جیسا کہ ہمارے ملک پر انگریزوں کی حکومت رہی ہے اور ہمارے ہاں انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہے، اس لئے ظاہر ہے ہم انگریزوں سے متاثر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر یورپین، فرنچ، جرمن، اطالوی، ہسپانوی اور ڈچوں کے مقابلے میں انگریزوں نے جس ملک پر بھی حکومت کی، وہاں بہتری بھی لائے، ویسے بھی انگریزوں کے پاس دیگر ملکوں سے بہتر سسٹم رہا ہے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جاپانیوں کی طرح جزیروں کے باشندے ہونے کے سبب وہ بہترین ملاح (Seafarers) مشہور ہیں۔ ماہر جہاز راں ہونے کے سبب انہوں نے پوری دنیا پر حکومت کی۔
انگریزوں نے یہ بات سچ ثابت کر دکھائی:
’’ Those who rule the sea, rule the world‘‘
(جن کا سمندر پر راج ہے، ان کا دنیا پر راج ہے)
ہم انگریز جہاز رانوں کے سمندری قصے، سفر اور مہم جوئی پر مشتمل کتابیں پڑھتے ہیں اور فلمیں دیکھتے ہیں۔ انگریز نیوی گیٹرز، Oceanogrophers، میرین سائنٹسٹ کی لکھی ہوئی درسی اور ٹیکنیکل کتابیں میرین اکیڈمیز اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں … یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست، لیکن اس کے ساتھ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ جہاز رانی، سمندر میں راستے تلاش کرنے، طوفانوں اور خوفناک سمندروں کا دلیری سے مقابلہ کرنے اور مشکل حالات میں انجام کی فکر کئے بغیر risk لینے میں پرتگالی سب سے آگے رہے ہیں۔ پرتگال کے باشندے پرتگالی کہلاتے ہیں، یہ یورپ کا مغربی ملک ہے۔ میڈی ٹرینین سمندر یا یورپ کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو پرتگال بالکل آخر میں بائیں جانب نظر آئے گا۔ اس کے بعد اٹلانٹک سمندر ہے۔ اس کے شمال میں اسپین واقع ہے۔ پرتگال کے جنوبی اور مغربی حصے اٹلانٹک سمندر کے حوالے ہیں۔
میں پرتگال میں رہنے کے دوران ہمیشہ ہی سوچتا تھا کہ اس ملک کا بچہ بچہ پیدا ہوتے ہی سمندر کی بھپری ہوئی لہروں کا نظارہ کرتا ہے۔ وہ بڑا ہو کر ان کا مقابلہ کرتا ہے … یہی حال برطانیہ یعنی انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، ویلس اور آئر لینڈ والوں کا ہے۔ پرتگال کی دوسری سمت یعنی براعظم افریقہ کے شمال میں موراکو واقع ہے۔
پرتگال، اسپین، انگلینڈ اور دیگر یورپی ملکوں کے جہاز رانوں کا اپنے یورپی ملکوں اور افریقہ کے شمالی ملکوں، الجیریا، ٹیونیشیا، لیبیا وغیرہ کی طرف پندرہویں صدی کے آخر تک آمدورفت جاری رہی۔ وہ کبھی کبھار افریقہ کے مغربی کنارے کے قریب والے ملکوں: موراکو، موریطانیا، سینیگال، آئری کوسٹ، لائبیریا کی بندرگاہوں تک بھی پہنچ جاتے تھے۔ اس سے آگے اٹلانٹک سمندر میں مغرب کی سمت جانے یا افریقہ کے مغربی کنارے کی طرف مزید آگے جانے کی ہمت نہیں کر پاتے تھے۔ وہ مزید آگے کا سفر کر کے اپنی جان اور جہاز کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ ایک تو بپھری ہوئی سمندری لہریں اور خوفناک طوفان اور یہ بھی یقینی نہیں تھا کہ آگے چل کر کہیں زمین کا ٹکڑا ملے گا بھی یا نہیں! ان ایام تک جہاز بھی کچھ زیادہ مضبوط نہیں تھے۔ سمندر کی ایسی لہریں جو آج کے ماڈرن آہنی اور ویلڈنگ والے جہازوں کی چیخیں نکال دیتا ہے اور بعض اوقات ہمارے آج کے جدید اور مضبوط آہنی جہاز دولخت ہو جاتے ہیں … سو ان دنوں کے چوبی جہاز (بیڑے) جو انجن کے ذریعے نہیں، بلکہ ہوا کے زور پر رواں رہتے تھے۔ وہ بلند بالا مست اور بپھری ہوئی لہروں کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب شمال کی طرف سے ہوا چلنا شروع ہوتی تو جنوب کی سمت چل پڑتے تھے اور جب ہوا کا رخ تبدیل ہوتا، جنوب کی سمت سے ہوا چلتی تو واپسی کا سفر اختیار کر کے شمال میں آتے تھے۔
