انتخابی نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

چاچا خیر دین نے لرزتے ہاتھوں سے اپنا شناختی کارڈ انتخابی ذمہ دار کو تھمایا، جس نے کارڈ سے ضروری معلومات کی تصدیق و اندراجات کے بعد بیلٹ پیپر اور مہر خیر دین کو تھمائے اور اشارے سے بتایا کہ پردہ لگے روسٹرم پر جا کر اپنے پسندیدہ امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگائے۔ خیر دین نے ہدایت کے مطابق ایسا ہی کیا۔ بیلٹ پیپر کو ڈبے میں ڈال کر مہر کی واپسی اور اپنے شناختی کارڈ کے حصول کے لئے ایک بار پھر اسے انتخابی ذمہ دار کے پاس جانا پڑا، جس نے خیر دین کا شناختی کارڈ اس کے حوالے کیا۔ خیر دین للچائی ہوئی نظروں سے ایک بار پھر ووٹر لسٹ کو دیکھنے لگا۔ انتخابی افسرکو کچھ شک گزرا، اس نے کہا: بابا جی آپ نے ووٹ ڈال دیا، اب جاؤ، کیوںکھڑے ہو، رش بہت ہے، دوسروں کو آنے دو۔ خیر دین نے جھجھکتے ہوئے کہا: بیٹا کچھ پوچھنا تھا۔ ذمہ دار اپنا کام جاری رکھتے ہوئے بولا: جلدی کہو۔ خیر دین نے گمبھیر لہجے میں کہا: ذرا لسٹ دیکھ کر بتانا کیا میرا بیٹا شیر دین اپنا ووٹ ڈال گیا؟ ذمہ دار نے لسٹ چیک کی اور بولا ہاں شیر دین کچھ دیر پہلے ووٹ دے کر جا چکا۔ اوہ! خیر دین کے منہ سے ایک سرد آہ نکلی اور وہ بڑبڑایا، اس بار میں پھر لیٹ ہوگیا! تھوڑی دیر پہلے آجاتا تو ملاقات ہو جاتی۔ ذمہ دار سے رہا نہ گیا۔ بولا کیا بیٹا ساتھ نہیں رہتا تمہارے؟ خیر دین کی آنکھیں نمناک ہوگئیں اور اس نے ووٹر لسٹ کو گھورتے ہوئے کہا نہیں بیٹا، شیر دین کے انتقال کو تو برسوں گزر گئے، لیکن وہ ہر انتخاب میں ووٹ ڈالنے ضرور آتا ہے۔
قارئین کرام! مذکورہ بالا پیرایۂ اظہار کو تو ایک لطیفہ، ایک مفروضہ سمجھئے کہ اب ہمارے ہاں نئی انتخابی جدتوں نے ایسے چور دروازوں سے جھرلو ووٹنگ کا باب بند کرنے کی ٹھان لی ہے، مگر بعض سیانے اب بھی اپنا کھیل کھیلنے سے باز نہیں آتے۔ پچیس جولائی کو ایسا ہی واقعہ جہلم کے ایک انتخابی پولنگ بوتھ سے رپورٹ ہوا، جہاں اسرار منیر نامی ایک ایسے شخص کا ووٹ کاسٹ ہوا، جس نے ایک روز قبل چوبیس جولائی کو ہی اس دار فانی سے کوچ کیا، اغلب ہے کہ اور بھی کچھ جگہوں پر ایسے واقعات ہوئے ہوں، جن کا بھانڈا نہ پھوٹ سکا ہو، جو رپورٹ نہ ہوئے ہوں یا نظر انداز کردیئے گئے ہوں۔ انتخابات کو صاف شفاف بنانے کے لئے اگرچہ ایسے معاملات کا توڑ تو کیا جا رہا ہے، مگر جدتوں کے ساتھ جدید مسائل بھی شفافیت پر عدم اعتماد کا سبب بن رہے ہیں اور اس بار تو معاملہ ہی کچھ اور ہو گیا، انتخابات پولنگ بوتھ تک تو صاف شفاف رہے، لیکن صد افسوس کہ دھاندلی کا داغ الیکشن کمیشن پر لگ گیا۔ نتائج کی تاخیر نے الیکشن کمیشن کی ساری مساعی پر پانی پھیر دیا، سیاست دان ابھی تک ہتھے سے اکھڑے ہوئے ہیں، احتجاج کا نیا در کھل گیا ہے، اس بار کا احتجاج بھی نئی طرز کا ہے کہ احتجاج صرف وہ نہیں کر رہے، جو شکشت سے ہمکنار ہوئے، بلکہ زیادہ تعداد ان کی ہے جو الیکشن جیت چکے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو پارٹیوں میں دوسرے درجے کی قیادت سے تعلق رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس بار نامور پارٹی قیادتیں اپنی سیاسی دستار نہ سنبھال سکیں اور ان کا دھڑن تختہ ہوگیا، سو انہوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور تمام ذمہ داروں سے مستعفی ہونے اور نئے کمیشن کے تحت دوبارہ انتخابات کرانے پر زور دے رہے ہیں۔الیکشن کمیشن نے ہارنے اور احتجاج کرنے والوں کے الزامات مسترد کردیئے ہیں۔
دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ انتخابات کا دوبارہ انعقاد بچوںکا کھیل نہیں، یہ لگ بھگ بائیس ارب کی کہانی ہے، کیا ملکی معیشت اس عمل کی فوری متحمل ہو سکتی ہے؟ مطالبہ کرنے والوں کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ پنڈی این اے ساٹھ میں حنیف عباسی کی نااہلی کے سبب اس حلقے میں الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کر دیئے تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ الیکشن کمیشن نواز لیگ کے لئے سہولیات فراہم کر رہا ہے؟ الیکشن کمیشن ذرائع کا اس حوالے سے مؤقف تھا کہ وہ الیکشن کی تیاریوں کے سبب متعلقہ حلقے کے لئے نئے بیلیٹ پیپرز کی فی الفور چھپائی سے قاصر ہیں۔ اگرچہ شیخ رشید اپنا کیس لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک گئے، مگر کورٹس نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی تائید کی، شیخ رشید کی حلقے میں انتخابی تیاریوں اور ان کی عوام میں مقبولیت کے حوالے سے چیف جسٹس ثاقب نثار نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ شیخ رشید ایک اور حلقے سے بھی انتخاب لڑ رہے ہیں، لہٰذا ان کی مقبولیت کا وہاں سے بھی اندازہ ہو جائے گا اور شیخ رشید اس حلقے سے جیت بھی گئے۔ اب اگر وہ حکومت میں کوئی وزارت حاصل کر لیتے ہیں، جس کا امکان زیادہ ہے تو ان کا این اے ساٹھ سے انتخاب میں حصہ لینا مشکل ہوگا اور عین ممکن ہے کہ وہ اس سیٹ سے کسی اور کو نامزد کردیں، ایسا کرنے سے شیخ رشید کا اپنے علاقے کے ووٹرز سے تعلق بھی متاثر ہونے کا امکان ہے۔ نواز لیگ کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح حنیف عباسی کو ریلیف دلاکر میدان میں اتارے، مگر اب ایسا ممکن نہیں لگتا کہ ایفی ڈرین کیس نے حنیف عباسی کا سیاسی کیریئر منشیات میں لتھیڑ ڈالا ہے۔
الیکشن کمیشن کے بیشتر مثبت احکامات کے سبب اس بارانتخابی مہم تشدد اور سیاسی جماعتوں کی آپس کی چپقلش اور مار دھاڑ سے بھی بڑی حد تک محفوظ رہی، ورنہ تو سابقہ ادوار میں محض جھنڈے اور بینرز لگانے پر قتل وغارت کے بازار گرم ہو جایا کرتے تھے، انتخابی امیدواروں کا اغواء بھی عام سی بات تھی، اس بار چند خود کش حملوں کے ذریعے الیکشن سبوتاژ کرنے کی کوشش کرنے والے بھی کامیاب نہ ہو سکے، جو خوف و ہراس پھیلا کر اپنے اور اپنے آقاؤں کا مشن پورا کرنے پر کاربند تھے۔ کئی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کی شہادت بھی ہوئی، سیکڑوں زخمی اب بھی زیر علاج ہیں، مگر ان جماعتوں کی قیادتوں نے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی میدان میں ڈٹے رہنے کا عزم کیا، جس سے انتشار پھیلانے والی قوتوں کے حوصلے پست ہوئے۔
