تمام تر اعتراضات اور دھاندلی کی زبردست شکایات کے تناظر میں الیکشن کمیشن نے ملک بھر سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے جیتنے والی جماعتوں کے سو فیصد نتائج کا اعلان کر دیا ہے، قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف نے ایک سو پندرہ، مسلم لیگ نے چونسٹھ، پیپلز پارٹی نے تینتالیس، متحدہ مجلس عمل نے بارہ، ایم کیو ایم نے چھ اور مسلم لیگ (ق) نے چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ قومی اسمبلی کی تیرہ نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹ لے کر ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ کم و بیش ایک کروڑ انتیس لاکھ ووٹوں کے ساتھ مسلم لیگ دوسرے نمبر پر اور پیپلز پارٹی اڑسٹھ لاکھ چورانوے ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر پہنچ گئی۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی پاکستان تحریک انصاف کو سب سے زیادہ ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی پہلے نمبر پر رہیں۔ انتخابات کو چار روز گزرنے اور غیر حتمی نتائج کے ساتھ ہی پارٹی پوزیشن کا اندازہ ہو جانے کے باوجود اب تک جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ ووٹوں کی ازسر نو گنتی، الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے اور حلف اٹھانے نہ اٹھانے کے علاوہ حکومت سازی کے معاملے پر بھی مشاورت ہو رہی ہے۔ وزیراعظم بننے کے لئے عمران خان کا نمبر گیم ہنوز کامیابی حاصل نہیں کر سکا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جوڑ توڑ کے شہنشاہ آصف علی زرداری نے اپنا روایتی کھیل شروع کرتے ہوئے خود وزیر اعظم بننے کی کوششیں شروع کردی ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی کے حلقے اس کی تردید کر رہے ہیں۔ ایسی کسی بھی کوشش کا انجام سب کو معلوم ہے کہ ناکامی کے سوا کچھ نہ نکلے گا۔ ایک سو پندرہ نشستوں کے باوجود تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے تو آصف علی زرداری دو بڑی جماعتوں کی ایک سو سات نشستوں کے ساتھ کیونکر کامیاب ہو سکتے ہیں، جبکہ یہ دونوں جماعتوں ایک دوسرے کی مخالفت میں بہت آگے جاچکی ہیں۔ بالفرض وہ یہ اتحاد قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے تو یہ نظریاتی اور معروضی حقائق کے منافی ہونے کی وجہ سے غیر فطری گٹھ جوڑ ہوگا، جس کا مقصد مال و مناصب کی حرص و ہوس کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ پاکستان میں جمہوریت جیسی بھی ہو، مروجہ جمہوری روایات کا تقاضا یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت سے وزیر اعظم منتخب کیا جائے۔ عمران خان کی جماعت سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کے باوجود سادہ اکثریت بھی ظاہر نہیں کر سکی ہے۔ جہانگیر ترین بیرون ملک سے واپس آکر آزاد ارکان اسمبلی اور چھوٹی جماعتوں کے لوگوں کی خرید و فروخت میں لگے ہوئے ہیں، جس کی بنا پر توقع کی جا رہی ہے کہ اس بار تو عمران خان کے وزیراعظم بننے کا خواب شاید پورا ہو جائے اور جہانگیر ترین کو بھی اپنی اس سرمایہ کاری کا بہترین پھل ملنے لگے، جو وہ ایک مدت سے عمران خان اور تحریک انصاف پر کررہے ہیں۔
مسلم لیگی رہنما اور سابقہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کہتے ہیں کہ ہم نے الیکشن کمیشن کو اوقات سے زیادہ اختیارات دے کر غلطی کی۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ اس طرح کے انتخابات کرائیں گے۔ شریف خاندان اور مسلم لیگ کو اس بات کا بھی رنج و غم ہے کہ انہوں نے آمر کے قائم کردہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو ختم نہیں کیا۔ علاوہ ازیں فوج اور عدلیہ کے اختیارات کم کئے، نہ ایف آئی اے اور سی بی آر جیسے قومی اداروں کے پر کاٹے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شریف اور زرداری خاندان صدق دل کے ساتھ خدا و خلق سے معافی مانگیں اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس کر دیں۔ سیاستدان حکمرانی کے زعم میں جو غلطیاں کرتے، جن اداروں کے ساتھ کھیلتے اور ان کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں، پھر انہی اداروں کی گرفت میں آتے ہیں تو یہ دنیاوی قوانین سے زیادہ قانون قدرت کی پکڑ ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو اور نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ دراصل احکم الحاکمین کے فیصلے تھے کہ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچایا اور جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی فوج کو تقسیم کرنے کی سازش ناکام بنا کر انہیں اپنی اوقات یاد دلائی۔ الیکشن کمیشن کو زیادہ اختیارات مسلم لیگ نے نہیں دیئے، بلکہ ذات باری تعالیٰ نے لیگی رہنماؤں کے تکبر کو خاک میں ملانے کا ان ہی کے ذریعے پیشگی اہتمام کیا تھا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ شریف خاندان اور مسلم لیگ کو اپنے ہی گڑھ پنجاب میں صوبائی حکومت بنانے کے لالے پڑ گئے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات شفاف و منصفانہ ہوئے یا اس کے بالکل برعکس شدید دھاندلی والے، لیکن یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ پاکستان میں عام انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جس کا جہاں زور چلتا ہے، اپنا ہاتھ دکھا جاتا ہے، اس کے باوجود برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتیں حزب اختلاف کی جماعتوں سے مل کر حقیقی جمہوریت لانے اور انتخابی قوانین کو ملک و قوم کے مفادات پیش نظر رکھ کر بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کرتیں، کیونکہ مروجہ قوانین کے تحت ہی ان سب کو عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے پورے مواقع ملتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے جمہوری نظام اور انتخابی عمل کی بدترین ناکامی نہیں کہ چند افراد پر مشتمل سیاسی و مذہبی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کراکے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے میدان میں آجاتی ہیں۔ حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والی اکیس جماعتوں نے سو سے بھی کم ووٹ حاصل کئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی تعداد ساڑھے تین سو سے زیادہ ہے، جو جمہوریت، ملک، آئین وقانون اور عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ ان میں سے جن سیاسی و مذہبی جماعتوں نے حالیہ انتخابات میں حصہ لیا اور سو سے کم ووٹ حاصل کئے، ان کے ساتھ دوسری ان جماعتوں کو بھی شرم سے ڈوب مرنا چاہئے، جنہوں نے عام انتخابات میں حصہ لینے کی ہمت ہی نہیں کی۔
حاصل شدہ ووٹوں کی کم سے کم تعداد مقرر کرکے سیاسی و مذہبی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے تو صرف چند جماعتیں میدان میں رہ جائیں گی۔ اگلے انتخابات میں ان کی بھی چھانٹی ہو سکتی ہے۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ پانچ چھ جماعتوں کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت حاصل ہونی چاہئے، اس کے بعد ہی عوام کی اکثریت سے ان کے حقیقی نمائندے ایوانوں میں پہنچیں گے۔ جب تک یہ اہتمام نہ ہو، عام انتخابات فراڈ اور غیر نمائندہ افراد کو منتخب کرنے کا ذریعہ بنے رہیں گے۔ تحریک انصاف نے دس کروڑ سے زائد رائے دہندگان میں سے ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ووٹ حاصل کئے، جبکہ آٹھ کروڑ بتیس لاکھ سے زیادہ شہریوں نے اسے ووٹ نہیں دیئے۔ اسے ملنے والے ووٹوں کا تناسب سولہ اعشاریہ آٹھ فیصد بنتا ہے۔ اس کے باوجود اسے ملک پر حکمرانی کا حق حاصل ہوگیا ہے تو یہ کہاں کی جمہوریت ہے؟