارے میں تیار نظر نہیں آتے۔ ان ممالک کے حکمرانوں کے الفاظ اور اعمال پر غور کیا جائے تو وہ اس قسم کی سوچ کو دل شکستہ کرنے کے بجائے اس کی ہمت افزائی کرنے کی چھپی ہوئی کوشش میں مصروف ہیں۔ مغرب کے حکمران اپنی سوچ میں سفید فام قوم پرست ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں سفید فام قوم پرستی کو تقویت حاصل ہو۔ ان کے دل میں یہ بات گہرائی سے موجود ہیں کہ وہ الگ مخلوق ہیں۔ ان کی نفسیات میں جو سفید فام شاؤنزم ہے، اس کو کسی نے کسی طریقے سے زیادہ مضبوط کرنے اور کسی نے کسی بہانے اس سوچ کو عوامی نفسیات میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ سارے سیاستدان اور حکمران دنیا کو نفرت کی ایک نئی آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں۔ یہ ہی سبب ہے کہ جب بھی امریکہ یا یورپ میں کسی مسلمان پر کسی شدت پسند سفید شخص نے حملہ کیا ہے، تب اس ملک کی حکومت نے اس سوچ کے خلاف اس طرح مؤقف نہیں اپنایا، جس طرح نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈ آرڈرن نے اختیار کیا ہے۔ وہ اب تک اپنے خیالات کا بے باکی سے اظہار کر رہی ہیں، مگر بہت جلد ان پر مغربی حاکمیت دباؤ بڑھائے گی اور انہیں اس موضوع پر اپنے خیالات کے اظہار سے روکے گی۔ جاسنڈا آرڈرن اچھے مزاج اور نیک طبیعت کی مالک خاتون ہیں۔ وہ مغربی حکمرانوں کی مانند منافق نہیں ہیں۔ وہ امن سے محبت کرتی ہیں۔ وہ عقائد سے بلند ہوکر عوام کی عزت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دنیا آغوش مادر کی طرح محفوظ ہونی چاہئے، مگر جب دنیا میں ماؤں کی آغوش بھی محفوظ نہیں تو پھر ماں جیسے احساسات رکھنے والی خاتون حکمران کے دل میں تشویش کی لہر تو لازمی طور پر ابھرے گی۔
اگر مغرب کے اکثر حکمران جاسنڈا جیسے ہوں تو پھر یہ دنیا امن کا آشیانہ بن جائے۔ جاسنڈا آرڈرن تو ایک ننھی منی سی فاختہ ہیں۔ جو اپنی چونچ میں پانی کے چند قطرے بھر کر نفرت اور تعصب کی بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہی ہے، مگر وہ آگ جو بڑی عیاری سے بھڑکائی گئی ہے، اس آگ کو پانی کے چند قطرے نہیں بجھا سکتے، مگر ایک فاختہ کی چونچ میں پانی کے چند قطرے اس کا کردار بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ جاسنڈا آرڈرن کی اہمیت اس حوالے سے نہیں ہے کہ انہوں نے کرائسٹ چرچ کے سانحے میں اعلیٰ انسانی کردار ادا کیا، بلکہ اس خاتون حکمران کی زیادہ اہمیت اس کے اس اظہار میں پنہاں ہے، جو ہمیں صاف الفاظ میں بتا رہا ہے کہ کرائسٹ چرچ کسی ایک شخص کا پاگل پن نہیں تھا، درحقیقت یہ ایک ایسی سوچ ہے، جو مغرب میں نہ صرف جڑ پکڑ چکی ہے، بلکہ یہ اب تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ دنیا کے کافی دانشوروں اور لکھاریوں نے کرائسٹ چرچ قتل عام کے مجرم کو جنونی قرار دے کر نہ صرف اسے بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بلکہ انہوں نے اس خطرے پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کی، جس کے بارے میں جاسنڈا آرڈرن نے کھل کر بات کی ہے۔ جاسنڈا آرڈرن نے بتایا ہے کہ کرائسٹ چرچ ہمارے ملک کی انٹیلی جنس کی غفلت تھی۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ سفید فام شدت پسندوں پر ان کے ملک کے حساس ادارے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جاسنڈا آرڈرن سے جتنا ہو سکا، انہوں نے اتنا کیا، مگر یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد مغربی میڈیا نے مسلمان مخالف شدت پسند سوچ پر تنقید نہیں کی۔ مغربی میڈیا کو معلوم ہے کہ مغرب کے کسی بھی ملک میں کرائسٹ چرچ سے بڑا واقعہ ہو سکتا ہے، مگر اس بارے میں کسی بڑے ادارے نے اپنے ملک کی حکومت کو احتیاطی تدابیر لینے کا مشورہ نہیں دیا۔ کیا کرائسٹ چرچ والے واقعے کے بعد خوف کی فضا صرف نیوزی لینڈ تک محدود تھی؟ نہیں۔ یقینی طور پر نہیں۔ اس دن نہ صرف نیوزی لینڈ بلکہ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ جیسے ممالک میں بسنے والے مسلمان واضح طور پر عدم تحفظ کی کیفیت سے گزرے ہوں گے۔ اس دن وہ اپنی دکانوں اور کام کی جگہوں سے جلد واپس لوٹے ہوں گے اور دیر تک چینلوں پر کرائسٹ چرچ کے بارے میں رپورٹس دیکھتے رہے ہوں گے۔ اس رات مغرب میں بسنے والے بہت سارے خاندانوں نے رات کا کھانا ٹھیک سے نہیں کھایا ہوگا۔ کسی نے کوئی بہانہ کیا ہوگا اور کسی نے کوئی بہانہ کیا ہوگا، مگر سب کو سب کے دل کا حال معلوم ہوگا۔ ایسے سانحات عدم تحفظ کی شدید ترین لہر پیدا کرتے ہیں اور ایسے واقعات کے اثر سے کسی کا بچنا آسان نہیں ہوتا۔ مغرب میں مسلمان کافی وقت سے اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرتے، مگر کرائسٹ چرچ کے واقعے نے تو ان کے سارے پرانے زخم ہرے کردیئے ہیں۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ دنیا کی اتنی بڑی آبادی کے حالات اور احساسات کے بارے میں میڈیا مجرمانہ چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
اس وقت مغرب کی فضاؤں میں دہشت گردی کا دیو منڈلا رہا ہے۔ اس دیو کا ٹارگٹ وہ لوگ ہیں، جو عقیدے اور اپنی رنگت کی وجہ سے ان مغربی لوگوں سے ہضم نہیں ہو رہے، جن میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری گئی ہے۔ مغرب کی جس سوچ نے اپنا رشتہ تاریخ کے تعصبی دور سے جوڑا ہے، وہ سوچ نہ صرف مضبوط ہو رہی ہے، بلکہ وہ بہت جلد منظم ہوکر منظر عام پر بھی آجائے گی۔ مغربی ممالک کے اداروں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے معاشروں میں نفرت کا ٹائم بم مستقل طور پر ٹک ٹک کر رہا ہے، مگر وہ ادارے جان بوجھ کر اس خطرے کا نوٹس نہیں لے رہے۔ مغربی ممالک کے حساس اداروں کی اس خطرے کی طرف لاپروائی اس شک کو بھی جنم دے رہی ہے کہ مغربی ممالک کے جاسوسی اور تفتیشی ادارے جان بوجھ کر اس سوچ کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک کے اداروں کی سوچ بھی انتہا پسندی کی حامی ہے۔ جس طرح امریکہ کا موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کو غیر امریکیوں سے خالی کرانے کے نعرے پر بھاری ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، اسی طرح مغرب کے سیاستدان اپنے معاشرے میں اس سوچ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کو اپنے معاشرے کے لیے اس طرح بہتر سمجھتے ہیں جس طرح جرمن قوم کے ذہین لوگوں نے بھی ہٹلر کے پاگل پن کی عملی حمایت کی تھی۔ مغرب کی سفید فام قوم پرستی کو اپنی انتہا پسند سوچ میں اور کون سے مفادات نظر آ رہے ہیں؟ یہ سوال تو سنجیدہ تحقیق کا تقاضا کرتا ہے، مگر ظاہری طور پر یہ سوچ اپنے ممالک کو ان مسلمانوں سے خالی کرانا چاہتی ہے، جو تاریخ کے حالات میں مغربی ممالک کی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ ایک خطرناک اور فاشسٹ سوچ ہے۔ اس سوچ کی ہمت شکنی کا فرض ان سب انسانوں پر عائد ہوتا ہے، جو انسان اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔ انتہا پسندی کی سوچ سماج میں جڑ پکڑ لے تو پھر یہ اجتماعی دیوانگی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ آج اگر اس سوچ سے مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کو خطرہ ہے تو کل یہ سوچ ان سارے انسانوں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے، جو غیر عیسائی ہیں۔ اس سوچ کو فکری طور پر شکست دینے کے لیے دنیا کے دانشوروں اور سوچنے سمجھنے والے انسانوں کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ انتہا پسندی ایک ایسی آگ ہے، جس سے مجموعی انسانیت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ اگر آج اس سوچ پر قابونہیں پایا گیا تو پھر کل اس سوچ سے مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More