سب سے پہلے پنچھی جاگے۔ ابھی اجیارے نے انگڑائی نہیں لی تھی۔ ابھی دھرتی پر دودھیا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس وقت اذان کی آواز گونجی اور خالی راستوں پر چند لوگ مسجد کی طرف چلتے نظر آئے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب گھروں میں بچے گہری نیند سو جاتے ہیں اور مائیں اٹھ کر آگ جلاتی ہیں۔ چولہے پر چائے بنتی ہے اور جیون کی بھن بھن باتوں سے کان بھرنے لگتے ہیں۔ جب سورج کی تیز کرن بچوں کے چہروں پر پڑتی ہے، وہ اپنی آنکھوں کو زور سے بند کرکے رات کے خواب کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ وہ ادھورا خواب انہیں پوری طرح سے یاد نہیں آتا۔
الیکشن بھی ادھورا خواب تھا۔ وہ الیکشن جس کے دوسرے دن ہارنے اور جیتنے والے دیر تک سوتے رہے۔ کسی نے کڑوا شربت خوشی میں اور کسی نے غم بھلانے کی دوا سمجھ کر پیا۔ سندھ کے کامیاب اور ناکام سیاستدان ابھی گہری نیند میں سوئے ہوئے تھے اور سپنوں میں کھوئے ہوئے تھے، مگر لیاری سے لے کر لاڑکانہ تک سارے شہر جاگ چکے تھے۔ گوشت اور سبزی کی دکانیں کھل چکی تھیں۔ کھیتوں سے آنے والی تازہ سبزی کی مہک آہستہ آہستہ لوگوں سے بھرتی ہوئی ان تنگ بازاروں میں بھری ہوئی تھی، جن میں گدھا گاڑیوں والے ٹین کے ڈبے میں چھوٹے پتھر بجاتے گزر رہے تھے۔ پھلوں اور سبزیوں کی دکانوں سے کچھ دور ایک مچھیرا گاہک کو سمجھا رہا تھا کہ ’’سائیں! یہ موسم کی نئی مچھلی ہے۔ اس کا سائز بڑا نہیں ہوتا۔ اس میں ذائقہ دوبالا ہوتا ہے۔‘‘ وردی والی شرٹ میں بڑی توند لہراتا محلے کا جمعدار جلدی جلدی خریدا ہوا سامان بیٹے کے ہاتھوں میں تھما کر تھانے کی طرف روانہ ہو رہا تھا۔ زندگی بھرپور انداز سے رواں دواں تھی اور کھانے پینے کے چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں پر رش بڑھنے لگا۔ آخر لوگ ان وعدوں سے تو پیٹ نہیں بھر سکتے، جو انتخابی منشور اور کارنر میٹنگز میں کیے جاتے ہیں۔ سندھ میں ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگانے والی پارٹی اگلے پانچ برس تک حکومت کرنے کے لیے جیت چکی تھی۔ مگر لوگ خوش نہیں تھے اور لوگ ناخوش بھی نہ تھے۔ نہ یہ ان کی جیت تھی اور نہ ان کی ہار۔ وہ فتح اور شکست سے ماورا تھے۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھے۔ کوئی چنگچی چلا رہا تھا اور موٹر سائیکل پر جا رہا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے زندگی جمہوریت اور آمریت میں ایک جیسی ہوتی ہے۔ جب ملک پر جنرل پرویز مشرف مسلط ہوتا ہے تب بھی کسان ہل چلاتا ہے اور مزدور اناج سے بھری ہوئی بوریاں اٹھاتا ہے۔ موچی جوتے چمکاتا ہے۔ درزی کپڑے سیتا ہے۔ چور رشوت دیتا ہے۔ پولیس والا رشوت لیتا ہے۔ کرائے پر نعرے لگانے والے سے چائے ٹھنڈی ہونے کا انتظار نہیں ہو پاتا۔ وہ چائے کپ سے انڈیل کر پلیٹ میں ڈالتا ہے اور عجیب آواز سے چائے حلق میں انڈیلتے ہوئے اپنی چرب زبانی سے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو متاثر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’تم لوگ کیا سمجھتے ہو کہ اب کامیاب امیدوار عوام سے کیے ہوئے وعدے پورے کریں گے؟‘‘ لوگوں کے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ کہتا جاتا ہے کہ ’’تم نے اس عورت کی بات نہیں سنی، جس کا شوہر اس کے ساتھ رات کو سونے کا نیا سیٹ خرید کر دینے کا وعدہ کرتا ہے، وہ صبح بھول جاتا ہے۔‘‘ وہ سستے برانڈ کا سوکھی ہوئی سگریٹ سلگاتا ہے اور سیاہ ہونٹوں سے دھواں اڑاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’بابا! سیاست کو سمجھو۔ ہر شخص دوسرے کے ساتھ سیاست کرتا ہے۔ یار یار سے سیاست کرتا ہے اور پیار پیار سے سیاست کرتا ہے۔ جب بچے ماں باپ سے سیاست کریں تو پھر باقی کیا بچتا ہے!!؟؟‘‘
