’’ذمہ دار بہرحال الیکشن کمیشن ہے‘‘

سیلانی ناشتہ کئے بنا ہی صبح سویرے دفتر پہنچ گیا، اسے کہا گیا تھا کہ سات بجے دفتر میں حاضر ہو جائے، الیکشن کا دن تھا، کسی قسم کی کوتاہی، سستی اور غفلت کی گنجائش نہیں تھی۔ سیلانی نے ناشتہ کرنے کا رسک نہیں لیا اور صبح صبح ہی جلدی جلدی جینز شرٹ پہن کر دفتر کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اس کی ’’نیلوفر‘‘ سیکنڈ ضائع کئے بغیر اسے لے کر ہوا ہو گئی، سڑکیں خالی تھیں۔ ’’نیلو فر‘‘ اڑتی چلی گئی اور پھر وہ پچیس منٹ میں دفتر کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا، جہاں سے اسے کراچی کے نواحی ضلع غربی جانا تھا، ضلع غربی خاصا پھیلا ہوا ہے، یہاں قومی اسمبلی کی پانچ اور سندھ اسمبلی کی گیارہ نشستوں پر مقابلہ تھا۔ سیلانی سب سے پہلے اورنگی ٹاؤن پہنچا، یہاں چہل پہل شروع ہو چکی تھی، لیکن جیسا ماضی کے عام انتخابات میں جوش و خروش ہوتا تھا، وہ اسے دکھائی نہیں دیا، اسے مختلف پارٹیوں کے جھنڈوں اور لاؤڈ اسپیکروں والی منی بسوں، بسوں، سوزوکیوں اور چنگ چی رکشوں کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ ماضی میں سیاسی جماعتیں ووٹروں کو پروٹوکول دینے کے لئے ان گاڑیوں کو استعمال کرتی تھیں۔ سیاسی کارکن انہیں گھروں سے لاتے، پولنگ اسٹیشن سے پہلے اپنے کیمپ پر ووٹ کی پرچی بناتے اور پولنگ اسٹیشن کے دروازے پر ضروری تاکید کے ساتھ چھوڑ کر واپس پلٹتے تھے، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ علاقے میں جس پارٹی کا زور ہوتا، اس کے کارکن بلا روک ٹوک اندر بھی داخل ہو جاتے اور یہ بھی سننے دیکھنے کو ملتا کہ ووٹر کو ووٹ ڈالنے کی حسرت ہی رہی… اس بار پارٹی ترانوں کا مترنم شور کرنے والی گاڑیاں دکھائی نہیں دے رہی تھیں اور وہ مزہ بھی نہیں آرہا تھا۔
سیلانی بنارس چوک پہنچا اور یہاں سے فرنٹیئر کالونی کی جانب مڑ گیا، یہ این اے 250 کا پشتون آبادی کا علاقہ ہے، اسے یہاں الیکشن کا روایتی سا ماحول دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، گلیاں مختلف پارٹیوں کے پرچموں اور بینروں سے سجی ہوئی تھیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن سرخ ٹوپیوں کی وجہ سے دور سے ہی نمایاں تھے، پیپلز پارٹی کے جیالے بھی اپنی سج دھج سے سب کو متوجہ کر رہے تھے اور کتاب والے بھی متحرک دکھائی دیئے۔ سیلانی یہ سب دیکھتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا اور ایک چھوٹے سے نجی اسکول کے سامنے لگی قطار کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔ یہ فرنٹیئر کالونی نمبر تین کا کوئی نجی اسکول تھا، اسکول کے باہر پولیس اہلکار تعینات تھے، جبکہ اندر پاک آرمی کے جوان مستعد کھڑے تھے۔ سیلانی نے اپنا تعارف کرایا اور الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ سامنے کرکے اندر آنے کی اجازت چاہی، جو اسے باآسانی مل گئی۔ سیلانی اسکول میں داخل ہوگیا، اندر چھوٹے چھوٹے کمروں میں پولنگ ایجنٹ اور انتخابی عملہ مصروف تھا، ہر پولنگ بوتھ میں آرمی کا جوان موجود تھا، جس کی وجہ سے پولنگ اسٹیشن پر سیاسی کارکنوں کی آنیاں جانیاں نہیں تھیں۔ سیلانی نے اپنے سیل فون سے تصاویر بنائیں، ویڈیو کلپ بھی بنائے اور فوجی بھائیوں کا شکریہ ادا کرکے باہر آگیا۔
