سرفروش

0

عباس ثاقب
میرا ذہن رفتہ رفتہ اس خیال پر یکسو ہوتا جا رہا تھا کہ مجھے جلد از جلد یہاں سے دلّی کے لیے روانہ ہوجانا چاہیے۔ مگر یہ سوچ کر کچھ تذبذب کا شکار تھا کہ اگر میں جلد لوٹ کر نہ آسکا، یا سرے سے واپسی ہی نہ ہو سکی، تو کشمیری مجاہدین اور خالصتان کے قیام کے لیے جان لڑانے والوں کے درمیان اشتراک قائم کرنے کی کوششیں کہیں دھری کی دھری نہ رہ جائیں۔ یہ مقصد اپنی جگہ میرے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ اس اشتراک کے نتیجے میں کشمیری مجاہدین کے لیے بھاری ہتھیار حاصل کرنے کی قوی امید پیدا ہوگئی تھی۔
کافی سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میں جلد از جلد یہاں سے روانہ ہونے کی کوشش تو کروں۔ لیکن اس سے پہلے یاسر، ناصر اور دونوں بہنوں کے پاس ظہیر کے لیے ایک تفصیلی پیغام چھوڑ جاؤں۔ جس میں سکھبیر اور اس کے ساتھیوں سے معاملات آگے بڑھانے کے حوالے سے جامع لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہو۔ ساتھ ہی تمام تر احتیاطی اقدامات بھی بتا دیئے جائیں۔ اگر یاسر اور رخسانہ ایسے معاملات میں بالکل کورے ہونے کے باوجود اپنا مشن کامیابی سے مکمل کر سکتے ہیں تو تمام سرد گرم سے واقف ظہیر تو ان کے مقابلے میں حالات کو بہتر انداز میں سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سکھبیر کو میں پہلے ہی آگاہ کر چکا ہوں کہ ہو سکتا ہے میرے بجائے آئندہ میرے دیگر ساتھی ان معاملات کو آگے بڑھائیں۔
دوپہر کے کھانے کے لیے جمیلہ مجھے ساتھ لے جانے کے لیے آئی تو میں نے ناصر کو بھی بلوالیا۔ شاید میرے ذہن پر خیالات کا کچھ زیادہ ہی غلبہ تھا۔ لہٰذا میری غائب دماغی ان تینوں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ بالآخر جمیلہ نے شکایت بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’خیریت تو ہے جمال بھائی؟ اتنی محنت سے پکائے ہوئے کھانے پر کوئی رائے دی ہے اور نہ ہماری باتوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ آپ آج کہاںکھوئے ہوئے ہیں؟‘‘۔
میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ ’’دراصل بات یہ ہے کہ میں ایک اہم معاملے پر غور کر رہا ہوں اور اس پر آپ لوگوں کو اعتماد میں لینا چاہتا ہوں‘‘۔
میرے لہجے کی سنجیدگی دیکھتے ہوئے وہ تینوں ہمہ تن گوش ہوگئے۔ میں نے اپنا اصل مقصد پوشیدہ رکھتے ہوئے بتایا کہ مجھے ایک بہت ہی ضروری کام سے دلّی جانا پڑے گا اور یقین سے کہنا مشکل ہے کہ میری کب تک واپسی ہوگی۔ میری بات سن کر وہ نمایاں طور پر پریشان نظر آئے۔ میں ان کی آنکھوں میں ہلکورے لیتے اندیشوں کے بادل دیکھ سکتا تھا۔ میری توقع کے عین مطابق جمیلہ نے ہی اپنے خدشوں کو پہلے زبان دی۔ ’’بھائی جان، یہ بتائیے کہ کیا آپ کو اپنی زندگی سے ذرا سی بھی دلچسپی نہیں ہے؟ یاسر بھائی اور رخسانہ باجی نے کل ہی بتایا ہے کہ آپ کی تلاش میں پولیس نے پورے پنجاب کے نوجوانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اور آپ سب کچھ جاننے کے باوجود بوریا بستر باندھ کر سفر کی تیاری کر رہے ہیں؟‘‘۔
میں نے اس کے لہجے میں چھپے ناراضی اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات بھانپ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میری فکر نہ کرو لڑکی۔ مجھے پولیس کے ان سورماؤں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا آتا ہے۔ میں ان کی ناک کے عین نیچے سے نکل کر اپنی منزل پر پہنچ جاؤں گا اور ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوگی‘‘۔