اس زمانے میں کپڑے کے بڑے بڑے بادبان ہوا کرتے تھے، ان کا مصرف یہ تھا کہ جب ان پر ہوا لگتی تو جہاز کی رفتار کچھ بڑھ جاتی تھی۔ تجربہ کار اور ماہر ناخدا (کیپٹن) زیادہ سے زیادہ اتنا کر سکتے تھے کہ جہاز پر موجود تین یا چار بادبانوں کی پوزیشن قدرے تبدیل کر کے گویا ان سے اسٹیئرنگ کا کام لیتے تھے۔ یعنی جہاز سیدھا شمال یا جنوب کی سمت میں جانے کے بجائے ان کی خواہش کے مطابق کچھ ترچھا ہو کر شمال مغرب یا شمال مشرق کی سمت میں بھی چلتا رہے یا پھر جنوب یا جنوب مشرق کی طرف۔
جب تک یہ ثابت نہ ہوا کہ دنیا گول ہے یا چوکور، تب تک ملاح اپنی کشتیوں کو یورپ سے مغرب کی سمت یعنی آج کے امریکا کی طرف نہیں لے جاتے تھے۔ انہیں یہ خوف تھا کہ ممکن ہے آگے چل کر سمندر ختم ہو جائے اور ان کا بیڑہ کسی تاریک کھائی میں نہ جا گرے۔ (اس زمانے میں عام خیال یہ تھا کہ دنیا چوکور ہے) ان ایام میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایشیا، یورپ اور افریقہ ہی کل دنیا ہے اور اس کا درمیان میڈی ٹرینین سمندر ہے۔ اس سمندر کے نام کا مطلب بھی یہی ہے ’’دھرتی کے درمیان کا سمندر‘‘۔
ہماری اطراف میں بھی اس وقت کے چوبی بیڑے عرب ملکوں (بحر احمر) سے بحیرئہ عرب میں آتے رہتے تھے۔ دوسری جانب افریقہ کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے جبوتی، مغادیو (صومالیہ)، محباسا (آج کا کینیا)، زنجبار (تنزانیا) اور موزمبیق تک جا پہنچتے تھے۔ اس سے آگے جنوبی افریقہ کے مقام پر کیپ آف گڈ ہوپ کی طرف مڑنے یا دوسری جانب جنوبی انڈیا، سیلون (سری لنکا) اور ملائیشیا، انڈونیشیا سے دور جنوب کی طرف جانے سے گھبراتے تھے۔ جہاں بعد میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ دریافت ہوئے۔ کوئی مہم جو اور بہادر ملاح ہمت کر کے اس سمت میں آگے بڑھتا بھی تھا تو ایک یا دو دن کے بعد اس کی ہمت جواب دے جاتی اور بیڑے کا رخ موڑ کے واپس آ جاتا تھا۔ کیوں کہ یہ خوف ہمیشہ ملاحوں کے سر پر سوار رہا کہ نہ جانے کہاں سمندر کا خاتمہ ہو جائے اور وہ تاریک گہرائیوں میں غرق ہو جائیں۔
بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات سامنے آئی کہ یہ دنیا رومال کی طرح سیدھی اور چوکور نہیں، بلکہ گول ہے تو تب بھی یورپین نہ تو اٹلانٹک سمندر کے مغرب، جہاں امریکا واقع تھا، کا رخ کرتے تھے اور نہ ہی ہمارے عربوں، ایرانیوں، ہندوستانیوں نے بحرہند میں سیلون سے آگے جنوب کی سمت جانے کی کوشش کی۔ نہ ہی جاپانی اور چینی پیسفک سمندر کے مشرق میں آگے بڑھتے تھے، جدھر ہوائی جزائر ہیں۔ اس زمانے میں اگر آج جیسے انجن والے آہنی جہاز ہوتے تو پھر یہ مہم جوئی اس قدر خوفزدہ کرنے والی نہ ہوتی۔ کیوں کہ ہوا خواہ کسی طرف کی بھی چل رہی ہوتی، جہاز کیپٹن کی خواہش کے مطابق چلتے۔ آج کے جہازوں میں بڑی بڑی ٹنکیاں موجود ہوتی ہیں، جن میں مہینے بھر کا تیل اور پانی اسٹاک کیا جا سکتا ہے۔ جنریٹر، پمپ، الیکٹرک سٹی اور ایئرکنڈیشن سسٹم کے سبب چھ، چھ ماہ کی خوراک، سو کے لگ بھگ ذبح شدہ مرغیاں، گائے، مچھلی اور کھانے کا سامان کولڈ اسٹورز میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے ، لیکن پندرہویں صدی کے آخر تک، جبکہ کولمبس جیسے ناخدائوں کو معلوم تھا کہ دنیا گول ہے، دنیا کا نقشہ اور پیمائش کی خبر نہیں تھی۔ انہیں بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ دھرتی کا گولہ کس قدر وسیع و عریض ہے۔ سمندر میں سفر جاری رکھا جائے تو کتنے دنوں کے بعد کنارہ نظر آئے گا اور اس وقت تک پانی اور خوراک کا انتظام کس طرح ہو سکے گا؟(جاری ہے)