اس کے بعد سیلانی کی منزل اورنگی ٹاؤن ہی کے لیاقت اسکول کی تھی، یہ خاصا بڑا سرکاری اسکول ہے، جس میں پانچ پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے، گیٹ پر پولیس اہلکار مستعد کھڑے تھے، انہوں نے سیلانی کا کارڈ دیکھا اور تعرض نہیں کیا، لیکن اسکول کے میدان میں اسے روک دیا گیا، پولیس اہلکاروں نے اسے روک کر فوجی افسران کو مطلع کیا، جس کے بعد ایک کپتان اور لیفٹیننٹ صاحب آئے، انہوں نے سیلانی کا باقاعدہ انٹرویو لیا، الیکشن کمیشن سے جاری کیا گیا کارڈ بغور دیکھا، اس کی موبائل فون سے تصویر بنا کر کہیں واٹس اپ کیں اور فون پر بات کرنے کے بعد خوشخبری سنائی کہ آپ یہاں کھڑے ہو کر مشاہدہ کر سکتے ہیں، پولنگ بوتھ کے پاس نہیں جا سکتے۔ سیلانی میں دیواروں کے آر پار دیکھنے کی صلاحیت نہیں، اس لئے اس نے نوجوان افسروں کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آیا۔ یہ علاقہ ایم کیو ایم کا گڑھ ہے اور یہ طے شدہ بات ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹروں اور سپوٹروں میں دوسری جماعتوں کی نسبت جوش و خروش زیادہ ہوتا ہے، مگر اس بار سیلانی کو یہ جذبہ مفقود لگا، اس کی وجہ لندن سے بائیکاٹ کی اپیل بھی ہو سکتی تھی اور صبح کا وقت بھی۔
یہاں سے سیلانی آگے بڑھا اور اورنگی ٹاؤن نمبر پانچ پر واقع جماعت اسلامی کے دفتر آگیا، مقصد علاقے کی سن گن لینا تھی، اسے گزشتہ انتخابات یاد تھے، جب ایم کیو ایم والوں نے جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹس کو نکال باہر کیا تھا اور صبح سے ہی ’’روایتی‘‘ انداز میں ٹھپے بازی شروع کر دی تھی، جس کے بعد جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کی وہ سنگین غلطی کی، جسے اب تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے دفتر میں خالد زمان نامی نوجوان نے بتایا کہ ہر جگہ سے امن چین شانتی ہے، آرمی کے جوان پولنگ اسٹیشنوں میں مستعد ہیں، کہیں پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جماعت کے دفتر سے سیلانی باہر نکلا اور میٹروول کی قاسم خٹک ڈسپنسری چلا آیا، یہاں بھی پچاس ساٹھ ووٹر قطار میں کھڑے ہوئے تھے۔ فوجی جوانوں نے شناخت کرنے اور افسران بالا سے اجازت لینے کے بعد ہی اسے اندر داخل ہونے دیا، یہاں ووٹروں نے سست رفتار پولنگ کی شکایت کی، پولنگ اسٹیشن کے پریذائیڈنگ افسر کے مطابق تقریباً دو سو تیس ووٹ ڈالے جا چکے تھے۔ سیلانی نے گھڑی پر نظر ڈالی، بارہ بج رہے تھے، یعنی ایک گھنٹے میں اوسطاً پچاس سے باون ووٹ نمٹائے گئے۔
سیلانی میٹروول سے حلقہ این اے 248 کے علاقے ماری پور آگیا، یہاں مدنی کالونی گریکس ماری پور کے ہپی ولا اسکول میں اسے داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی، پولیس افسران نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ فوجیوں نے منع کر رکھا ہے، جبکہ اسی علاقے میں بلال اسپتال کے پاس سرکاری اسکول میں کسی نے تعرض نہیں کیا، یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات تھی، الیکشن کمیشن کے اجازت نامے کی کوئی وقعت نہ تھی، جہاں جی چاہا خوش آمدید اور جہاں موڈ نہ ہوا دروازے بند، یہاں اچھا خاصا جوش و خروش تھا، یہ علاقہ پیپلز پارٹی کے چاہنے والوں کا ہے۔
ماری پور کے بعد سیلانی کو کیماڑی میں ہر پولنگ اسٹیشن کے دروازے میڈیا کے لئے بند ملے، اس نے دو بڑے اسکولوں میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشنوں میں جانا چاہا کہ پولنگ کا جائزہ لے سکے، ووٹروں سے مل سکے، ان کی آراء جان سکے، لیکن اسے اجازت نہ ملی، اسے کہا گیا کہ جیکسن تھانے کے پیچھے بنائے گئے کیمپ آفس میں کرنل صاحب سے مل لے۔
