لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
انسان کو کرئہ ارض پر رہتے نامعلوم عرصہ گزر گیا ہے۔ بڑی چیزوں میں ارتقا ہوا۔ مگر فطرت انسانی میں ارتقا نہیں ہو سکا۔ وہی کمینگی، خود غرضی، چالاکی و سفاکی اس کی فطرت کا حصہ ہیں، لیکن ان سب سے بڑھ کر منافقت ہے۔ ایک طرف مہذب ہونے کا دعویٰ ہے۔ دوسری طرف لوٹ مار اور خونخواری سے باز نہیں آتا۔ بھارت اور اسرائیل کمزوروں اور مظلوموں کے گلے کاٹ رہے ہیں، مگر امریکہ سب سے آگے بڑھ گیا ہے۔ کرئہ ارض کا ایک نہ ایک ملک ہمیشہ امریکی قہر کا نشانہ بنا رہتا ہے۔ 1951ء میں امریکہ نے کمیونزم کی یلغار روکنے کے لئے کوریا پر حملہ کر دیا۔ لاکھوں کوریائی باشندے مارے گئے اور کوریا دو حصوں میں بٹ گیا… 1956ء میں ویت نام پر حملہ کردیا… بموں کی بارش برسا دی۔ جنگلات جلا دیئے۔ لاکھوں ویت نامی بموں کی بارش میں رزق خاک ہوگئے۔ پھر لاطینی امریکہ کے معاملات میں کھل کر مداخلت کی۔ پھر عراق کو خال کا ڈھیر بنا دیا۔ اس کے بعد افغانستان کی باری آئی۔ جو زلزلہ افغانستان میں آیا… اس کے جھٹکے پاکستان میں بھی محسوس کئے گئے۔ طاقت کا وحشیانہ استعمال ہو تو دلیل اور منطق کا خون ہو جاتا ہے۔ بھیڑ اور بھیڑیئے کی کہانی بار بار دہرائی جاتی ہے۔ دنیا کے کسی ملک کی مجال نہیں کہ وہ امریکی عتاب سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔
اب امریکہ کی نظر ’’عنایت‘‘ ایران پر پڑی ہے۔ اگر ایران میں آگ لگائی تو تپش اسلام آباد تک محسوس کی جائے گی۔ ایران کی پالیسی امریکہ کو گستاخی لگتی ہے۔ امریکہ کو بہانے بنانے میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ ایران کی سب سے بڑی گستاخی ایٹم بم بنانے کی پالیسی ہے۔ ایران کے ایٹم بم سے سب سے زیادہ خطرہ امریکہ کو نہیں اسرائیل کو ہے۔ سعودی عرب ایرانی ایٹم بم کا مخالف ہے۔ سیکورٹی کونسل کا بنایا ہوا ایک معاہدہ تھا Nuclear Agreement۔ امریکہ اس سے باہر آیا ہے۔
امریکہ کے ایک سیکورٹی عہدے دار جارج پامپئو ہیں، انہوں نے ایران پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔ ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے نیوکلیئر پروگرام کو ختم کر دے اور دوسرے ممالک میں فوجی معاملات میں مداخلات بند کرے، مثلاً شام، یمن اور لبنان میں اور جو ممالک ایران سے تیل خریدتے ہیں، امریکہ نے انہیں بھی ڈرانا دھمکانا شروع کردیا ہے۔ انڈیا پر بھی دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ ایران سے تیل نہ خریدے، اگر ایران کی تیل کی فروخت بند ہو جائے تو ایران میں اقتصادی حالات بہت خراب ہوسکتے ہیں۔ یہ تو ایران کا گلہ گھوٹنے والی بات ہے۔ جس سے ایرانی عوام میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ دنیا کی اکثر بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں نے بھی ایران کے ساتھ تجارت بند کرنے کا عندیہ دیا ہے، لیکن روس، چین، اور یورپ کے اکثر ممالک امریکہ دباؤ میں نہیں آئے ہیں۔
امریکہ کا خیال ہے کہ ایران جو دولت اپنا تیل بیچ کر کما رہا ہے، اسے یمن، شام اور لبنان میں جنگی کارروائیوں کو جاری رکھنے میں استعمال کر رہا ہے۔ اگر ایران کی تجارت پر پابندی لگا دی جائے تو ایران لڑے بغیر گھٹنے ٹیک دے گا، لیکن ایران کے پاس بھی کچھ پتے ہاتھ میں ہیں۔ ایران اپنا رکا ہوا ایٹمی پروگرام دوبارہ چالو کردے گا۔ روس اور چین سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کرے گا، یمن کے حوثی اور افغانستان کے مزاحمت کاروں کی امداد بڑھا دے گا۔ امریکہ طالبان کے ساتھ صلح کرنے پر مائل ہو سکتا ہے یا ایران کے جوہری کارخانوں کو تباہ و برباد کرنے کے اقدامات کر سکتا ہے۔ اس میں اسرائیل کی خواہش اور مدد شامل ہوگی۔ اس کھینچا تانی میں پاکستان اور بھارت دونوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ بھارت ایران کے ساتھ تعلقات بڑھا کر پاکستان کے لئے مشکلات بڑھانا چاہتا ہے۔ جبکہ امریکہ بھارت پر پریشر ڈال رہا ہے کہ وہ ایران سے لا تعلق ہو جائے، ایران پر جس قسم کی تباہی آئے، پاکستان پر اس کا اثر ضرور پڑے گا۔ بھارت اور افغانستان سے ہمارے تعلقات پہلے ہی خراب ہیں۔ اگر ایران سے بھی خراب ہو جائیں تو ہم بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے۔
٭٭٭٭٭