شمع اور پروانہ

0

اب اس ملک کی اکثر پارٹیوں کے پاس وہ جنس نہیں ہے، جس کو ’’کارکن‘‘ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ اب ٹاک شوز میں دوسرے درجے کے رہنما اپنے آپ کو ’’سیاسی کارکن‘‘ تو کہتے ہیں، مگر وہ خود اور پروگرام کا اینکر پرسن بھی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ’’اب سیاست کے جنگل میں وہ جنس نہیں رہی، جس کا نام تھا ’’سیاسی کارکن‘‘ وہ سیاسی کارکن اب پانڈا بن گیا ہے۔ اس کی نسل تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ وہ سیاسی کارکن تھا، جو نہ صرف نعرے لگاتا تھا، بلکہ وہی نعرے بناتا تھا۔ ہم اس دور کی بات کر رہے ہیں، جس میں سیاسی پارٹیاں ایڈورٹائیزنگ کمپنیوں کو نئے نعرے بنانے کے لیے نہیں کہتی تھیں۔ اس دور کے بڑے بوڑھے شاعر بھی ان نوجوانوں کا ساتھ نہیں دیا کرتے تھے۔ یہ وہ نوجوان کارکن تھے، جنہوں نے اپنے دل سے ایسے نعرے تخلیق کیے، جن میں صرف ردم اور روانی نہیں تھی، بلکہ ان میں جذبات کی جوانی بھی تھی اور ان میں سیاسی سچ کا ایسی پرکشش معنی ہوتا تھا، جو سننے والوں کو اپنے طرف کھینچ لیتا تھا۔ وہ سب کچھ سیاسی کارکن کرتے تھے۔ وہ پنڈال بھی سنوراتے تھے۔ وہ مہمان بھی بلاتے تھے۔ وہ نعرے بھی بناتے تھے۔ وہ نعرے بھی لگواتے تھے اور نعروں کے ساتھ ایک نئے دور کا استقبال بھی کرتے تھے۔ اب تو ہماری سیاست ایک اقتداری انڈسٹری میں تبدیل ہوگئی ہے۔ سیاست کو کرپشن سے منسلک کرنے کا کام بھلے پیپلز پارٹی کی موجودہ اور مسلم لیگ ن کی ایورگرین قیادت کا ہو، مگر سیاسی شوز کو کمرشلائیز کرنے کا سہرا تاریخ عمران خان کے سر باندھے گی۔ یہ وہ رہنما تھے، جنہوں نے پہلی بار ’’ڈی جے بٹ‘‘ کی خدمات حاصل کیں اور سیاسی جلسوں کو کنسرٹس اور پروموشن شوز کا رنگ روپ دیا۔ اب تو زرداری بھی اسلام آباد میں دو گھونٹ پینے کے بعد عارف لوہار کے لوک گیت پر رقص کرتا نظر آ رہا ہے، مگر ہم اس وقت کی بات کر رہے ہیں، جب سیاست کی گوری کو بیوٹی پارلر کا پتہ نہیں تھا۔ اس دور کی آنکھ حسن حیا اور سادگی میں تلاس کرتی تھی۔ وہ وقت جب تک رہا، دل دھڑکاتا رہا۔ اس وقت میں سیاست کاروبار نہیں، بلکہ رومانس تھا۔ اب تو رومانس بھی کاروبار بن چکا ہے، مگر ہم اس دور کے سیاسی کلچر کا تذکرہ کر رہے ہیں، جس دور کے سیاسی کلچر میں ایسی عیاری اور مکاری نہیں تھی، جیسی عیاری اور مکاری کم عمری کے دوران غلط راستوں پر چلنے والی لڑکیوں میں آجاتی ہے۔ وہ دور تو بہت سادہ اور جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ اس دور کی سیاست پر کوئی طنز کرسکتا ہے، مگر اس دور کی سیاست میں ایسی معصومیت تھی، جیسی معصومیت پہلی محبت میں ہوتی ہے۔
وقت کی کوئی بھی لہر لوٹ کر نہیں آتی۔ سیاست کا وہ دور واپس نہیں آسکتا۔ مگر اس وقت کی یاد ان لوگوں کو ہمیشہ ستاتی رہے گی، جنہوں نے جوانی میں وہ چاند دیکھا تھا، جس کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔ جو آسمان کی تنہا گہرائیوں میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہ جوانی کی نظر تھی۔ جس نظر میں قدم قدم پر ہجوم رنداں کا سماں تھا۔ اب تو گلیاں سونی ہوگئی ہیں، جن گلیوں سے اچانک سیاسی کارکن اس طرح نمودار ہوتے تھے، جس طرح کوئی غیبی قوت نمودار ہوتی ہے۔ وہ سیاسی کارکن جن کے ہاتھوں میں پتھر ہوتے تھے، مگر وہ پتھروں سے فکر اور فہم کا قلعہ تخلیق کرتے تھے۔ وہ جو بظاہر تخریب کرتے تھے۔ لیکن اصل میں وہ تعمیر کرتے تھے۔ وہ کارکنان سیاسی سمندر کے کنارے سے اوپر اٹھ کر اس پہاڑی سے ٹکراتے تھے، جو پہاڑی ارتقاء کی راہ روک کر کھڑی ہوا کرتی تھی۔ جب تک کارکن تھے، تب تک سیاست کا سمندر ہمیشہ موجزن رہتا تھا۔ اس میں ایک مسلسل تحرک بپا رہتا تھا۔ اب جب وہ کارکن نہیں رہے، تب سیاست کا سمندر اس طرح سو گیا ہے، جس طرح موسم سرما میں کوئی جھیل جم جائے۔ کیا اس جم جانے والی جھیل کی برفانی تہہ کے تلے لہریں جاگ رہی ہیں؟ کیا ان لہروں کی گلیوں میں مچھلیاں اب بھی آوارہ گردی کرتی ہیں؟ کیا یہ سب کچھ جو اس وقت اجڑا ہوا لگ رہا ہے، وہ سب ایک موسم کا معاملہ ہے؟ جب یہ موسم گزر جائے گا تب پھر سیاست کے ساحلوں پر کارکنان کے قافلے تبدیلی کی دھن پر رقصاں نظر آئیں گے؟ یا اب یہ ہی مقدر ہے۔ یہ منجمد دور اور اس میں جمے ہوئے جذبات! اب کیا تبدیلی کی کرنوں کو تھام کر پورب کا رتھوان کبھی آگے نہیں بڑھے گا۔ کیا اب یہ شام کنارہ اسی طرح رہے گا؟ کیا اب وقت سو گیا ہے اور وال کلاک کے کانٹے غلاموں کی طرح گردش کر رہے ہیں؟
یہ سب لوگ کہتے ہیں کہ سیاست اس لیے زوال کا شکار ہوگئی ہے کہ اب کوئی بڑا لیڈر پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات درست ہے کہ نہ صرف روس، بلکہ امریکہ میں بھی اب بڑے لیڈر پیدا ہونا ختم ہوگئے ہیں۔ اب یونان میں کوئی الیگزینڈر جنم نہیں لیتا۔ اب فرانس کی کوکھ سے کوئی نپولین نہیں نکلتا۔ اب روس کسی لینن اور امریکہ کسی لنکن کو پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اب کاسترو کا کیوبا کسی سلگتے ہوئے سگار کی طرح تاریخ کے ایش ٹرے میں کسی اسٹل پینٹنگ کا عکس بن رہا ہے اور ہوچی منہ کا ویتنام امریکی سرمائے کے سامنے گھٹنے ٹیک رہا ہے۔ وقت افسوس کی مورت بنا ہوا ہے۔ ہلچل ختم ہو چکی ہے۔ حالات ایسے ہیں، جیسے مایاکو وسکی کا وہ آخری شعر جس میں سمندر کو نیند آتی ہے اور عشق کی کشتی روزمرہ کے حالات سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہے اور خود کشی کرنے والا عاشق بے وفائی کا حساب کرنا نہیں چاہتا۔
ہم کہاں کی بات کو کہاں لے کر گئے؟ بات ہو رہی تھی سیاست کی اور ہم عشق اور وہ بھی ناکام عشق کی باتیں کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔ کیا ناکام عشق میں وفا کی تلاش ایسا منظر نہیں، جیسا منظر شمشان گھاٹ میں اس وقت نظر آئے، جس وقت کوئی اپنے محبوب کی راکھ میں اس کے جلوؤں کو تلاش کرتا رہے اور آسمان کا چاند اپنے تمام تاروں کے ساتھ اس پر ہنستا رہے۔ ہم جب بھی کل کی سیاست کا قصہ شروع کرتے تھے، تب ہم کو افسانے اور اشعار کیوں یاد آجاتے ہیں؟ کیا کل کی سیاست ڈائریوں میں رکھے ہوئے ان خشک پھولوں جیسی ہے، جن میں اداس کر دینے والی خوشبو ہوتی ہے۔ یونان کے بہت بڑے نقاد لونجائنس نے لکھا ہے کہ ’’جب ہومر جوان تھا، تب اس نے ایلیڈ لکھا تھا۔ جب کہ اوڈیسی اس کے بڑھاپے کی تخلیق ہے۔ مگر یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ یہ بڑھاپا کسی اور کا نہیں، بلکہ ہومر کا ہے۔‘‘ تو وہ سیاسی کارکن جو ایک دور کا دھڑکتا ہوا دل تھے، وہ سیاسی کارکن اب موٹے شیشیوں والے چشمے سے اخبار کو پڑھتے ہیں تو ان کو بہت غصہ آتا ہے۔ مگر یہ غصہ ایسا نہیں جیسا سڑک پر جلتا ہوا ٹائر ہوتا تھا۔ جیسے ناممکن کو ممکن بنانے کی کامیاب کوشش ہوا کرتی تھی۔ وہ سیاست نہیں، وہ گلیاں نہیں اور ان گلیوں میں گلوں کی وہ دکان بھی نہیں۔
کہتے ہیں جب شمع جلتی ہے تب پروانے خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ اب اگر پوری دنیا کی سیاست میں مثالی کارکنان جنم نہیں لیتے تو اس کا سبب ایسے لیڈران کا نہ ہونا ہے، جو شمع کے مانند جلتے تھے۔ جو کہتے تھے کہ:
’’دنیا سوئی اور میں جاگا
دنیا جاگی میں سو جاؤں؟‘‘
وہ شمع جیسے لیڈر اب کہیں نہیں جلتے، جن کی خاص لو میں ایک تاثیر ہوا کرتی تھی۔ وہ تاثیر ان پروانوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی، جو پروانے آگ پر رقص کرتے تھے۔ وہ پروانے جو جلنے سے کہاں ڈرتے تھے! اب سیاست کی سیاہ رات میں کوئی تارہ تو کیا، کوئی جگنو بھی نہیں۔ اس لیے وہ پروانے پیدا نہیں ہوتے، جو رقص دکھانے نہیں، جان گنوانے آتے تھے۔ عام طور پر تو یہ بات درست محسوس ہوتی ہے۔ حقیقت ایسی ہی ہے۔ بات افسوسناک رسوائی سے بھری ہوئی ہے، مگر کیا کریں کہ حسن اور عشق کی دنیا میں بھی ’’ڈیمانڈ اور سپلائی‘‘ کا قانون چلتا ہے۔
ہم اگر پروانوں جیسے سیاسی کارکنوں کے نہ ہونے کا ماتم کرتے ہیں تو ہمیں چراغ جیسے رہنما کے عدم وجود کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ہم اس بات سے کس طرح انکار کریں؟ کیوں کہ ہر جگہ یہ ہی بات سننے کو ملے گی کہ اگر غیر معمولی لیڈر ہوگا تو کلاسیکل کارکن خود بہ خود وجود میں آجائیں گے۔ مگر جب ہم ایسی شکایت لے کر اوشو کے پاس چلتے ہیں تو ہر بات کو نئے رخ سے دکھانے والے باغی دانشور ہمیں اس بارے میں یہ بتاتے ہیں کہ: شمع پروانوں کو پیدا نہیں کرتی۔ ایسا نظر آتا ہے، مگر ہوتا نہیں ہے۔ نظر ایسا آتا ہے کہ اس پل شمع جلی اور اس پل پروانوں کے جھنڈ پہنچ گئے۔ مگر یہ آنکھ کا دھوکہ ہے۔ اصل حقیقت یہ نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پروانے شمع سے پیدا نہیں ہوتے، بلکہ شمع پروانوں کی وجہ سے جل اٹھتی ہے۔ یہ پروانوں کے اندر میں جلتی ہوئی آگ ہوتی ہے، جو شمع کو روشن کر دیتی ہے۔ پروانے شمع سے پیدا نہیں ہوتے۔ شمع پروانوں کے دم سے جنم لیتی ہے۔ پروانے شمع کے تخلیقار ہیں۔ وہ اپنے پروں سے شمع کو جلاتے ہیں اور پھر اس میں جل جاتے ہیں۔
اس لیے سیاست کی دنیا میں بھی لیڈر کی غیر موجودگی مثالی کارکنان کے نہ ہونے کا سبب نہیں ہے۔ اگر مثالی کارکنان ہوتے تو آئیڈیل لیڈر آٹومیٹک پیدا ہو جاتا۔ بظاہر تو کارکنان کو لیڈر پیدا کرتا ہے، مگر شمع اور پروانے کی طرح یہ کمال اصل میں کارکنان کرتے ہیں۔ کارکنان لیڈر کو پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ یہ وقت کی امنگ ہوتی ہے۔ یہ تاریخ کی ترنگ ہوتی ہے۔ کارکن وہ ہاتھ بھی ہوتے ہیں، ہتھوڑے بھی ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ چھینی بھی ہوتے ہیں۔ وہ سب مل کر ایک پتھر کو مجسمے کی صورت عطا کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ شاعرانہ بات ہو۔ مگر کیا شاعرانہ بات ہمیشہ غلط ہوتی ہے؟ شاعرانہ بات مشکل امکانات کا اشارہ ہوتی ہے، مگر غلط نہیں ہوتی۔ آج اگر بازار سیاست سونی ہے۔ آج اگر کوئے وفا میں خریداروں کا قحط ہے، تو اس کا سبب وہ لوگ ہیں، جن کے آنے سے گرمیٔ بازار میں اچانک اضافہ آجاتا ہے۔
ہم اس وقت کی بات کر رہے تھے جو کل تھا!
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More