اعداد وشمار کی فریب کاریاں (آٹھویں قسط)

سروے کمپنیاں تجارتی میدان کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی جگہ بنا چکی ہیں۔ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی فرمائش پر ایسے سروے جاری کرتی ہیں، جو دراصل اس جماعت کی حمایت میں جاتے ہیں۔ ظاہر ہے سروے کمپنیاں اس کام کا بھاری معاوضہ لیتی ہیں۔ اعداد و شمار کی اس جادوگری سے پردہ سب سے پہلے ڈیرل ہف نے اٹھایا تھا۔ ان کی کتاب How to Lie with Statistics اس موضوع پر مستند ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کے تیس سے زائد انگریزی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ موجودہ الیکشن کے تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ (ادارہ)
………………………….
کچھ اسی طرح سے یہ چھوٹے چھوٹے اعداد اس اوسط تخمینے سے غائب ہیں، جسے "Gesells’s Norms” کہا جاتا ہے اور جس نے ننھے بچوں کے والدین کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ جس میں کسی ننھے بچے کی ماں یا باپ اتوار کے اخبار میں کہیں پڑھتا ہے کہ ایک بچہ اتنے مہینے کا ہونے پر اپنے بل پر سیدھا بیٹھنا سیکھ جاتا ہے۔
یہ پڑھنے کے بعد اسے فوراً اپنے بچے کا خیال آتا ہے، جو اس عمر سے کب کا گزر چکا ہے اور ابھی تک سہارا لے کر ہی بیٹھ پاتا ہے۔ اسے ہولناک اندیشے ستانے لگتے ہیں کہ اس کا بچہ ’’معذوری‘‘، ’’کمزوری‘‘ یا ایسی ہی کسی جسمانی مسئلے کا شکار ہے۔ ہو سکتا ہے غذائیت کی کمی کی وجہ سے اس کی بڑھوتری رک گئی ہو۔ کیوں کہ بچوں کی کم از کم نصف تعداد اخبار میں درج عمر تک بیٹھنا نہیں سیکھ پاتی، چناں چہ اسی شرح سے والدین اپنے بچے کی پرورش اور نشونما سے لطف اندوز ہونے کے بجائے پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بلاشبہ ریاضیاتی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو اس پریشانی کو وہ خوشی متوازن کر دیتی ہے، جو اس عمر میں بیٹھنا سیکھ جانے والے والدین محسوس کرتے ہیں، لیکن بیٹھ نہ پانے والے بچوں کے والدین اس پریشانی سے نجات پانے کے لیے جو جتن کرتے ہیں، اس کا یہ نظریہ پیش کرنے والے ڈاکٹرآرنلڈ جیسیل(Gessell) یا اس کے تجربوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ساری گڑبڑ سنسنی کے متلاشی یا ناقص معلومات رکھنے والے محقق کی طرف سے تحقیق میں سے اپنی دلچسپی کے نتائج چھاننے سے پیدا ہوتی ہے، جو ان اعداد کو نظر انداز کردیتا ہے، جو فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر نتائج میں اوسط میں فرق کے امکانات کا ذکر کردیا جائے تو اس طرح کی غلط فہمی سے بچا جاسکتا ہے۔ مثلاً بچوں کے بیٹھنے کی امکانی عمر کے ساتھ اگر صرف چار الفاظ ’’بیش تر بچوں میں‘‘ شامل کر دیا جاتا تو کروڑوں والدین اس ناقابل تلافی تشویش اور اضطراب کا شکار نہ ہوتے اور نہ اپنے بچوں کی صحت بہتر بنانے کے لیے الٹے سیدھے جتن کرنے پر مجبور ہوتے۔
اصل الجھن ’’معمول کے مطابق‘‘ اور ’’پسندیدہ ‘‘ یا ’’مطلوبہ‘‘ کے فرق میں ہے، جو معاملات کو مزید خراب کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر جیسیل نے محض مشاہدے میں آنے والے حقائق بیان کیے تھے۔ والدین بھی بری الذمہ نہیں قرار دیئے جاسکتے، جو اخبار یا رسالے میں یہ سب پڑھ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ بیان کردہ وقت سے ایک ہفتہ یا مہینہ بعد بیٹھنے یا چلنے کی صورت میں ان کا بچہ لازماً دوسروں سے کم تر ہو گا۔
ان چھوٹے اعداد وشمار میں اصل فریب دینے والی خاصیت یہ ہے کہ ان کی غیر موجود گی اکثر توجہ سے محروم رہتی ہے اور یہی ایسے تخمینے پیش کرنے والوں کی کامیابی کا راز ہے۔ آج کل کی صحافت کے ناقدین ان نامہ نگاروں سے اکثر برہم رہتے ہیں، جو امریکی حکومت کے مراسلوں کو بغیر تنقید وتبصرے کے دوبارہ لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ایسی ناقص صحافت کی مثال کے طور پر ’’فورٹ نائٹ‘‘ جریدے میں ’’نئی صنعتی پیش رفت‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ رپورٹ پڑھئے، جو بتاتی ہے: ’’ویسٹنگ ہاؤس (ایک فولاد ساز ادارہ) کی طرف سے متعارف کردہ ایک نیا کولڈ ٹیمپر باتھ جو فولاد کی سختی کو تین گنا کردیتا ہے!‘‘
اب یہ تو واقعی بڑی پیش رفت معلوم ہوتی ہے! لیکن صرف اس وقت تک جب آپ اس بیان کی اصل حقیقت تک نہیں پہنچتے۔ تب آپ کو پتا لگتا ہے کہ یہ تو سراسر آپ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ کیا یہ نئی طرز کا باتھ (ڈبکی) واقعی فولاد کو اس سے تین گنا زیادہ سخت بنا دیتا ہے، جتنا وہ اس ڈبکی سے پہلے تھا؟ یا کیا یہ ایسا فولاد پیدا کرتا ہے، جو پہلے سے موجود فولادوں سے تین گنا زیادہ سخت ہو؟ لیکن محض ایک ڈبکی سے یہ کیسے ہوجاتا ہے؟
یوں لگتا ہے جیسے رپورٹر نے کچھ الفاظ ان کا مفہوم پوچھے بغیر آگے بڑھا دیئے ہیں اور آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ بھی کوئی تنقیدی جائزہ لیے انہیں پڑھ کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جائیں کہ آپ نے کوئی چیز سیکھی ہے۔ یہ بالکل ایسے طلبہ کی مثال ہے، جو بلیک بورڈ پر لکھی تحریر بغیر سمجھے کاپی میں اتار لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فولاد پر مذکورہ عمل اس زمانے میں دریافت ہوا تھا، جب کچ دھات یا خام لوہے کو فولاد کی شکل دینے کی کوششیں ابتدائی شکل میں تھیں اور اس عمل سے کچ دھات سے تین گنا زیادہ سخت فولاد نما دھات کی تیار ی شروع ہوئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ فولاد کو مضبوط تر بنانے کے لیے یہ طریقہ آج بھی الگ الگ صورتوں میں دنیا بھر میں رائج ہے۔ یعنی اس رپورٹر نے اپنی نالائقی سے ایک معمول کے طریقہ کار کو ایک سنسنی خیز خبر کے روپ میں پیش کر دیا تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment