اسلام کے بعد پاکستان فوبیا

0

نصرت مرزا
اسلام فوبیا کے خلاف بات شروع ہوگئی ہے، وزیر اعظم عمران خان نے اس اصطلاح کے خلاف آواز اٹھائی تو وزیراعظم نیوزی لینڈ جسینڈا آرڈرن نے آواز میں آواز ملائی اور پھر کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے یہ کہہ کر تائید کی کہ کرائسٹ چرچ کا واقعہ اسلام فوبیا کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد امریکہ میں اکثر پروگراموں میں یہ بات کہی جانے لگی ہے اور کئی گورے امریکی دانشور فیس بک پر اور دوسرے ذرائع سے یہ بحث کرتے ہوئے نظر آئے کہ امریکی میڈیا مکمل طور پر اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نازی ازم، فسطائی ازم اور صیہونی ازم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اِن دانشوروں یا کالم نگاروں نے سوال کیا کہ کیا کوئی شخص یا ادارہ امریکہ میں اسرائیل کے خلاف بات کرسکتا ہے یعنی پورا میڈیا اور پورا امریکہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ امریکہ میں 1980ء کے عشرے میں اپنے امریکی دوروں کے دوران اکثر عیسائی امریکیوں کو صیہونیوں کے خلاف باتیں کرتے ہوئے سنا، مگر وہ جو باتیں کرتے تھے، وہ کھلے عام یا تقاریر یا اخبارات میں بیانات کی صورت میں پیش نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ میڈیا اُس کے پیچھے لگ جاتا یا کوئی افسر نے اگر بھولے سے کوئی صیہونی یا اسرائیل کے خلاف بات کر دی تو وہ اسرائیلیوں کے غیظ و غضب کا شکار ہو جاتا اور اس کو اپنے عہدے سے نکال دیا جاتا یا پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُس کی ترقی رک جاتی۔ وہ اپنے بال نوچتے رہ جاتا۔ کئی لوگوں نے اپنے خلاف کارروائی ہونے کا رونا سوشل میڈیا کے عام ہونے پر کیا ہے۔ جن میں کچھ ہمارے پاس ریکارڈ کے طور پر موجود ہے۔ اگر اب لگتا ہے کہ اسلام فوبیا کا زور ٹوٹنے جارہا ہے، ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ امریکی عیسائی صدر ٹرمپ اور اسرائیل نواز میڈیا سے نبرد آزما ہیں اور ٹرمپ اُن کے خلاف صف ِآرا ہیں، مگر وہ ترکیب یہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے صدر نیتن یاہو سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں، شاید یہ دونوں کی ضرورت کئی وجوہات کی بنا پر ہے، ایک تو اسرائیل اور ایران محاذ آرائی، دوسرے وہ اپنے خلاف امریکی میڈیا میں نرم گوشہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، جو امریکی صدر کی کامیابی کو روسی مدد کی مرہون منت قرار دے رہا ہے اور اس پر کافی پیش رفت کر چکا ہے، کئی گواہان نے یہ شہادتیں دی ہیں کہ امریکی صدر کو روس کی کچھ نہ کچھ مدد ملی تھی، اس کے علاوہ ٹرمپ نے خواتین سے ناجائز تعلقات کو دبانے کے لئے نے جو رقوم ادا کیں، اُس کے ثبوت مل چکے ہیں، پھر ڈیموکریٹس کی کانگریس میں اکثریت آگئی ہے، وہ تارکین وطن کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کرنا چاہتا ہے، جس کو کانگریس نے نامنظور کردیا ہے، جس کو صدر ٹرمپ ویٹو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یعنی امریکی انتظامیہ اندرونی طور پر کافی خلفشار کا شکار ہے، یہاں بھی اسرائیلی اثر واضح نظر آتا ہے، اگر صدر ٹرمپ اور میڈیا یا پارلیمانی کشمکش کو عیسائی اور یہودی تناظر میں دیکھیں تو اس بات کے کچھ امکانات نظر آتے ہیں کہ امریکہ کے عیسائی اپنی انفرادیت اور مذہبی اکائی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور وہ صیہونی دبائو سے آزادی چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ پچھلے سات عشروں سے صیہونیوں نے عیسائیوں کے ذریعے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا ہے۔ خوامخواہ کی دہشت گردی کرکے اور اپنے دولت کے ذریعے مسلمان ممالک میں دہشت گردوں کو فنڈنگ کی ہے اور ہر جگہ جہادی اور فرقہ پرستی کے اثرات کو ابھار کر اُن کو ختم کرنے کے لئے مسلمانوں کی جانوں کے در پے رہے ہیں، ساری مسلم دُنیا میں القاعدہ، الشہاب، بوکوحرام اور دیگر تنظیموں کے ذریعے خون خرابہ کیا جاتا رہا ہے یا پھر اب داعش کو تربیت دے کر مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا ہوا ہے، عراق، افغانستان، شام اور دیگر ملکوں میں جو خون خرابہ ہورہا ہے وہ یہودی عیسائی سازش کا شاخسانہ ہے، اب نیوزی لینڈ کے واقعہ کے بعد مسلمانوں کا اصل روپ عیسائیوں کی نظروں میں کھل کر سامنے آیا ہے، اگرچہ یہ بات بہت دنوں سے سوچی جا رہی تھی اور اس پر مسلمانوں کا عیسائیوں کے ساتھ اچھے رویے کی بات زیر بحث آرہی تھی، خصوصاً صلاح الدین ایوبیؒ کا بہت زیادہ تذکرہ کیا جاتا رہا ہے کہ اس شخص نے کس طرح عیسائیوں کے چرچوں کی حفاظت کی اور خود بیت المقدس کی فتح کے وقت بیت المقدس میں موجود 2 قدیم چرچوں کی چابیاں اس خاندان کے سپرد کردیں جو آٹھ سو برسوں سے اُن چرچوں کی حفاظت کر رہے تھے جو مسلمان بھی تھے، اس طرح دوسرے واقعات کا بھی ذکر ہو رہا ہے کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی ساتھ ساتھ رہتے تھے اور وہ بات جو مسلمان کہتے رہے ہیں کہ ہمیں یہودیوں پر اعتراض نہیں ہے، صرف صیہونیوں پر اعتراض ہے کہ وہ جنگجو اور دُنیا پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں، یہی بات اب عیسائی کہہ رہے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی نے یہودیوں کو بیت المقدس میں ظلم سے بچایا۔ لگ یہ رہا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں مسلمانوں کے لئے بہتری پیدا ہو رہی ہے، منظرنامہ بدل رہا ہے اور عیسائیوں کے اِس رویئے کو دیکھ کر انسان دشمن اسرائیل نے بھارت سے رجوع کیا ہے اور وہ بھارت کے نادان حکمرانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پاکستان ہی ایسا ملک ہے، جو اسرائیل کا مقابلہ کر سکتا ہے، اس لئے وہ بھارت سے مل کر پاکستان پر حملہ یا حملے کی صورت پیدا کر رہا ہے اور جنگ کے خطرے کو اپنی نادانی سے بڑھا رہا ہے۔ اب غور فرمایئے کہ پلوامہ اور ایران میں ایک ساتھ فوجیوں پر حملہ اسرائیلی سازش کے بغیر ممکن نہ تھا، یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اگر پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہوا تو پاکستان وہ کچھ کر سکتا ہے، جو اس کے بس میں ہو، وہ جو کچھ کرے گا، وہ بھارت اور اسرائیل دونوں کے لئے بڑے خطرے کی بات ہے۔ بھارت کو امریکہ کا THAAD میزائل کام آئے گا اور نہ ہی روس کا دفاعی نظام۔ پاکستان کے پاس وہ ٹیکنالوجی ہے، جو خفیہ بھی ہے اور جدید بھی۔ جو امریکی و روسی ٹیکنالوجی کی طرح اپنا کام کر سکتی ہے۔ اس کا دعویٰ کیا جا چکا ہے اور بھارت کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے، یہ بات بھارت کے تجزیہ کار اور فوجی افسران کو جو خود بھی لکھ رہے ہیں کہ فوج کو مودی کے انتخابات کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ یہ فوجی افسران اور تجزیہ کار آگے بڑھ کر مودی کو جنگی جنون سے باز رکھیں، کیونکہ اس کا جنگی جنون اور اس کا بچکانہ پن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ وہ اب کہہ رہا ہے کہ بھارت خلائی طاقت بن گیا ہے تو کیا ہوا، ہم بھی خلائی طاقت اس طرح ہیں کہ ہر طرح کے حملے اور خطرے کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا اظہار ہم نے 27 فروری اور 4 مارچ 2019ء کو کر دیا ہے اور مسلسل سرحدوں پر کر رہے ہیں، اب بھی اگر مودی اور بھارتیوں کی سمجھ میں نہ آئے اور وہ اسرائیلیوں پر تکیہ کرکے پوری انسانیت کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اُن کی اپنی مرضی ہے۔ یہ ساری دُنیا کے حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ دو پاگل اشخاص کو جنگی جنون سے باز رکھیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More