فوجی عدالتیں کل تحلیل ہوجائیں گی-توسیع نہیں ہوسکی

0

امت رپورٹ
ملک میں قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کی مدت کل 30 مارچ کو ختم ہوجائے گی۔ مدت میں اضافے کے حوالے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے بعد تشکیل دیئے جانے والے نیشنل ایکشن پلان کے تحت پہلی بار ملٹری کورٹس جنوری 2015ء میں قائم کی گئی تھیں۔ بعد ازاں ان کورٹس کی مدت میں مزید دو برس کی توسیع کی گئی اور اب حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت میں دوسری بار توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں تاحال اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا جاسکا ہے۔
ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق 28 مارچ کو بلائے جانے والے حکومتی اجلاس کا اہم ایجنڈا ملٹری کورٹس کی مدت بڑھانے پر اپوزیشن کو آمادہ کرنا تھا۔ تاہم پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور جے یو آئی (ف) سمیت دیگر پارلیمانی رہنمائوں کی جانب سے اجلاس میں شرکت سے انکار کے بعد یہ مشاورتی میٹنگ منسوخ کرنا پڑی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر پارلیمانی رہنمائوں کو اجلاس میں شرکت کے خطوط لکھے تھے۔ منسوخ کیا جانے والا یہ مشاورتی اجلاس 28 مارچ کی سہ پہر 4 بجے پارلیمنٹ ہائوس کے کمیٹی روم نمبر 2 میں ہونا تھا۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کی توسیع کے ایشو پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور بالخصوص پیپلز پارٹی کچھ ریلیف حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ قریباً ایک ہفتہ قبل ہی اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں نے حکومتی اجلاس کے بائیکاٹ کا متفقہ فیصلہ کرلیا تھا۔ اس مشاورتی عمل کے دوران نون لیگی اور پی پی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ موجودہ کشیدہ سیاسی ماحول میں حکومت کے ساتھ بیٹھنا مشکل ہے۔ اور یہ کہ جب بھی حکومت کو ضرورت ہوتی ہے، قومی اتفاق رائے کے نام پر وہ اپوزیشن کو اکٹھا کرلیتی ہے۔ جیسا کہ پلوامہ حملے کے بعد دیکھنے میں آیا۔ لیکن مطلب نکل جانے کے بعد اپوزیشن کے ساتھ دوبارہ محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان کی بریفنگ قومی اسمبلی کے فلور پر دینے کے بجائے محض چند منتخب پارلیمانی رہنمائوں کو بلا رہی ہے۔ نون لیگی ذرائع کے مطابق دراصل پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے۔ تاکہ تمام ارکان پارلیمنٹ کو فوجی عدالتوں میں دوبارہ توسیع کی وجوہات پر مطمئن کیا جاسکے۔ جبکہ حکومت کا خیال ہے کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بریفنگ دینے سے embarrassment سچویشن پیدا ہو سکتی ہے۔ کیونکہ پارلیمنٹ میں ان پارٹیوں کے ارکان بھی موجود ہیں، جنہوں نے ماضی میں دونوں بار فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی تھی اور اس سلسلے میں پیش کئے جانے والے بل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ ان ارکان کی جانب سے سوالات کی شکل میں دل کی بھڑاس نکالی جاسکتی ہے۔ اسی لئے حکومت اس ایشو پر مشاورتی اجلاس میں منتخب پارلیمانی رہنمائوں کی شرکت ہی چاہتی ہے۔ 2017ء میں ملٹری کورٹس کی مدت میں پہلی بار توسیع کی گئی تو آئینی ترمیم کے بل کی چار ارکان نے مخالفت کی تھی، جس میں محمود اچکزئی سمیت پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے تین ارکان اور جمشید دستی شامل تھے۔ جبکہ جے یو آئی (ف) کے ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کا کوئی رکن موجود نہیں اور جمشید دستی بھی فارغ ہوچکے ہیں۔ تاہم سینیٹ میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے پانچ ارکان سینیٹ موجود ہیں۔ واضح رہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لئے آئینی ترمیمی بل کی دونوں ایوانوں سے منظوری لازمی ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی نے بظاہر اب تک فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے خلاف سخت موقف برقرار رکھا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی رہنما شیری رحمن تجویز دے چکی ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان یا ملٹری کورٹس پر بریفنگ کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے۔ تاہم اس سے قبل دسمبر 2018ء کو نوڈیرو میں ہونے والے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کی گئی تھی کہ پارلیمنٹ کو فوجی عدالتوں میں مزید دو برس کی توسیع نہیں دینی چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، پارٹی کے جنرل سیکریٹری فرحت اللہ بابر اور سینیٹر رضا ربانی ملٹری کورٹس کی توسیع کے بالکل حق میں نہیں۔ تاہم شیری رحمن اور خود آصف علی زرداری اس معاملے میں کسی حد تک لچک رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کو بدلے میں کتنا ریلیف ملتا ہے۔
