بھارت میزائل مارنے کی غلطی نہ کرے

0

نصرت مرزا
امریکہ نے جب خلائی جہاز X37B اور اُس کے ساتھ میناتور میزائل فور بنایا تو یہ دعویٰ کیا کہ وہ دُنیا کے کسی بھی حصے میں یہ ایک گھنٹہ کی مدت میں میزائل داغ سکتا ہے اور کسی بھی ہدف، چاہے وہ زمین کے اندر میلوں دور چھپا ہو، اُس کو نشانہ بنا سکتا ہے، عام آدمی اور دُنیا بھر کے ممالک میں خطرہ کی گھنٹی بج گئی اور خود پاکستان میں ہم نے لکھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات کو خطرہ ہے، مگر پھر امریکہ کو وارننگ دی گئی کہ اگر کوئی میزائل خلاء میں موجود جہاز X37B سے چھوڑا گیا تو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ اس کا ہدف کیا ہے، دوسرے یہ بھی معلوم نہیں ہو سکے گا کہ آیا وہ ایٹمی میزائل ہے اور اُس کا ہدف کس ملک کے ایٹمی اثاثہ جات ہیں، تو اس ملک یا دُنیا کا ہر ایٹمی ملک کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ امریکی سرزمین پر حملہ کر دے گا، ایک گھنٹہ کا وقت بہت ہوتا ہے اور امریکہ پر حملہ کے لئے یہ وقت کافی ہے، چنانچہ امریکہ نے میناتور 4 کے استعمال کا ارادہ ترک کردیا۔
اسی طرح اس وقت بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی جس طرح سے جنگی جنون میں مبتلا ہیں، انہیں چھ محاذوں پر منہ کی کھانا پڑی ہے، یعنی بری، بحری اور فضائی میدان میں بھارت مکمل طور پر ناکام ہوا ہے، پاکستان نے اس کا غرور خاک میں ملا دیا، اُس کے دو جہاز کو گرانا سب نے دیکھا اور تیسرے کے بارے میں پاکستان اس لئے دعویٰ نہیں کرتا ہے کہ وہ بھارت کے اندر جا کر گرا ہے اور اس کے شواہد ہمیں فی الوقت نہیں مل سکے ہیں، ممکن ہے کسی وقت فیس بک پر اِس کی بھی ویڈیو کوئی اپ لوڈ کر دے۔
اِس کے علاوہ غیر مصدقہ اطلاعات کے بموجب پاکستان نے اسرائیل کے میزائل اسپائس 2000 کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے کہ وہ پھٹ نہیں سکا ہے اور اسرائیل کی جدید ترین ٹیکنالوجی پاکستان کے ہاتھ لگ گئی ہے اور اسرائیل کو بھارتی صلاحیت کا بھی اندازہ ہوگیا ہوگا، تاہم اسرائیل کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستانی ہوا بازوں نے عرب اسرائیل جنگ میں اردن سے اڑ کر اسرائیل کے اپنے چار جہازوں میں سے دو کو گرا دیا تھا اور دو اسرائیلی جہاز پاکستان پاکستان کہتے بھاگ گئے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اتنی مہارت کا نشانہ پاکستانی ہوابازوں کا طرئہ امتیاز ہے، نہ صرف یہ بلکہ جنرل ضیاء الحق اس وقت اردن میں بطور مشیر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے ٹینکوں کی جنگ میں بھی اسرائیلی فوج کے دانت کھٹے کر دیئے تھے۔ اگر بات کو آگے بڑھائیں تو افغانستان میں کمیونسٹ دور میں روس کے جہازوں کو بھی پاکستان نے انتہائی مہارت سے ایک سے زیادہ مرتبہ مار گرایا تھا، کئی دفعہ کی جنگ میں پاکستان کا صرف ایک جہاز تباہ ہوا تھا، جس کا ملبہ اور پائلٹ افغان مجاہدین نے محبت کی وجہ سے پاکستان کے حوالے کر دیا تھا۔
سو اگر پاکستانی ہوابازوں کی فضائی جنگ میں برتری و مہارت تاحال خدا کے کرم و فضل سے مسلم ہے۔ دوسرے بھارت زخمی سانپ کی طرح جھنجلایا ہوا ہے کہ ہمارے بحری طیاروں نے نہ صرف بھارتی بحری آبدوز کو دیکھ لیا، بلکہ کئی روز تک اُس کو اپنی نظروں میں رکھا، جو ایسا ہی ہے کہ صحرا میں کسی سوئی کو تلاش کرنا۔ اسی طرح بری فوج نے بھارت کے ہر حملے کا جواب دیا ہے اور بقول ایک فوجی افسر کے بھارت اپنی فوجیوں کی اموات کی گنتی کررہا ہوگا اور شرم کی وجہ سے منظرعام پر بھی نہیں لارہا ہے، پھر سفارتی محاذ پر اُس کو سبکی ہوئی ہے کہ وہ ایک تو بالاکوٹ میں جیش محمد کے تربیتی کیمپ پر حملہ اور تین سو افراد کو مارنے کے دعوے کا کوئی ثبوت دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکا، بلکہ او آئی سی کے اجلاس میں اُس کی دہشت گردی اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کی مذمت کی گئی۔