سیلانی نے کاندھے اچکائے اور باہر نکل آیا۔ دوپہر کے دو بجنے کو تھے، پولنگ کے ختم ہونے میں چار گھنٹے باقی تھے، وہ یہ قیمتی وقت کرنل صاحب کو نہیں دے سکتا تھا اور یہی وہ وقت تھا جب فیلڈ میں بھاگ دوڑ کرتے صحافی دوستوں کو اندازہ ہونے لگا تھا کہ کس حلقے میں کس پارٹی کی حالت پتلی ہے اور کون زوروں پر ہے۔ سیلانی اور ساتھی رپورٹر اپنے خیالات، اندازے، تکے اور اطلاعات ایک دوسرے سے تک واٹس اپ کے ذریعے پہنچا رہے تھے۔ بلدیہ ٹاؤن میں مصروف آنکھیں اور کان کھلی رکھنے والے رپورٹر سعادت خان نے بتایا کہ حلقہ این اے 249 میں شہباز شریف کے حق میں ہوا چل رہی ہے، لیاری سے یہ طے تھا کہ بلاول بھٹو زرداری مشکل سے جیتے گا، اس کے لئے لیاری کی نشست فالودے کا گلاس نہیں ہوگی اور کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا، پھر گھڑی کی سوئیاں اپنی رفتار سے چلتی رہیں، پولنگ ختم ہونے میں آخری گھنٹہ رہ گیا، یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے، ساری ’’کارگزاریاں‘‘ اسی گھنٹے میں انجام دی جاتی ہیں، یہ وہی مبارک وقت ہوتا ہے، جب مرحومین بھی قبرستانوں سے ووٹ ڈالنے آجاتے ہیں، اسی گھنٹے میں پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے ہوتے ہیں، جس کے بعد ٹھپا ٹھپ ٹھپا ٹھپ ٹھپے بازی ہوتی ہے… لیکن پچیس جولائی کو یہ گھنٹہ بھی عافیت سے گزر گیا، کسی قبرستان سے کسی نے ووٹ ڈالا، نہ پولنگ اسٹیشن پر قبضہ ہوا۔ پولنگ کا وقت خیر وعافیت سے ختم ہوگیا، مگر اس کے بعد جو ہوا، وہ کسی کے لئے ناقابل یقین اور کسی کے لئے خوشگوار حیرت انگیز تھا۔ سیلانی بھی ہکا بکا تھا، پولنگ کے دو گھنٹوں کے بعد آنے والے نتائج نے تو سب پنڈتوں کے اندازے غلط ثابت کر دیئے۔ بلاول بھٹو لیاری سے، مولانا فضل الرحمان ڈیرہ اسماعیل خان سے، سراج الحق دیر سے اور چوہدری نثار راولپنڈی اور اپنے آبائی علاقے سے ہار رہے تھے۔ اسفند یار ولی چارسدہ سے چاروں شانے چت ہو گئے، محمود خان اچکزئی بھی بلوچستان کے پشتون بیلٹ سے اپنی نشست نہیں اچک سکے۔ عجیب ہوا چلی اور تیر اپنے ہدف سے پہلے گر گیا، کتاب کے اوراق پھڑپھڑا کر رہ گئے، شیر کی دھاڑ منمناہٹ میں بدل گئی، جیپ اسٹارٹ ہی نہیں ہوئی اور لالٹین کی لو تھرتھرا کر بجھ گئی۔ نتائج ایسے حیرت انگیز تھے کہ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا، شور مچنے لگا اور اس شور میں اس وقت مزید تیزی آئی جب نتائج میں گھنٹوں کی تاخیر ہونے لگی، مسلم لیگ نون کے بقول پہلے ہی خلائی مخلوق ان کے مد مقابل تھی، اب کتاب اور تیر والے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ اکیس ارب روپوں کی لاگت سے ہونے والے الیکشن کے نتائج متنازعہ بنتے چلے گئے، پاکستان تحریک انصاف کے سوا سب یک زبان ہو کر کہہ رہے تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے، پولنگ ایجنٹوں کے سامنے ووٹ نہیں گنے گئے، انہیں دستخط شدہ نتیجے کی کاپی نہیں دی گئی، جیتے ہوئے امیدواروں کے ووٹ مسترد کرکے خراب کئے گئے… سیلانی کو افسوس اور دکھ ہوا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سیل فون سے آر ٹی ایس سسٹم کے ذریعے نتائج بھیجنے تھے اور بدقسمتی سے وہ سسٹم دھوکا دے گیا، جس کی وجہ سے نتائج آنے میں تاخیر ہوئی اور جو نتائج آئے، وہ سوائے