ایک متوازن تقریر

اگرچہ ابھی الیکشن کے حتمی اور سرکاری نتائج نہیں آئے ہیں، ذرائع کے مطابق اس تاخیر کی وجہ کچھ تکنیکی معاملات ہیں۔ عوام کو بے چینی کے ساتھ سرکاری نتائج کا انتظار ہے، لیکن یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ عوام نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے۔ گو کہ مختلف جماعتوں نے ان انتخابی نتائج کو یکسر مسترد کر کے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ مگر اس پر عملدرآمد کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے۔
اس مضمون کا مقصد عمران خان کی میڈیا پر کی جانے والی تقریر اور اس کے مندرجات پر حق بات کا اظہار ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ راقم دین کا ایک ادنیٰ طالب علم ہے اور میں نے اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے کہ کسی شخص سے اگر تم کو نظریاتی اختلاف ہو تو اس پر تنقید بھی حقائق کی بنیاد پر کرو اور جو برائیاں اس میں نہ ہوں، ان کا ذکر نہ کرو، کیونکہ یہ بہتان کے زمرے میں آتا ہے اور اگر اسی شخص میں کچھ اچھی باتیں نظر آئیں تو ان کا اقرار بھی کسی مبالغے کے بغیر کرو۔ اسلام کا یہی وہ زریں اصول ہے، جس کی وجہ سے مخالفت کبھی بھی عداوت نہیں بنتی۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اچھی باتیں کرنا تو آسان ہے۔ مگر انہیں عملی جامہ پہنانا اصل کمال ہے اور عمل کے بغیر کسی اچھی بات کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔
میرے اس مضمون کا عنوان عمران خان کی وہ تقریر ہے، جو انہوں نے ذاتی طور پر میڈیا کے سامنے کی ہے اور اس تقریر میں انہوں نے اپنی اس کامیابی پر پہلے تو حق تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے اور پھر عوام کا شکریہ ادا کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جن عزائم کا ذکر کیا ہے، وہ ذیل میں دیئے جا رہے ہیں۔
-1 اس تقریر میں عوام نے انہیں بڑی حیرت سے دیکھا کہ وہ عمران جو دھرنوں اور بھنگڑوں کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں ایک خاص تاثر پیدا کر چکے تھے، اچانک انہوں نے آج اس عمران خان کو دیکھا اور سنا جس کے چہرے پر غصے کی لکیروں کے بجائے متانت اور سنجیدگی کے نقوش نظر آئے۔
-2 وہ قومی لباس یعنی قمیض اور شلوار میں ملبوس تھے۔ یہ مغربی اور غیر مسلم قوتوں کے لیے ایک خاموش پیغام ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور دوسروں کی نقالی نہیں کرتے، جب کہ تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ جیتنے والے سربراہان مغرب کو خوش کرنے کے لیے کوٹ، پینٹ اور ٹائی پہن کر میڈیا پر آتے رہے ہیں۔ ایک جرنیل تو اپنی پہلی تقریر میں ایک کتے کر بڑے اہتمام سے گود میں لے کر کیمروں کے سامنے بیٹھے تھے کہ دیکھ لو! ہم روایتی مسلمان نہیں ہیں، تمہارے برخوردار رہیں گے۔ چنانچہ انہوں نے امریکہ کے ہاتھوں پاکستان کی غیرت کو ہی گروی رکھ دیا۔
-3 عمران خان نے یہ تقریر قومی زبان اردو میں کی۔ اس تقریر کو غیر ملکی میڈیا نے براہ راست (Live) نشر کیا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے، یہ ایک دھماکہ خیز پیغام ہے، جو ساری دنیا تک پہنچا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ کسی جیتنے والے پاکستانی رہنما نے اپنی پہلی تقریر قومی زبان میں کی ہو، اپنی قومی زبان اور اپنے قومی شعار کی دنیا سے عزت کرانے کا یہ مؤثر ترین طریقہ ہے۔
راقم جب پاکستان بننے کے بعد ہندوستان گیا، دہلی میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دکانوں کے بورڈ، اسٹیشن پر کھڑکیوں کی پیشانیاں، راستوں پر ہدایات کی تختیاں سب ہندی زبان میں لکھی ہوئی ہیں، جبکہ ہندی زبان اور اس کا رسم الخط دنیا کی بڑی زبانوں میں سے نہیں ہے، مگر بھارت نے اس راز کو سمجھا تھا کہ اپنی قومی زبان اور قومی لباس کی دنیا سے عزت کرانی ہے، یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک سے معاملات کرنے میں بھارت نے کبھی غلامانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی برسوں میں ہندی زبان مسلمانوں کی بھی زبان بن گئی۔
-4 وہی عمران جو اپنے دھرنوں میں اور بھرے جلسوں میں اپنے مخالفین کا نام لے لے کر للکارتا تھا۔ اوئے فلاں، اوئے بزدل، کہہ کر للکارتا تھا کہ میں تمہارا یہ کردوں گا، وہ کردوں گا۔ وہی عمران آج پوری دنیا کے سامنے بیٹھ کر یہ اعلان کرتا ہے کہ میں اپنے کسی مخالف سے کوئی ذاتی انتقام نہیں لوں گا۔ کیا یہ وہی عمران ہے، جو نواز شریف کو اپنے جلسوں میں للکارتا رہتا تھا؟
یقینا یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، یہ تقریر اگر انتخابات سے پہلے کی ہوتی تو اسے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک سیاسی دعویٰ سمجھا جاتا اور اس کی کوئی پروا نہ کرتا، مگر جیتنے کے بعد یہ اعلان ایک حوصلے اور شجاعت والے انسان کا بیان سمجھا جاتا ہے، یقینا ہر طبقے کے لوگ اس کشادہ دلی کو سراہیں گے، اس سے عمران کی قوت میں اور اضافہ ہو گا اور سیاسی رہنمائوں اور معاشرے کے انصاف پسند لوگوں کو ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنا ہی شرافت کا تقاضہ ہے۔
