بدھ پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر منعقد ہو گئے۔ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ تمام جدید سہولتیں موجود ہونے کی وجہ سے رات کو دو بجے تک کامیاب ہونے والے امیدواروں کا حتمی اعلان کر دیا جائے گا، لیکن پاکستانی قوم کی طرح عالمی ذرائع ابلاغ بھی حیران ہیں کہ چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کئی حلقوں اور پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ تاخیر کے اسباب کیا ہیں اور مکمل نتائج کا کب تک اعلان ہو سکے گا؟ سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے انتخابات کی شفافیت پر سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی نتیجہ نہیں روکا گیا۔ نتائج میں تاخیر کی وجہ آر ٹی ایس سسٹم کا بیٹھ جانا ہے۔ شام چھ بجے دبائو بڑھا تو ٹیلی فون سسٹم بیٹھ گیا تھا۔ اسے اسی وقت بیٹھنا تھا؟ تاخیر کی وجہ کوئی گھنائونی سازش ہے نہ کسی کا دبائو۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور ایم کیو ایم سمیت چھ جماعتوں نے انتخابات میں بدترین دھاندلی کا الزام عائد کر کے کہیں انہیں قبول کرنے سے انکار کیا تو کہیں شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ انتخابی عملے پر تحریک انصاف سے ملی بھگت اور نتائج بدلنے کا الزام تقریباً تمام سیاسی حلقوں اور کئی مبصرین کی جانب سے عائد کیا جا رہا ہے۔ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد سب سے بڑے دو الزامات عائد کئے گئے۔ اول، عین گنتی کے وقت بہت سے پولنگ ایجنٹوں کو نکال باہر کیا گیا۔ دوم، ووٹوں کی گنتی کی تصدیق کے لیے ضروری فارم نمبر 45 نہیں دیا گیا، جس پر کسی پولنگ اسٹیشن میں پڑنے والے ووٹوں کی دستخط شدہ تصدیقی مہر ثبت ہوتی ہے۔ قبل از انتخابات دھاندلی کے الزامات تو کافی دنوں سے لگائے جا رہے تھے، جن میں رائے دہندگان کے نام ایک حلقے سے دوسرے حلقے میں تبدیل کر دینا، شناختی کارڈز پر قبضہ، جعلی شناختی کارڈز کا اہتمام، دولت کی ریل پیل اور مقتدر حلقوں سے سازباز کا زیادہ چرچا تھا۔ اعلیٰ عدالتوں سے بعض سزائوں میں عجلت اور بعض میں تاخیر، اسی طرح کسی کو الیکشن سے پہلے پس دیوار زنداں پہنچا دینا اور کسی کو احتساب عدالت کے اس فیصلے پر آزاد چھوڑ دینا کہ عام انتخابات کے انعقاد تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئے گی۔ ذرائع ابلاغ پر عمران خان کے حق میں مسلسل خبریں اور تبصرے بھی اسی سلسلے کی کڑی قرار دیئے جا رہے ہیں۔ ایک مشہور اینکر پرسن تو کئی ماہ سے اپنے پروگرام میں تحریک انصاف کی کامیابی کے دعوے کر کے عمران خان کو آئندہ وزیر اعظم باور کراتے رہے۔ علاوہ ازیں بیرونی ذرائع ابلاغ بھی تحریک انصاف اور عمران خان کی بڑے پیمانے پر کامیابی کی خبریں اور رپورٹیں مسلسل شائع کرتے رہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اندرونی و بیرونی قوتوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ پاکستان میں آئندہ حکومت عمران خان ہی کی ہو۔ ہم نے ہمیشہ اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں جہاں جہاں عوام و خواص اپنے اختیارات استعمال کرنے سے عاجز و قاصر ہوں، وہاں بااثر و بااختیار شخص اور جماعت کو اپنی برتری جتانے کا حق حاصل ہے۔ یہی ہماری ناقص جمہوریت اور فراڈ انتخابی نظام کا بنیادی اصول ہے۔ مشینوں کا عین وقت پر خراب ہونا بھی اس تیکنیکی حربے کا ایک حصہ نظر آتا ہے، جو نتائج کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا جائے۔