معاملہ یہاں تک ہی نہیں رکا، بلکہ دُنیا بھر کے اخبارات نے بھی بھارتیوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ ایک تو اس نے خود مختار ایٹمی ملک کی سرحد کو عبور کرکے عالمی امن کو خطرے میں ڈالا اور دوسرے بچکانہ حرکت کرکے دعوے کئے، جو غلط ثابت ہوئے۔ ایک اور شکست بھارت کے نصیب میں آئی، وہ مییڈیا کی جنگ تھی۔ بھارت کے 400 ٹی وی چینلز اپنے سپاہیوں کو دھکے مار مار کر پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے میدانِ جنگ میں لاشوں کے انبار لگانا چاہتے تھے، جب کہ اُن کے اپنے دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ بھارت جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ نہ تو ان کے پاس جنگ کی تیاری ہے اور نہ اُن کے افواج جنگ کے لئے ارادہ رکھتی ہیں۔ اُن کو مگ 19 اور سخوئی، 2000 کی موجودگی میں رافیل طیارے کی یاد ستا رہی ہے، جو ابھی فرانس سے آنا باقی ہیں۔ اگر وہ آ بھی جائے تو پاکستان کو ایف 17 تھنڈر کا تیسری جدید ترین قسم پاکستان کو مل جائے گی۔ اس طرح رافیل کے آ جانے سے اُن کی برتری کی خواہش پوری نہ ہو سکے گی۔
پاکستان کے فوجی افسران کا کہنا ہے کہ بھارت کا کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن اور اُن کا متحرک اسٹرائیک آپریشن ڈاکٹرائن زندہ دفن ہوگیا، اب مودی کسی اوچھی حرکت کی سوچ رہا ہوگا، ہمارے فوجی یہ کہتے ہیں کہ اُسی طرح حالت مستعدی میں رہنا ہے، جس طرح ایک باکسر اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرہ کا دفاع کے لئے تیار رہتا ہے، اگر وہ کوئی میزائل پھیکنے کی غلطی کرتا ہے تو اُس کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کا کیا جواب ہوگا، جب امریکہ جیسا ملک ایسے کسی میزائل کو داغنے سے باز آیا تو بھارت کو اس پر سوچ لینا چاہئے کہ پاکستان مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق بھارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔ اُس کا پاکستان کے قریب کوئی مورچہ نہیں بچے گا اور نہ ہی اُن کے گیریزن قائم رہ سکیں گے۔ دوسرے میزائل آنے کی صورت میں معلوم نہیں ہو سکے گا، آیا عام میزائل ہے یا ایٹمی میزائل ہے، اس لئے وہ ایٹمی میزائل ہی سمجھا جائے گا اور پھر پاکستان جوابی حملہ میں جو نقصان پہنچا سکتا ہے وہ کرے گا۔
ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ پاکستان کے کیا اہداف ہوں گے، مگر ایسی صورت میں بھارت کا کوئی شہر، کوئی ایٹمی پلانٹ، سول یا ملٹری محفوظ نہیں رہ سکے گا، یہاں تک کہ وہ جسے محفوظ سمجھتے ہیں، یعنی کالاپانی انڈو مان جزیرہ اور نکوبار بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے، اس لئے کسی ایٹمی ملک کو ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہئے تھا، جیسا کہ پاکستان دے رہا ہے۔ ایک حد سے آگے نہیں جاتا۔ بھارت کی جارحیت کے جواب میں وارننگ دے کر یا سبق سکھا تو دیتا ہے، مگر جنگ کو بڑھاتا نہیں ہے۔ بھارت کا پائلٹ واپس کر دینا پاکستان کا اسٹائل ہے۔ اس نے روسی پائلٹوں کو بھی پکڑ کر چھوڑ دیا تھا، اسی طرح بھارت کے پائلٹ کو بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرکے رہا کر دیا۔ وہ چاہتا تو تھوڑا دبائو برداشت کرکے بھارت کو عاجزی اور درخواست کرنے پر مجبور کرسکتا تھا، اس سے اُس کو اہم اسٹرٹیجک ملک کی حیثیت حاصل ہو جاتی، مگر شاید وہ سمجھتا ہے کہ وہ ایٹمی ملک ہے۔ اگر کوئی اپنے دماغی خلل کی وجہ سے اسے ایٹمی ملک نہ سمجھے تو وہ پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔
پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک کا رویہ اپنائے ہوئے ہے، اس لئے دُنیا پاکستان کی ذمہ داری، تحمل اور ایٹمی ملک جیسا رویہ اپنانے کو اگرچہ سراہ رہی ہے، مگر اس سے آگے بڑھ کر پاکستان کو ایٹمی ملک ماننے اور اس کو ایٹمی سپلائرز گروپ میں شامل کرنے میں پہل کرنی چاہئے اور بھارت کو بھی اِس ادارے کا ممبر بنا لے تو ہمیں ذرا اعتراض نہیں، اس کے علاوہ ہم روس کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ذمہ دار رویہ اختیار کیا، اُس کے ایک چینل نے بھارت کے سفیر سے پوچھا کہ وہ کیوں ایک خود مختار ملک پر حملہ آور ہوا اور یہ کہ کیا وہ اس کے نتائج سے واقف تھا؟ اس کے ساتھ ساتھ روس کے صدر پیوٹن نے مصالحت کی پیشکش کی، جو ہم نے تو قبول کرلی، مگر بھارت نے ٹھکرا دی، مگر روسی صدر کو شنگھائی تعاون تنظیم کی روح کے مطابق بھارت کو سمجھانا چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو امن پسند اور ذمہ دار ملک ثابت کرے اور پاکستان سے بامعنی مذاکرات پر راضی ہو جائے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More