تحریک انصاف کی بدترین نا انصافی

0

متضاد خبروں، اعلانات اور دعوؤں کے ذریعے عوام کو فریب دینے، انہیں آس میں رکھنے اور بالآخر ان پر مہنگائی کا بوجھ لادنے میں آج تک کسی حکومت نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں بھی یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے، بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، حالانکہ حکمران جماعت کا نام تحریک انصاف ہے۔ یہاں ادنیٰ کارکن سے لے کر اعلیٰ ترین قیادت تک، بالخصوص ملک کے غریب باشندوں کے حوالے سے، انصاف نام کی کوئی چیز دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وزیر اعظم عمران خان کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں قوم نے ان سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں اور پھر جب انہوں نے پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کیا تو لوگ پھولے نہیں سمائے کہ اب ان کے دن یقیناً پھر جائیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ نبی اکرمؐ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ پہنچ کر جس اسلامی نظام اور فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی اور پھر دس سال کے عرصے میں اسے ساری دنیا کے لیے تقلید کا اعلیٰ نمونہ بنا کر پیش کیا، وزیر اعظم عمران خان اس کا عشر عشیر بھی پاکستان میں کر دکھائیں تو برسوں سے بنیادی ضروریات اور عدل و انصاف کو ترسے ہوئے عوام کی مشکلات میں کمی واقع ہوکر رہے گی۔ عمران خان سے قبل کسی حکمران نے ملک کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس مرتبہ انہیں نبی آخر الزماں حضرت محمدؐ کی قائم کردہ فلاحی مثالی ریاست کے نام پر دھوکا دیا جائے گا۔ ایسا دعویٰ کرنے کا حوصلہ صرف عمران خان جیسا سیاستدان ہی کر سکتا ہے، جس کے قول و فعل کا تضاد اور یوٹرن لینے کو کامیابی کا ذریعہ سمجھنے کا اصول ساری دنیا کے سامنے ہے۔ وہی اپنے ملک کے عوام کو نبی کریمؐ کی مدینہ جیسی فلاحی ریاست قائم کرنے کے فریب میں مبتلا کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔ اپنی حکومت کے سات ماہ کے دوران انہوں نے پاکستان کے بائیس کروڑ غریب شہریوں کے حقیقی مسائل دور کرنے کا ایک بھی اقدام نہیں کیا۔ اس کے برخلاف کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ ان کی حکومت ٹیکسوں اور سرکاری تحویل کی اشیاء و خدمات کی قیمتوں سمیت مہنگائی میں اضافے کو کوئی اعلان نہیں کرتی۔ نہایت دلچسپ، حیرت انگیز اور افسوسناک امر یہ ہے کہ دوست ممالک سے امداد اور قرضوں کے حصول پر فخر کر کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی نوید سنانے والی تحریک انصاف کی حکومت اس کا ذرہ برابر فائدہ بھی صارفین کو منتقل نہیں کرتی۔ ظاہر ہے کہ قرضوں کی یہ معمولی رقوم طویل المیعاد منصوبوں کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی، جبکہ ان کا لوگوں کو فوری اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں بھی کوئی استعمال دکھائی نہیں دیتا تو پھر انہیں کون اور کہاں خرچ کررہا ہے؟ ایک مثل ہے کہ ’’بھاڑ میں جائے ایسا سونا جس سے ٹوٹیں کان‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ سونے کے ایسے بھاری بھرکم جُمکے کس کام کے جو الٹا کانوں ہی کو نقصان پہنچانے لگیں۔ چین سے پاکستان کو دو ارب دس کروڑ کا قرضہ ملنے کے بعد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سترہ ارب اکاسی کروڑ روپے تک پہنچنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور دوسرے دوست ملکوں سے قرض کے باوجود حکومت نے گدائی کا کشکول آئی ایم ایف کے سامنے بھی پھیلا رکھا ہے۔ ادھر اسٹیٹ بینک کی دوسری سہ ماہی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ رمضان المبارک سے قبل مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کی مذکورہ رپورٹ سے پہلے ہی لوگوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ مارکیٹ میں ہر شے کے نرخ ابھی سے بڑھا دیئے گئے ہیں۔ رپورٹ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ قومی پیداوار کا مقررکردہ ہدف رواں سال میں حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اہل وطن رمضان کی مقدس ساعتوں کے دوران عبادت کرتے ہوئے بدترین مہنگائی کی لپیٹ میں ہوں گے۔ وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط پیش کرنے سے قبل ہی بہت سی باتیں ازخود مان لینے کا اعلان کر چکے تھے۔ جبکہ اس سود خود عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ مذاکرات کو حتمی شکل دینے کی بات کرتے ہوئے انہوں نے دھمکی دی ہے کہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافہ کیا جائے گا۔ گیس کمپنیوں کی جانب سے قیمتوں میں ایک سو چوالیس فیصد اضافے کی درخواست پر غور شروع کردیا گیا ہے، جس کی منظوری کے بعد یہ قیمت پانچ سو ایک روپے سے بڑھ کر بارہ سو بیس روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ سوئی سدرن گیس نے اوگرا سے مطالبہ کیا ہے کہ سالانہ پندرہ ارب روپے کی جو گیس چوری ہوتی ہے، اس کا بوجھ عام صارفین پر ڈالنے کی اجازت دی جائے۔ گویا گیس چوری کو روکنے میں ناکام حکومت اور کمپنی کے گناہوں کی سزا غریب اور شریف شہریوں کو دی جائے۔ یہ ہے حکمران جماعت کی اپنے نام کے برعکس بدترین ناانصافی۔ ان حالات میں بے بس و بے کس عوام جائیں تو جائیں کہاں؟
امریکا، اسرائیل اور بھارت، جسد انسانی کے ناسور
امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ نے شام میں گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کی ملکیت تسلیم کرتے ہوئے اس کے حکم نامے پر دستخط کردیئے ہیں، جبکہ شام نے امریکی صدر کے اقدام کو اپنی خود مختاری اور جغرافیائی وحدت پر کھلا حملہ قرار دیا ہے۔ روس اور ترکی نے اسے مسترد کرتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے گولان کی پہاڑیوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین نے بھی صدر ٹرمپ کے اعلان کے مطابق گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ادھر غزہ کی حکمراں جماعت حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہانیہ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل نے سرخ لکیر عبور کی تو اسے بھرپور جواب دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے دوران گولان کی بعض پہاڑیوں پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد سے یہ قبضہ متنازعہ رہا۔ اسرائیل کے ناجائز قیام، اس کے وجود کو برقرار رکھنے اور اس کی پشت پناہی میں امریکا ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پہلے اپنے ملک کا سفارتخانہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اب شام کی گولان پہاڑیوں کو اسرائیل کی ملکیت قرار دینے کا یہ اعلان ان کی مسلم دشمنی کا ایک اور ثبوت ہے۔ امریکا، اسرائیل اور بھارت عالمی جسد کے ایسے ناسور ہیں، جو بنی نوع انسان کی مستقل ہلاکت اور تکالیف میں اضافے کا سبب بنے رہیں گے، لہٰذا اقوام عالم کو اس کا سدباب کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More