یاد رہے کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہا تھا کہ فوجی عدالتیں اتفاق رائے کے ساتھ قائم کی گئی تھیں۔ ان عدالتوں میں توسیع فوج کی خواہش نہیں۔ لیکن یہ ایک قومی ضرورت ہے۔ اگر پارلیمنٹ نے سپورٹ کی تو یہ عدالتیں چلتی رہیں گی۔ اسلام آباد میں موجود غیر سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے۔ اس لئے ریاستی ادارے ان غیر معمولی حالات میں فوجی عدالتوں میں توسیع ضروری سمجھتے ہیں۔ ان ذرائع کا دعویٰ تھا کہ بظاہر فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ اس وقت پیپلز پارٹی کی ہمنوا دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم اندرون خانہ نون لیگی قیادت اس ایشو پر سپورٹ کی یقین دہانی کراچکی ہے۔ اور جب بھی اس حوالے سے بل پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا تو لیگی ارکان اس کے حق میں ووٹ دیں گے۔ اور یہ کہ شہباز شریف کے بیان کی نوعیت محض سیاسی ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اگر پیپلز پارٹی نے ملٹری کورٹس کی مخالفت کے حوالے سے اپنا سخت موقف برقرار رکھا تو پھر پیپلز پارٹی کے بغیر ہی توسیع کا بل پارلیمنٹ سے منظور کرالیا جائے گا۔ کیونکہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی جانب سے حمایت کی صورت میں دونوں ایوانوں سے بل منظور کرانے کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ لیکن فی الحال کوشش کی جارہی ہے کہ پیپلز پارٹی کو بھی اس بل کی سپورٹ پر آمادہ کرلیا جائے۔ تاکہ ماضی کی طرح قومی اتفاق رائے کا تاثر قائم کیا جاسکے۔ ذرائع کے بقول تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ پیپلز پارٹی کن شرائط پر آمادہ ہوتی ہے۔ اگر یہ شرائط قابل عمل ہوئیں تو تسلیم کی جاسکتی ہیں۔ بصورت دیگر مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور دیگر حکومتی اتحادی پارٹیوں کو ساتھ ملاکر ملٹری کورٹس کی مدت میں توسیع کا آئینی ترمیمی بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرانے کی اسٹریٹجی پر عمل جائے گا۔
وزارت قانون فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید دو سالہ توسیع سے متعلق سمری منظوری کے لئے وفاقی کابینہ کو بھیج چکی ہے۔ یہ ڈرافٹ بل وزارت قانون اور وزارت داخلہ نے مل کر بنایا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سمری میں کوئی رد و بدل نہیں کی گئی ہے اور یہ وہی مسودہ ہے۔ جو 2015ء اور بعد ازاں 2017ء میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل کی صورت میں منظور کرایا گیا تھا۔ جس میں علاقائی و لسانی دہشت گردی کرنے والی ایم کیو ایم جیسی پارٹیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے آئینی ترمیم میں لفظ ’’فرقہ‘‘ کو صرف مذہب تک محدود کیا گیا تھا۔ یعنی مذہب کے نام کو استعمال کر کے دہشت گردی کرنے والوں کے مقدمے ہی فوجی عدالتوں میں چلنے تھے۔ یوں چار سالہ فوجی عدالتوں کے دور میں صرف داڑھی رکھنے والے اور مذہبی پس منظر کے حامل شدت پسندوں کو پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں۔ لیکن سیکولر دہشت گردوں کو مکمل استثنیٰ حاصل رہا۔ حتیٰ کہ ایم کیو ایم کے ایسے بیشتر ٹارگٹ کلرز کے مقدمات بھی ان عدالتوں کو نہیں بھیجے گئے، جو تین تین سو قتل کا اعتراف کرچکے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور پالیسی ساز ملٹری کورٹس کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ لہٰذا یہ کام رکنا مشکل ہے۔ لیکن فوجی عدالتوں کو مزید موثر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر نوعیت کے دہشت گردوں کے مقدمات بلا تفریق ملٹری کورٹس میں بھیجے جائیں اور یہ نہ دیکھا جائے کہ دہشت گردی کرنے والے کا پس منظر مذہبی ہے یا وہ بظاہر سیکولر شناخت رکھتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More