معارف القرآن

0

خلاصۂ تفسیر
اور (نیز) ان لوگوں کا (بھی مال فئی میں حق ہے) جو دارالاسلام (یعنی مدینہ) میں ایمان میں ان (مہاجرین) کے (آنے کے) قبل سے قرار پکڑے ہوئے ہیں (مراد اس سے انصاری حضرات ہیں اور مدینہ میں ان کا پہلے قرار پکڑنا تو ظاہر ہے کہ وہ یہیں کے باشندے تھے اور ایمان میں پہلے قرار پکڑنے کا یہ مطلب نہیں کہ سب انصار کا ایمان سب مہاجرین سے مقدم ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ مہاجرین کے مدینہ میں آنے سے قبل ہی یہ حضرات مشرف باسلام ہوچکے تھے، خواہ اصل ایمان ان کا بعض مہاجرین کے ایمان سے مؤخر ہی ہو) جو ان کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے اس سے یہ لوگ محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو (مال غنیمت وغیرہ میں سے) جو کچھ ملتا ہے اس سے یہ (انصار بوجہ محبت کے) اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے اور (بلکہ اس سے بھی بڑھ کر محبت کرتے ہیں کہ اطعام وغیرہ میں ان کو) اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہی ہو (یعنی خود بسا اوقات فاقہ سے بیٹھ رہتے ہیں اور مہاجرین کو کھلا دیتے ہیں) اور (واقعی) جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جاوے (جیسے یہ لوگ ہیں کہ حرص اور اس کے مقتضا پر عمل کرنے سے حق نے ان کو پاک رکھا ہے) ایسے لوگ فلاح پانے والے ہیں اور ان لوگوں کا (بھی اس مال فئی میں حق ہے) جو (دارالاسلام میں یا ہجرت میں یا دنیا میں) ان (مہاجرین و انصار مذکورین) کے بعد آئے (یا آئیں گے) جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو (بھی) جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں (خواہ نفس ایمان یا ایمان کامل کہ موقوف ہجرت پر تھا) اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ ہونے دیجئے (یہ دعائے متقدمین کے علاوہ معاصرین کو بھی شامل ہے) اے ہمارے رب آپ بڑے شفیق رحم ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More