اس دن دوپہر دیر سے آئی۔ وہ الیکشن کا دوسرا دن تھا۔ ہارے ہوئے امیدواروں کا موڈ سخت خراب تھا۔ ان سے گھر کے فرد بھی بات کرتے ڈر رہے تھے۔ ان کے فون بھی آف تھے۔ ان کو ان جھوٹے دلاسوں اور راویتی ہمدردی کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ وہ اس کام میں خود بہت ماہر تھے۔ انہوں نے سیاست میں جھوٹے وعدے اور نقلی تسلیوں کے علاوہ اور سیکھا بھی کیا تھا؟ انہیں اس قسم کی ہمدردی سے نفرت تھی، جس ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے لیے لوگ ان کے گھروں پر آنے کے بہانے ڈھونڈ رہے تھے۔ ہارنے والوں کو ایک ایک بات یاد رہتی ہے، مگر جیتنے والا بہت کچھ بھلا دیتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے مخالفین کو خود فون کرنے کے لیے اپنے بیٹوں، بھانجوں اور بھتیجوں سے کہہ رہے تھے کہ فلاں کا نمبر ملاؤ اور ان کے لہجوں میں وہ تازگی اور ترنگ تھی، جو جیت میں ہوتی ہے۔ جیت کا نشہ شراب سے زیادہ ہوتا ہے۔ وہ الیکشن کے دوسرے دن رات سے زیادہ خمار میں تھے۔ وہ سارے لوگ جو سندھ کے بڑے گاؤں اور چھوٹے شہروں سے رخت سفر باندھ رہے رہے تھے۔ کراچی میں ان کے بڑے بنگلے ان کے منتظر تھے۔ اب اصل مقابلہ وہاں پر ہوگا۔ کس کو کون سی وزارت ملے گی؟ کون پارٹی قیادت کے قریب جانے میں کامیاب ہو پائے گا؟ کون اقتداری کلب کا عہدیدار بنے گا؟ کس کو زیادہ بجٹ والی وزارت سے نوازا جائے گا؟ کس کے حصے میں ایک سے زائد وزارتیں آئیں گی؟ اس کا فیصلہ عوام نہیں کرتے۔ اس کا فیصلہ ووٹوں سے نہیں ہوتا۔ اس کا فیصلہ نوٹوں سے ہوتا ہے۔ اس کا فیصلہ بظاہر چند اور اصل میں ایک شخص کرتا ہے۔ اس کی نظر کرم کے لیے کامیاب ہونے والے وڈیرے انتخابات کے دوسرے دن سفر کی تیاری میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی انہیں شہر والوں سے جان چھڑانے کے لیے دو تین دن تو لگ جاتے ہیں۔ مگراب ان کا پورا دھیان وہاں ہے، جہاں وزارتیں بانٹی جاتی ہیں۔ جہاں قسمت بنتی بھی ہے اور بگڑتی بھی ہے۔ جہاں ایک پل کے اچھے موڈ کی وجہ سے کسی کی لائف بن جاتی ہے۔ اس مقام تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس حد تک صرف چند افراد پہنچ پاتے ہیں۔ ان کو وہاں تک پہنچنے کے لیے ان عوام کی ضرورت ہوتی ہے، جو عوام ووٹ دے کر اس طرح بھول جاتے ہیں، جس طرح ایک مزدور کام کرنے کے بعد تعمیر کیے ہوئے گھر کو بھول جاتا ہے۔ جس طرح ایک دھوبی اپنے دھوئے ہوئے کپڑوں کو بھول جاتا ہے۔ جس طرح ایک حجام اس چہرے کو بھول جاتا ہے جس کو اس نے معمولی اجرت لے کر خوب چمکایا تھا۔ وہ لوگ جن کو عام طور پر عوام کہا جاتا ہے۔ اب جن کے نام نہیں ہوتے۔ اب جو مخصوص گھروں اور محلوں کے مکین نہیں ہوتے۔ اب جو مخصوص چہرے نہیں ہوتے۔ اب وہ صرف شناختی کارڈ کا نمبر بن گئے ہیں۔ اب وہ ووٹ دے کر کوئی احسان نہیں کرتے۔ ان کی اکثریت فی ووٹ پانچ ہزار میں بیچنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ گھر میں چھ افراد کے ووٹ داخل ہوتے ہیں اور تیس ہزار روپے حاصل ہو جاتے ہیں۔ عورت کہتی ہے کہ گھر کی گرتی ہوئی دیوار تعمیر کروائیں۔ مرد کہتا ہے کہ ماں کی آنکھوں کا آپریشن کروائیں۔ ایک بیٹا موٹر سائیکل اور دوسرا موبائل فون کی فرمائش کرتا ہے۔ مگر گھر میں کچھ نہیں آتا اور وہ پیسے دو چار دن اچھے اور دو وقت کے کھانے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ پھر وہی غربت اور وہی نئے انتخابات کا انتظار!!