بہرحال اب جبکہ انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے اور اب تک موصول ہونے والے نامکمل، غیر تصدیق شدہ اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے تو پاکستان کے مروجہ سیاسی نظام، روایات اور نظیروں کے مطابق نتائج کو تسلیم کرنے کے سوا قوم کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ اسی بنا پر عمران خان کو مبارک باد دی جا رہی ہے کہ وہ ملک کے آئندہ وزیراعظم ہوں گے۔ عمران خان کو مبارک باد کے پیغامات میں سب سے زیادہ خوشی اپنی سابقہ یہودی نژاد اہلیہ جمائما کی جانب سے نیک خواہشات پر ہوئی ہو گی۔ طلاق یافتہ اس خاتون نے علیحدگی کے بعد بھی ہر مشکل گھڑی میں عمران خان کی سیاسی، اخلاقی اور مالی مدد کی۔ تازہ پیغام میں اس نے عمران خان کو خوب صورت، پگلا، پیارا اور پرانا دوست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں تمہارے ووٹ گننے والوں کو یقین ہے کہ انہیں ایسا رہنما مل جائے گا، جس پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ عمران خان کی کامیابی کے اندرونی و بیرونی عوامل جو کچھ بھی رہے ہوں، انہوں نے اپنے پہلے پالیسی بیان میں جو کچھ کہا ہے، اگر اس پر عملدرآمد میں وہ مخلص ہیں تو اسے کھلے دل سے تسلیم کر کے کامیابی کے لیے دعا کی جا سکتی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ بائیس سال قبل تمامتر شہرت اور دولت کو چھوڑ کر سیاست کے میدان میں اس لیے آئے کہ انہیں پاکستانی عوام کی مایوسیوں اور محرومیوں کا احساس تھا اور وہ دیکھ رہے تھے کہ عوام کی اکثریت پانی اور غذا کی قلت سے دوچار ہے۔ انہیں تعلیم کے یکساں مواقع میسر ہیں نہ علاج کی سہولتیں حاصل ہیں۔ عمران خان سے یہ پوچھنا لاحاصل ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے انہوں نے ملک کے عام شہریوں کے لیے بائیس سال میں کیا کیا؟ ہر کام کے لیے اقتدار میں آنے کی سیاست دانوں کی کیا مجبوری ہوتی ہے؟ اپنے جمعرات کے خطاب میں انہوں نے ایک بار پھر اس عزم کو دہرایا ہے کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کریں گے، جہاں قانون کی بالادستی ہو گی اور تمام شہریوں کو یکساں حقوق، مواقع اور سہولتیں حاصل ہوں گی۔ انہوں نے وزیراعظم ہائوس استعمال نہ کرنے اور نچلے طبقات کو اوپر اٹھانے کے وعدے بھی کئے اور کہا کہ وہ ماضی کو بھلا کر اور سب کو معاف کر کے آگے بڑھیں گے۔ جن حلقوں میں دھاندلی کی شکایت کی جائے گی، اسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ بیرونی سرمایہ کاری اور پڑوسیوں سے اچھے تعلقات قائم کئے جائیں گے۔ خود کو احتساب کے لیے سب سے پہلے پیش کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ملک سے بے روزگاری، غربت، بھوک، افلاس، امراض اور جہالت دور کرنے کے اقدامات کئے جائیں گے۔ یاد رہے کہ انتخابی منشور اور برسر اقتدار آتے ہی کئے جانے والے وعدوں اور ان کی تکمیل کا فرق ہی کسی حکمران کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہوتا ہے، جس پر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جیسے لوگ پورے نہ اترنے کے باعث اقتدار سے محروم ہوئے۔ تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعروں کے ساتھ اب عمران خان اس امتحان سے گزرنے والے ہیں۔ اس میں وہ کس طرح کامیاب ہوں گے؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ فی الحال ان کی کامیابی کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے، جبکہ پاکستان کی بقا و سلامتی، ترقی و خوش حالی اور استحکام ہم سب کا مشترکہ مقصد ہونا چاہئے۔