2018ء کے عام انتخابات بدھ کو شام چھ بجے پولنگ کے آخری وقت پر اپنے اختتام کو پہنچے۔ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ عام طور پر پولنگ پرسکون رہی اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ چھ بجے تک ملک کے کئی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹروں کی طویل قطاریں نظر آرہی تھیں، جس کی بنیاد پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وقت ایک گھنٹے بڑھا کر سات بجے کر دیا جائے تاکہ تمام ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ اس قسم کے مطالبات، دھاندلی، ناقص انتظامات اور پولنگ عملے کی مناسب تربیت نہ ہونے جیسے الزامات پاکستان میں عام انتخابات کے موقع پر معمول کا حصہ ہیں۔ تاہم چیف الیکشن کمشنر نے مختلف پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کر کے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ الیکشن کمیشن نے پولنگ کا وقت بڑھانے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئین و قانون کے مطابق اسے نو گھنٹے سے زیادہ پولنگ کرانے کا اختیار نہیں ہے۔ البتہ یہ گنجائش موجود ہے کہ چھ بجے تک جو رائے دہندگان پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود ہوں گے، انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ چیف الیکشن کمیشن کا اظہار اطمینان کوئی نیا نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر انتخاب کے موقع پر ایسے ہی دعوے کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح صاف و شفاف پولنگ اور غیر جانبدارانہ نتائج کے اعلانات بھی ہوتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ انتخابات کے دوران ہونے والی ہلاکتوں پر رسمی اظہار افسوس تو کیا جاتا ہے، لیکن اسے بھی غیر اہم قرار دے کر آئندہ کے لیے مزید حفاظتی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ ادھر سیاسی جماعتوں نے گزشتہ ستر برسوں میں اپنے رہنمائوں کی سیاسی تربیت کا کوئی اہتمام کیا نہ کارکنوں میں شہری شعور بیدار کیا، جس کی وجہ سے صرف انتخابی مہم کے دوران ہی عدم برداشت اور قتل و غارت کے واقعات رونما نہیں ہوتے، بلکہ لاکھوں سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں بھی عین انتخابات کے روز اشتعال اور خونریزی دکھانی دیتی ہے۔ بدھ پچیس جولائی کو دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ کوئٹہ کے ایک حلقے میں پولنگ شروع ہوتے ہی پیش آیا، جس میں یہ سطور تحریر کئے جانے تک تیس سے زائد افراد کے جاں بحق اور چالیس زخمی ہونے کی اطلاع موصول ہو چکی تھی۔ زخمیوں کی زیادہ تعداد کے پیش نظر ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ حملہ خود کش تھا اور اس میں عراق کی دہشت گرد تنظیم داعش ملوث بتائی جاتی ہے، جبکہ کچھ اطلاعات کے مطابق داعش نے اس کی ذمے داری بھی قبول کر لی ہے۔ شہید ہونے والوں میں سیکورٹی کے دو اہلکار اور ایک بچی بھی شامل ہے۔ حکام نے اسے خود کش حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ایک موٹر سائیکل سے کیا گیا۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جن انتخابات سے ملک اور قوم کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا، بلکہ صرف مقتدر و متمول طبقوں نے نام اور دام کمائے، انہیں منتخب کرانے کے لیے عوام کی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود تمام ادارے پرامن انتخابات کے دعوے کر کے خود ہی اپنی کارکردگی کے ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک کچھ درجن جانوں کا ضیاع کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ حالانکہ اسلام نے ایک انسان کی حرمت کو خانۂ کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے اور مثال دے کر کہا گیا ہے کہ ایک طرف خانہ کعبہ گر رہا ہو اور دوسری طرف مسلمان گرتا ہوا نظر آئے تو پہلے انسان کو بچالو۔ خانہ کعبہ تو دوبارہ تعمیر ہو جائے گا، جبکہ جانے والی جان واپس نہیں آئے گی۔ ملک کے دفاع کی خاطر جو شہادتیں ہوتی ہیں، ان کا معاملہ بالکل مختلف ہے اور یہ شہادتیں اللہ کے نزدیک اتنی مقبول ہوتی ہیں کہ شہیدوں کو زندہ قرار دے کر کہا جاتا ہے کہ انہیں رزق بھی پہنچتا ہے، لیکن ہم اس کا شعور نہیں رکھتے۔ مال و مناصب کے ماروں اور حرص و ہوس کے پجاریوں کے انتخابی عمل کے دوران جو جانیں ضائع ہوں، وہ تو یقینا شہادت کے رتبے پر فائز ہوتی ہوں گی، لیکن اس کے نتیجے میں ملک کو کبھی کوئی فائدہ پہنچے نہ عوام کو معمولی سہولتیں میسر آئیں، تو ایسے عمل پر سیاستدانوں اور اداروں کا فخر کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ انتخابی جلسے جلوسوں اور ریلیوں پر حملوں کے دوران الیکشن کے دن تک دو سو سے زیادہ پاکستانی باشندے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ اسی ماہ کی تیرہ جولائی کو مستونگ کی ایک ریلی پر حملے کے نتیجے میں ایک سو چون افراد شہید ہوئے تھے۔ عام انتخابات والے دن ملک بھر کے پچاسی ہزار پولنگ اسٹیشنوں پر مختلف اداروں کے کم و بیش آٹھ لاکھ افراد سیکورٹی کے فرائض پر مامور تھے، اس کے باوجود انتخابی عمل شروع ہوتے ہی کوئٹہ کے ایک پولنگ اسٹیشن پر خودکش حملہ ہو گیا، جس کے ذمے داری ’’داعش‘‘ پر تو ڈال دی گئی، لیکن حفاظتی انتظامات کی ناکامی اور انسانی جانوں کے ضائع ہونے پر کوئی قابل ذکر تشویش نظر نہیں آئی۔ عام انتخابات کے نتیجے میں عوامی نمائندگی کا کوئی بھی دعویٰ اس وجہ سے بے بنیاد ہے کہ اس میں چھوٹی بڑی تیس سیاسی و مذہبی جماعتوں نے حصہ لیا، جبکہ ان کے اور آزاد امیدواروں کو ملا کر کل تعداد ساڑھے بارہ ہزار سے زائد تھی۔ اس سے قبل بائیس جولائی کو تحریک انصاف کے ایک امیدوار اور سابق صوبائی وزیر اکرام اللہ گنڈاپور کی ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے ڈرائیور کے ساتھ بم دھماکے سے ہلاکت پر پی کے 99 کا انتخاب ملتوی کیا جا چکا تھا۔ اکرام اللہ گنڈاپور کے بھائی اسرار اللہ گنڈاپور کو بھی اکتوبر 2013ء میں اس وقت خود کش حملے میں شہید کیا گیا تھا جب وہ خیبر پختونختوا میں وزیر قانون تھے۔ علاوہ ازیں دس جولائی کو عوامی نیشنل پارٹی کے ایک صوبائی امیدوار ہارون بلور اور ان کے اکیس ساتھی ایک خود کش حملے میں جاں بحق ہوئے۔ مختلف مقامات پر اکا دکا حملوں میں بھی کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سیکڑوں ہلاکتوں کے اس پس منظر میں انتخابات کو پرامن، شفاف اور ان کے نتائج کو قابل قبول قرار دینے کا دعویٰ اپنے اندر کتنی حقیقت رکھتا ہے؟ یہ الیکشن کمیشن، نفاذ قانون کے ذمے دار اہلکار اور حکومتی ادارے جانیں یا اللہ انہیں سمجھے کہ کس کی حرص و ہوس کے لیے یہ خون بہایا گیا؟ ٭