-5 بعض مخالفین نے انتخابات میں دھاندلی کا اعتراض کیا ہے۔ عمران خان نے ان کے اس بیان کو ایک سیاسی روایتی بیان کہہ کر ان کا مضحکہ نہیں اڑایا ہے۔ اس نے سنجیدگی کے ساتھ ان کو دعوت دی ہے کہ جن حلقوں میں انہیں دھاندلی کا شبہ ہو، وہ مجھے بتائیں، میں خود ان کے ساتھ مل کر ان حلقوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کروں گا، جبکہ ہماری انتخابی تاریخ یہ ہے کہ لوگ اپنی ہار ماننے کے بجائے ایسے اعتراضات کو قہقہوں میں اڑاتے رہے ہیں۔ عمران خان کا یہ بیان بھی وسیع القلبی کا مظہر ہے۔ ’’امت‘‘ میں 27 جولائی کی اشاعت میں ایک امیدوار جو عمران خان کے مقابلے میں نسبتاً کم ووٹوں سے ہارے ہیں، ان کا بیان ہے کہ اتنے کم ووٹوں سے جیتنا عمران خان کے لیے شرمناک ہے۔ کیا یہ کم حوصلگی اور تنگ دلی کا اظہار نہیں ہے کہ اپنی ہار کو کشادہ دلی کے ساتھ ماننے کے بجائے، مخالف کی جیت کو بھی شرمناک قرار دے رہے ہیں۔
-6 عمران خان نے انتخاب کے بعد یہ تقریر اپنی رہائش گاہ پر ہی کی ہے اور انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر مجھے وزیر اعظم کا منصب ملا تو میری رہائش میرے گھر میں ہوگی اور میں وزیر اعظم ہائوس اور چاروں گورنر ہائوسز کو تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ کیونکہ تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ (ہمارا ملک تعلیم میں بہت زیادہ پیچھے ہے) وزیراعظم ہائوس اور گورنر ہائوس وغیرہ پر شاہی محلات کی طرح لاکھوں روپے ماہانہ خرچ ہوتا ہے۔
خارجہ پالیسی
عمران خان نے اپنی تقریر میں خارجہ پالیسی کے بعض اہم نکات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دنیا سے اور خصوصاً پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر ہندوستان، افغانستان، ایران کے ساتھ تعلقات کا ذکر کیا۔ ہندوستان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی انہوں نے ہندوستان پر یہ واضح کر دیا کہ وہ ہمیں بزدل سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔
مسئلہ کشمیر
انہوںنے اپنی تقریر میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے پر خاص طور پر زور دیا اور کہا کہ دنیا کا ہر مسئلہ میز پر بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے۔ وہ آئیں! اور ہمارے ساتھ مذاکرات کر کے اس مسئلے کو حل کریں۔ الزامات، بہتان اور تکبرانہ غلط بیانیوں سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ کشمیر کے بارے میں بھارت نے عالمی فیصلوں پر کبھی عمل نہیں کیا۔
تقریر کا دینی پہلو
مذکورہ نکات کا تعلق اس تقریر کے قومی معاملات سے تھے۔ عمران خان نے اپنی اس تقریر کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کیا اور اللہ تعالیٰ اور عوام کا شکریہ ادا کر کے اس نے کہا کہ مدینہ منورہ میں سب قوموں کو ان کے حقوق دیئے گئے اور جس طرح سادہ معاشرت کی بنیاد رکھی گئی تھی، اسی طرح ہمیں چاہئے کہ ہم سادہ زندگی اختیار کریں۔ ہمارے دین نے ہمیں سادگی کی تعلیم دی ہے اور اسی میں ہماری ملکی اور قومی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ (بہت امیر اور بہت غریب کا طبقاتی فرق ختم ہونا چاہئے)
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ شہروں اور سڑکوں کی صفائی ستھرائی میں وہ ہمارا ساتھ دیں۔ سڑکوں پر تھوکنے سے دیواروں پر چاکنگ کرنے سے گندگی کا احساس ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں سے پرہیز کریں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کرپشن کے خاتمے، حکمرانوں کی عیاشی، قانون کی بالادستی پر، صحت اور صاف پانی کے حصول پر بھی گفتگو کی۔
عمران خان کی تقریر کے تقریباً سب بڑے بڑے عنوانات کا ذکر یہاں آگیا ہے۔ راقم نے اس تقریر کے مندرجات اپنی زبان میں پیش کئے ہیں۔ بعض اقتباسات انٹرنیٹ سے بھی لئے ہیں۔ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ احقر کی طرف سے کسی طرح بھی جانب داری کا تاثر قائم نہ ہو۔ میں خود پچھلے مضمونوں میں عمران خان کے غیر دینی نظریات کے خلاف لکھتا رہا ہوں۔ اسی لیے اگر ان نکات میں کہیں کوئی زیادتی یا کمی ہوئی ہو، تو اس کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں۔
راقم کی اپیل
میں تمام پاکستانی بھائیوں اور بہنوں سے اور خاص طور پر قلم کاروں اور علمائے دین سے اپیل کرتا ہوں کہ اب جو نتیجہ انتخابات کا سامنے آگیا ہے، اسے تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیں اور تنقید و تنقیص چھوڑ کر یہ دعا کریں کہ خدایا! تو قادر مطلق ہے تو چاہے تو موجودہ قیادت سے اسلام اور پاکستان کی ترقی کا کام لے لے اور اب ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی غلطیوں کو جان کر ان کی اصلاح کر لیں۔
وما توفیقی الا باللہ

Comments (0)
Add Comment