پاکستان تحریک انصاف کے کسی جماعت کے لئے قابل قبول اس لئے نہیں تھے کہ سب ہی بڑی جماعتیں شکست کھا رہی تھیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے نیوز کانفرنس میں آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھنے کا عذر پیش کیا، جسے ہارنے والی جماعتوں نے یکسر مسترد کر دیا، لیکن سیلانی اسے نظر انداز نہیں کر سکا، اسے یاد تھا کہ الیکشن سے دو تین روز پہلے روزنامہ امت کے رپورٹر عمران خان نے دھماکا کر دیا تھا کہ آر ٹی ایس سسٹم چاند چڑھائے گا، اس سسٹم کے لئے کم از کم دو جی بی ریم کا اچھا سیل فون ہونا ضروری ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب اس کی ریم میں فیس بیک، واٹس اپ اور دیگر ایپلی کیشن نہ ہوں۔ آر ٹی ایس سسٹم کی ایپلی کیشن کو کافی جگہ درکار ہوتی ہے اور پھر کیو موبائلز جیسے فونز میںکام بھی نہیں کرتی، مسئلہ یہ آکھڑا ہوگا کہ مختلف سرکاری محکموں سے اس قومی خدمت پر لئے گئے سب ہی پریذائیڈنگ افسروں کے پاس اتنے اچھے اسمارٹ فونز نہیں ہیں، پھر ان کی تربیت بھی عجلت میں ہوئی ہے کہ جن کے پاس اسمارٹ فونز ہیں، وہ اسے استعمال کرنے کے کم ہی صلاحیت رکھتے ہیں… سیلانی کو یہ خبر یاد تھی، اس نے عمران خان کو فون کیا اور بلا تمہید کہنے لگا: ’’بھئی! وہ تمہاری سپر لیڈ یاد آگئی، جس میں آر ٹی ایس سسٹم کے بارے میں بتایا تھا، یہ وہی ہوا ہے یا کوئی اور چکر ہے؟‘‘
’’سیلانی بھائی! جس کا ڈر تھا وہی ہوا ہے، میں نے اسے اپنے طور پر بھی چیک کیا ہے اور ابھی بھی اسی میں لگا ہوا ہوں، کم از کم کراچی کے پندرہ پولیس افسران سے بات ہوئی ہے، یہی پتہ چلا ہے کہ آر ٹی ایس سسٹم سے رزلٹ نہیں بھیجا جا سکا اور دوسری بات یہ کہ اسٹاف کی تربیت اتنی ناقص تھی کہ انہیںفارم45 بھرنا بھی نہیں آرہا تھا، اسی لئے رزلٹ میں دیر ہوئی، اب الیکشن کمیشن اپنی قمیض اٹھائے تو اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے۔‘‘
’’یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ دھاندلی کا عنصر کم ہے۔‘‘
’’میرا تو خیال ہے کہ دھاندلی نہیں ہوئی‘‘۔
عمران خان کی گواہی اپنی جگہ، لیکن پورے ملک سے بیک وقت اٹھنے والی آوازیں اتنی ناتواں تو نہیں کہ انہیں نظر انداز کر دیا جائے، ان شکایات کا نوٹس لینا چاہئے اور ساتھ ہی کوشش کر نی چاہئے کہ اس ملک میں کوئی ایک ادارہ تو ایسا ہو، جس کی کارکردگی پر کوئی سوال نہ اٹھائے، سب کو اعتماد ہو، سب کو اعتبار ہو، نیب سے لے کر الیکشن کمیشن تک ہر ادارے کی جانب ہماری انگلیاں اٹھی رہتی ہیں، الیکشن کمیشن کے کاندھوں پر ملکی قیادت کے چناؤ اور اس کے فیصلے کے اعلان کی ذمہ داری ہوتی ہے، سب جماعتوں کو مل کر سوچنا چاہئے کہ ایسا ادارہ کیسے بنایا جائے، جس پر اعتبار ہو، یہ کام کچھ ایسا بھی زیادہ مشکل نہیں، دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں بھی ایسے بااختیار ادارے ہیں، جن پر عوام کو اعتماد اور مان ہوتا ہے… وجہ آر ٹی ایس سسٹم ہو یا پولنگ اسٹاف کی ناقص تربیت، الیکشن کے نتائج پر انگلیاں اٹھ ہی گئیں ناں، اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کو قبول کرنا ہوگی؟؟ سیلانی یہ سوچتے ہوئے ٹیلی ویژن پر الیکشن کمشنر پر برستے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو دیکھنے لگا اور ٹھوڑی کھجاتے ہوئے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

Comments (0)
Add Comment