اس نے منہ پُھلاکر کہا۔ ’’لگتا ہے آپ کے پاس کوئی جادوئی ٹوپی یا انگوٹھی ہے۔ جسے پہن کر آپ ان کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں گے!‘‘۔
میں نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ایسا ہی سمجھ لو بہنا۔ دراصل میں ان پولیس والوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ ان میں سے زیادہ تر حکم کے غلام اور لکیر کے فقیر بن کر کارروائیاںکرتے ہیں۔ ان بے چاروں کا زور زیادہ سے زیادہ مشکوک لوگوں کو ڈھونڈنے اور پھر ان کی تلاشی لے کر اپنے شک کی تصدیق یا نفی کرنے پر ہوتا ہے۔ یہ اپنی نظروں میں آنے والے ایک سو افراد میں اپنے اعلیٰ حکام کی طرف سے فراہم کردہ حلیے سے معمولی سی بھی مشابہت رکھنے والے پندرہ بیس افراد کو پکڑ کر ان میں سے مطلوبہ شخص تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ اس دوران ہزاروں دیگر افراد ان کی توجہ کا مرکز بنے بغیر نکل جاتے ہیں‘‘۔
جمیلہ نے مزید وضاحت کے لیے میری طرف دیکھا۔ رخسانہ اور ناصر کے بھی کچھ ایسے ہی تاثرات تھے۔ میں نے کہا۔ ’’دیکھو، صدر دفتر سے انہیں تقریباً چھ فٹ قد، درمیانی جسامت، گورے رنگ اور گھنگھریالے بالوں والے چھبیس ستائیس سالہ غیر سکھ نوجوان کو تلاش کرنے کی ہدایت دی گئی ہوگی۔ انہیں خبردار کیا گیا ہوگا کہ میرے پاس پستول یا ریوالور لازماً ہوگا۔ لہٰذا پہلی فرصت میں مشکوک شخص کو دبوچ کر اس کی تلاشی لی جائے‘‘۔
ان تینوں نے لگ بھگ ایک ساتھ بات سمجھ میں آنے کی علامت کے طور پر سر ہلائے۔ میں نے کہا۔ ’’ہو سکتا ہے میری شکل و صورت اور حلیے کے بارے میں اور بھی تفصیلات بتائی گئی ہوں۔ لیکن سہل پسندی کی انسانی جبلت کے تحت ان پولیس والوں کی بیشتر توجہ میرے پاس ہتھیار کی موجود گی پر مرکوز ہوگئی ہوگی۔ یعنی شکل و صورت، قد کاٹھ اور حلیے میں قریبی مشابہت تلاش کرنے کی مشقت سے بچو اور پستول برآمد کر کے اپنے مطلوبہ بندے کی گردن دبوچ لو۔ ایسے میں اگر میں اپنے اصل حلیے میں بھی ان پولیس والوں کے ہتھے چڑھ جاؤں، تو صرف پستول کی غیر موجودگی مجھے پہلے سے بے گناہ قرار پانے والے سینکڑوں نوجوانوں میں سے ایک بنا دے گی اور ہو سکتا ہے مجھے مزید چھان پھٹک کے بغیر اپنا راستہ ناپنے کی اجازت دے دی جائے‘‘۔
مجھے اندازہ تھا کہ جمیلہ اتنی آسانی سے میرا تجزیہ قبول نہیں کرے گی۔ اس نے جھٹ سے کہا۔ ’’بھائی، پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ جیسے کسی مطلوب بندے کو پکڑنے کے لیے پولیس والوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اورکیا یہ ضروری ہے کہ ہزاروں پولیس والوں میں سے ایک بھی آپ کو صرف شکل و صورت اور حلیے سے نہ پہچانے؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’میں نے اپنی سمجھ کے مطابق انسانی نفسیات کا ایک پہلو بتایا ہے جو اکثر افراد پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر مجھے اس صورتِ حال میں کسی شخص کو تلاش کرنا ہو تو میں ایک سو میں سے دس افراد کی گردن پکڑنے کے بجائے اپنے سامنے سے گزرنے والے ایک ہزار افراد میں سے صرف ایک، فراہم کردہ حلیے اور شکل و صورت سے مشابہ شخص کو پکڑوں گا اور چاہے اس کے پاس سے پستول برآمد ہو یا نہ ہو، اس کی اچھی طرح چھان پھٹک کروں گا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More