اس شام گرمی کی شدت کچھ کم تھی۔ وہ انتخابات کا دوسرا دن تھا۔ اس شام شہر کے سیاسی معززین، بڑے اخباروں اور چینلوں کے نمائندوں اور الیکشن کے دن بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو دعوت میں مدعو کیا گیا تھا۔ ایسی محفلوں میں ناراض دوستوں کو بھی منا کر بلایا جاتا ہے اور شہر کے لوکل قسم کے دانشوروں کو قریبی کرسیوں اور صوفوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ اس قسم کی محفل میں بات اس بات سے شروع ہوتی ہے، جب ایک شخص گھڑی میں وقت دیکھ کر کامیاب امیدوار سے کہتا ہے کہ وہی وقت ہے جس وقت اندر ووٹوں کی گنتی ہو رہی تھی، اس وقت سب کہہ رہے تھے کہ ہم ہار جائیں گے، مگر مجھے جیت کا یقین تھا۔ جب رات کو گیارہ بجے نتائج موصول ہوئے تب تو خود مجھے بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔ کیوں کہ سائیں! اس ملک میں کبھی بھی اور کچھ بھی ہو سکتا ہے؟ کامیاب امیدوار اپنا پہلا گلاس جلدی ختم کرتا ہے اور قریب بیٹھے ہوئے مقامی دانشور کی کلاس لینے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے کہتا ہے کہ ’’اب بتاؤ! کہاں ہے تمہاری فیس بک؟ فیس بک پر تو ہم ہار چکے تھے، مگر عوام اور فیس بک میں بڑا فرق ہوتا ہے!‘‘ پھر بات فیس بک سے ہوتے ہوئے عملی سیاست میں الجھ جاتی ہے۔ رات کو دیر تک چلنے والی محفلوں میں ہر بات الجھتی جاتی ہے۔ کافی دیر کے بعد جب وڈیرے امیدوار وار کا دل لوکل لوگوں سے بھر جاتا ہے تب وہ اپنے شہری دانشور دوست کو کال کرتا ہے اور پہلے اس سے پوچھتا ہے کہ کہیں کسی محفل میں تو نہیں؟ جب وہ اسے بتاتا ہے کہ کہیں باہر نہیں، گھر پر ہوں، تب وہ ایک ہاتھ میں گلاس اور دوسرے ہاتھ میں موبائل فون پکڑ کر اس کا اسپیکر آن کر دیتا ہے اور اپنے مخصوص طنزیہ اسٹائل میں پوچھتا ہے کہ ’’جی دانشور صاحب! اب بتائیں کہ ہم کیسے جیتے؟ آپ تو کہہ رہے تھے کہ ہم تاریخی شکست کھائیں گے۔ اس بار تو ہمارے خلاف سب میدان میں تھے۔ پھر بھی ہماری جیت کیسے ہوئی؟‘‘ دس پندرہ منٹ کی اس گفتگو میں تحریک انصاف کی کراچی میں حیران کن فتح سے لے کر پاک سرزمین پارٹی کی متوقع شکست تک بہت ساری باتیں زیر بحث آئیں اور جب لہجوں میں تھکاوٹ لہرانے لگی، تب کراچی میں ملاقات کی بات پر بات پوری ہوتی ہے اور جب کامیاب امیدوار کے ملازمین خوشی اور فخر سے کھانے کے برتن سیٹ کرتے ہیں، تب کامیاب پارٹی کا کامیاب امیدوار اپنے شہر کے شاعرانہ مزاج رکھنے والے صحافی کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کہ ’’یار! آج تو تم نے محفل میں کچھ نہیں بولا۔ چلو اب کوئی اچھا سا شعر سناؤ۔‘‘ اور وہ صحافی اس بار بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی جیت پر اپنا بھرپور نکتہ نظر پیش کرنے کا جذبہ اپنے دل میں سلا دیتا ہے اور سلے ہوئے ہونٹوں کو حرکت دیتے فیض احمد فیض کی وہ نظم پیش کرتا ہے، جس کے آخری
الفاظ ہیں:
’’یہ جامۂ روز و شب گزیدہ
مجھے یہ پیراہن ِ دریدہ
عزیز بھی ناپسند بھی ہے
کبھی یہ فرمان ِجوش ِوحشت
کہ نوچ کر اس کو پھینک ڈالو
کبھی یہ اصرار ِحرفِ الفت
کہ چوم کر پھر گلے لگا لو‘‘