اس بار انتخابات میں عوام کی شرکت کا جوش دیدنی تھا، انتخابی عمل آٹھ بجے شروع ہونا تھا، مگر لوگ صبح سات بجے ہی اس وقت پولنگ بوتھس پر موجود تھے، جب کہ ابھی پولنگ کا عملہ بھی وہاں موجود نہ تھا۔ اگرچہ اس بار کچھ سیاسی جماعتوں نے گھر گھر ووٹرز سے رابطے بھی نہ کئے، جس سے عوام کو پولنگ اسٹیشنوں کی درست معلومات عوام نے اپنے حلقوں اور پولنگ یا پھر انہیں ایسا کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ متحدہ کے کئی حصوں میں بٹ جانے کے سبب بھی یہ صورت حال پیش آئی کہ الطاف سے تعلق رکھنے والے، عوام کو الیکشن سے لاتعلق رکھنے کی پوری کوشش کرتے رہے اور انہوں نے ووٹرز کارڈ ان کے گھروں تک نہ پہنچنے دیئے، ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی اور مہاجر قومی موومنٹ نے الگ الگ انتخابی مہم میں شرکت کرکے مہاجر ووٹ کو بے دردی سے تقسیم کیا۔ پیپلز پارٹی کو سندھ میں کامیابی کے باوجود لیاری سے ایک بڑا دھچکہ یہ لگا کہ اس حلقے سے بلاول کو اپنے پہلے ہی انتخاب میں شکست کا مزہ چکھنا پڑا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو دیر میں اپنے آبائی حلقے کے ووٹرز نے مسترد کیا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی اپنے دونوں حلقوں کے عوام کے عتاب کا نشانہ بنے، ان کے دست راست اکرم درانی، حافظ حسین احمد اور مولانا عبد الغفور حیدری بھی اپنی اپنی نشستیں گنوا بیٹھے۔ اسفند یار ولی، آفتاب شیر پاؤ، امیر مقام اور بہت سے دوسرے بڑے سیاست دانوں کو شکست فاش ہوئی۔ اگر یہ لوگ بھی کسی ادارے یا الیکشن کمیشن پرالزامات لگاتے ہیں تو یہ بات حافظ جی کی سمجھ سے بالا ہے کہ کسی ادارے یا الیکشن کمیشن کو ان سے کیا مخاصمت تھی؟
اداروں پر الزام تراشی کرنے والوں سے معذرت کے ساتھ اس بار حافظ جی نے الیکشن میں عوام کا سیاسی مورال حد درجہ بلند دیکھا اور وہ سیاست دانوں سے اپنے ووٹ کا حساب مانگنے پر بھی قادر نظر آئے۔ انہوں نے مختلف حلقوں میں اپنے امیدواروں کو یاد دلا دیا کہ ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ رہی بات تحریک انصاف کی کامیابی تو تمام تر اختلافات اور تحفظات کے باوجود اظہر من الشمس ہے۔ عوام حکمرانی کے لئے ایک نئی جماعت اور نئی قیادت کو آزمانا چاہتے ہیں، سو انہوں نے تحریک انصاف کو سامنے پایا، اس لئے کہ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چوائس ہی نہیں تھی، یوں بھی بروں میں سے کم برے کے انتخاب پر امت کا اجماع ہے۔ جن رہنماؤں کو دھاندلی کا شکوا ہے، ان کے حلقوں کی ری کاؤنٹنگ کا عمران خان نے عندیہ دیا ہے، ان رہنماؤں کو متعلقہ ریٹرننگ آفیسرز سے رابطہ کرنا چاہئے۔
گستاخی معاف! الیکشن کے بعد حکومت سازی کا جو پراسس شروع ہونے جارہا ہے، اسے چلنے دیا جائے، جنہیں تحفظات ہیں، وہ اپنے تحفظات سے متعلقہ فورمز کو آگاہ کریں۔ جو کام کل تک غلط تھے، انہیں آج اپنے لئے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کسی کی پسند نا پسند پر حکومتوں کا قیام عمل میں نہیں آسکتا، جس کے پاس اکثریت ہے وہ ثابت کرے اور حکومت بنائے، جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل نہ کریں، اگر ایک بار پھر جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر گئی تو بہت سے معترض سیاست دانوں کو ان کی زندگی میں دوبارہ جمہوریت کا سورج طلوع ہوتا شاید نظر آئے۔ (وما توفیقی الاباللہ)

Comments (0)
Add Comment