مودی سرکار کے اوچھے ہتھکنڈے

0

نریندر مودی جیسے پاکستان اور مسلمان دشمن شخص کی منافقت اور دوغلے پن کا اظہار آئے دن دنیا کے سامنے آتا رہتا ہے، لہٰذا ان کے کسی قول پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ بھارتی وزیراعظم کی جانب سے یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کے لئے دیئے جانے والے خیر سگالی پیغام کی قلعی اسی روز کھل گئی، جب بھارت نے تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نئی دہلی میں یوم پاکستان کی تقریب کا بائیکاٹ کیا، حالانکہ ایک روز پہلے ہی نریندر مودی نے وزیراعظم عمران خان کے نام اپنے پیغام میں مل جل کر کام کرنے اور امن کو فروغ دینے پر زور دیا تھا۔ ان کے اس پیغام پر کانگریس رہنمائوں نے ردعمل کا اظہار یوں کیا کہ مودی جی محبت نامے لکھنا بند کر دیں۔ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں یوم پاکستان کی تقریب کے شرکاء سے بھارتی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے نہ صرف بد تمیزی کی، بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا۔ دنیا بھر میں مختلف ممالک کی فوجی تقریبات جہاں بھی منعقد ہوتی ہیں، اس ملک کے حکومتی ترجمان اس میں رسمی طور پر شریک ہوتے ہیں، لیکن بھارت ان اخلاقی اور سفارتی آداب و روایات کا احترام بھی نہیں کرتا۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار ہے، جبکہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں اور اپنے ملک کی اقلیتوں سے اس کا سلوک بنیادی انسانی اقدار سے بھی گرا ہوا رہتا ہے۔ نئی دہلی میں تیئس مارچ کو پاکستانی ہائی کمیشن میں یوم پاکستان کی تقریب کے موقع پر پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود نے قومی پرچم لہرایا۔ شرکاء نے قومی ترانہ پڑھا اور کیک کاٹا گیا تو مختلف ممالک کے سفیروں، بھارت کی کاروباری شخصیات اور کئی رہنمائوں نے خوش دلی کے ساتھ شرکت کی، لیکن بھارتی حکومت کا کوئی نمائندہ اس تقریب میں شریک نہیں ہوا۔ اس کے برعکس تقریب کے آغاز و اختتام پر بھارتی خفیہ اداروں کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے ہائی کمیشن کے باہر تقریب کے شرکاء کو ڈرایا دھمکایا اور بھارتی تاجروں کو بھی پوچھ گچھ کے نام پر ہراساں کیا گیا۔ ان کے اس نامناسب رویے پر تقریب میں شریک تاجروں نے احتجاج کیا۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے بھارت کے غیر سفارتی رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ بھارت نے پاکستان کی امن کی کوششوں کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا۔ یوم پاکستان کی تقریب کے حوالے سے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار کا کہنا تھا کہ میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ بھارت نے پاکستان کے قومی دن پر کسی نمائندے کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بھارت کی جمہوریت کا پول اس وقت کھل گیا جب انسانی حقوق سے متعلق ایک تنظیم کے رہنما حسن انتوکو پاکستانی ہائی کمیشن کے گیٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔ بھارتی حکومت کے ان اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود نئی دہلی میں یوم پاکستان کی تقریب کامیاب رہی اور چین سمیت کئی ممالک کے سفارت کاروں نے اس میں شرکت کی۔ مودی سرکار کی دوغلی پالیسی بالخصوص کشمیریوں کو اس موقع پر ہراساں کرنے پر بھارت کے کئی رہنما اور مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی سخت حیرت کا اظہار کیا۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی وزیراعظم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار کی اس دہری اور بے اصولی پر مبنی پالیسی کا مقصد صرف سیاسی مفادات اور انتخابات میں کامیابی ہے۔ ایک بھارتی صحافی سوباسنی نے ٹویٹر پر کہا کہ بھارتی پولیس سروس کے اہلکار ان لوگوں میں شامل تھے جو مہمانوں کو تقریب میں شرکت کے لئے روکتے رہے۔ بھارتی حکومت نے اس موقع پر جو کچھ کیا وہ گھٹیا پن اور افسوسناک ہے۔ بھارتی پولیس کا اصل ہدف کشمیری رہنما اور باشندے تھے، جنہیں یوم پاکستان کی تقریب میں شرکت سے روکنے کے لئے پورا زور لگایا گیا۔ ایک اور صحافی سدھیندرا کلکرنی نے کہا کہ ایک طرف بھارتی حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو خیر سگالی کا پیغام دیتے ہیں تو دوسری جانب یوم پاکستان کی تقریب میں کسی حکومتی نمائندے اور عوام کو شریک ہونے سے روکتے ہیں۔ ان گھٹیا اقدامات اور اوچھے ہتھکنڈوں سے بھارت کی عالمی ساکھ مزید مجروح ہوتی ہے۔
دوسروں پر انحصار کی پالیسی ترک کی جائے
ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے تین روزہ دورئہ پاکستان کے بعد اپنے ملک پہنچنے پر کہا کہ ان کا ملک پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دے گا، کیونکہ ملائیشیا جنگیں نہیں چاہتا۔ میرے خیال میں دہشت گردوں کو بالادستی کی اجازت دینا بہت خطرناک ہے۔ دونوں ملکوں کو دہشت گر د کارروائیوں کا سدباب کرنا ہو گا۔ دہشت گرد محض انتقام لے سکتے ہیں، وہ کبھی فاتح نہیں ہو سکتے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا جیسے مسلم ممالک سے ہمدردی، تعاون، امداد اور قرضوں کی جو امیدیں تحریک انصاف کی حکومت نے وابستہ کر لی تھیں، وہ ایک ایک کر کے کم ہوتی جا رہی ہیں۔ بھارت کے پاکستان پر فضائی اور بحری حملوں کے بعد سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے پاکستان آنے کا اعلان کر کے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ متحدہ عرب امارات نے ادھار تیل دینے کا وعدہ کر کے اسے واپس لے لیا اور اب ڈاکٹر مہاتیر محمد نے پاک و بھارت کشیدگی میں کسی ایک فریق کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ان واقعات سے تین باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے ابتدائی اعلانات اور دعوئوں سے متاثر ہونے کے بعد اب ان ممالک پر ان کی حقیقت ظاہر ہوتی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں ان پر اعتماد بھی کم ہو رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اکثر ممالک کا اس سے تجارتی مفاد وابستہ ہے، لہٰذا وہ پاکستان کی خاطر اپنے یہ مفادات قربان نہیں کریں گے۔ تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ پاکستان جب تک اپنا اندرونی محاذ مضبوط و مستحکم نہیں کرتا، دوسرے ملکوں کا اس کی جانب راغب ہونا ضروری نہیں ہے۔ پاکستان کے ایف سترہ تھنڈر طیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان کا معائنہ کرنے کے بعد مہاتیر محمد کا یہ کہنا کہ سردست میں نہیں جانتا کہ پاکستان آرمی کتنی مضبوط ہے، ہمارے لئے یقیناً لمحہ فکر ہے۔ پاکستان کو دوسروں پر انحصار کی پالیسی فی الفور ترک کر کے اپنی صفیں استوار کرنے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی فکر کرنی چاہئے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More