حکومت نے سیلاب سےنمٹنے کے لئےکوئی تیاری نہیں کی

0

نمائندہ امت
وزارت آبی وسائل اور فیڈرل فلڈ کمیشن نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لئے پندرہ ارب روپے اخراجات کا ایک منصوبہ گزشتہ سال نومبر میں وفاقی حکومت کو منظوری کے لئے بھجوایا تھا، جو ابھی تک منظوری کا ہی منتظر ہے۔ اس منصوبے پر چند ارب روپے خرچ کر کے اربوں ڈالر کے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس سال پورے ملک، خصوصاً شمالی پہاڑی علاقوں اور کشمیر میں غیر معمولی بارشوں اور اب مارچ کے مہینے میں بھی جاری برف باری کی وجہ سے اس سال بڑے سیلاب (Super Floed) کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ وزارت آبی وسائل کے قائم مقام سیکریٹری مہر علی شاہ اور فیڈرل فلڈ کمیشن کے چیئرمین احمد کمال نے قومی اسمبلی کی وزارت آبی وسائل کی قائمہ کیمٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں، حالیہ بارشوں اور برف باری کی وجہ سے سپر سیلاب کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ 2010ء میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ اور تحفظ کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی اور گزشتہ سال فیڈرل فلڈ کمیشن اور وزارت آبی وسائل نے صوبائی حکومت کی مشاورت سے پندرہ ارب روپے کے اخراجات پر مبنی ایک منصوبہ تیار کیا تھا، جو مختلف مراحل سے منظوری سے گزرنے کے بعد جنوری 2019ء سے ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل (ECNEC) کے پاس منظوری کے لئے موجود ہے۔ اگر اس کی فوری منظوری نہ دی گئی اور منصوبے کے لئے فنڈز جاری نہ ہوئے تو ممکنہ سیلاب کی تباہ کاریاں قومی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بھی بنیں گی۔
ذرائع کے مطابق 2010ء کے سیلاب کے نتیجے میں تقریباً دو ہزار اموات ہوئی تھیں۔ جبکہ تینتالیس ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا تھا۔ اس تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں دو کروڑ افراد اور ڈیڑھ لاکھ اسکوائر کلومیٹر علاقے اور سترہ ہزار پانچ سو تریپن ( 17553) دیہات متاثر ہوئے تھے۔ اتنے بڑے نقصان کے بعد متعقلہ قومی اداروں نے گزشتہ حکومت کے دور میں ایک منصوبہ بنایا، جسے نیشنل فلڈ پروٹیکشن پراجیکٹ فور (NFPP-IV) کا نام دیا گیا۔ اس حکومت کے قیام سے پہلے سابق صوبائی حکومتوں نے اس منصوبے کی منظوری دے دی تھی۔ نومبر 18ء میں وزارت آبی وسائل نے اس منصوبے کو نوک پلک سنوارنے کے بعد وفاقی وزارت منصوبہ بندی کو بھیجا۔ بعد ازاں ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل (ECNEC) کو بھیجا گیا، تاکہ اس کی منظوری کے بعد فنڈز کا اجرا ممکن ہو سکے۔ لیکن ابھی تک یہ منصوبہ منظوری کا منتظر ہے۔
چیئرمین فیڈرل فلڈ کمیشن احمد کمال نے اس بارے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’2010ء میں اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب کا امکان نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود ایک غیر معمولی سیلاب آیا، جس سے بہت زیادہ قیمتی جانی نقصان ہوا، اور لگ بھگ چوالیس ارب ڈالر کا معیشت کو نقصان پہنچا۔ اس سال سپر فلڈ کا خطرہ اس لئے ہے کہ بارشیں بہت زیادہ ہوئی ہیں۔ برف باری اب بھی بعض علاقوں میں جاری ہے۔ جبکہ برفباری ان پہاڑی علاقوں میں بھی ہوئی، جہاں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ گزشتہ چار پانچ برس سے موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی ہمیں سامنا ہے۔ اگر ان سب امور کے ساتھ مون سون بھی برستا ہے تو سیلاب کا خطرہ موجود ہے۔ ہماری 2010ء میں جو آنکھیں بند تھیں، اب ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں احمد کمال نے کہا کہ ’’پلاننگ کمیشن کے پاس بہت سے منصوبے جاتے ہیں، جو التوا کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اس منصوبے کو التوا میں نہیں ڈالا جانا چاہیے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر ہی ہم نے اسے کچھ ہائی لائٹ کیا ہے‘‘۔ ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ پراجیکٹ فوری طور پر منظور ہو بھی جائے تو اس کے لیے فنڈز اگلے مالی سال میں ہی ملیں گے۔ اس سال کے ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کے لئے ہمیں دیگر متعلقہ امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ کام ابھی سے شروع ہوجانا چاہیے۔ ہم حکومت کے متعقلہ اداروں کو اس سے آگاہ کر رہے ہیں۔ لوگوں کو اس کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لئے محکموں کے درمیان باہمی ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ صوبائی اور مقامی حکومتوں اور انتظامیہ کو دریاؤں کے کنارے نشیبی علاقوں میں رہنے والے افراد کو ابھی سے خطرے سے آگاہ کر کے ان کے صرف جانی ہی نہیں، بلکہ مالی نقصان کے بچاؤ کے لئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں اور سیلاب کی صورت میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More