ناراض نسل

پیپلز پارٹی کی جیت کو سندھ کی شکست سمجھنے والے دانشور اب تک ناراض ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ماتم برپا ہے۔ اس ماتم میں صرف غم نہیں، ایک غصہ بھی ہے۔ وہ ساری تنقید جو پہلے پیپلز پارٹی پر کی جاتی تھی، اب اس تنقید کا رخ سندھی عوام کی طرف مڑ گیا ہے۔ سندھ کے لوگوں پر یہ تنقید صرف ان وڈیروں کی طرف سے نہیں ہو رہی، جو ’’جی ڈی اے‘‘ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں ہار گئے۔ سندھ کے عوام پر تنقید کے تیر برسانے والے ہاتھ سندھی دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کے ہیں۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ سندھ کے باشعور افراد نے پیپلز پارٹی پر کب تنقید نہیں کی؟ جب مرحوم رسول بخش پلیجو ٹھٹھہ سے انتخاب لڑ رہے تھے، اس وقت انہوں نے پیپلز پارٹی کو سخت ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔ جب وہ انتخابات میں ہار گئے، تب وہ خاموش نہیں بیٹھے، بلکہ اپنے اعلان کے مطابق انہوں نے سندھی میڈیا میں پیپلز پارٹی کے خلاف قسط وار مضامین لکھے اور ان مضامین میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ سندھ کے عوام پر بھی تنقید کی گئی تھی، جو سماج کے مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے والے سنجیدہ افراد کی بات نہیں سنتے۔ جب سندھ کے لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، اس وقت بھی چند آوازیں اٹھی تھیں اور ان کا مؤقف تھا کہ ’’عوام کی اجتماعی ذہانت پر اعتبار کیا جانا چاہئے‘‘ مگر ایسے خیالات پر بھی خطرناک تنقید ہوئی اور سندھ کے سب سے بڑے نظریاتی اور ذہین ترقی پسند حلقے کے سربراہ نے یہ تک لکھا تھا کہ ’’سندھی لوگوں کے دماغوں میں چرس بھری ہوئی ہے۔ وہ حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔‘‘ سندھ کے لوگوں پر تنقید صرف رسول بخش پلیجو نے نہیں کی، بلکہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کی وجہ سے جدید قوم پرستی کے بانی مرحوم جی ایم سید بھی سندھ کے لوگوں پر ناراض رہا کرتے تھے۔ جی ایم سید نے تو ایم آر ڈی نامی جمہوریت کی اس تحریک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جو جنرل ضیاء کے خلاف پاکستان کی سب سے پاپولر تحریک تھی۔ جب مشاہد حسین صحافی تھے، ایم آر ڈی کے بعد وہ سندھ کو سمجھنے کے لیے نکلے تھے اور انہوں نے جن سندھی شخصیات سے ملاقاتیں کیں، ان میں جی ایم سید بھی شامل تھے۔ جب مشاہد حسین نے جی ایم سید سے پوچھا کہ آپ تحریک بحالیٔ جمہوریت کے مخالف کیوں ہیں؟ تب جی ایم سید نے جواب دیا تھا کہ ’’یہ کفن چوروں کی تحریک ہے۔‘‘ مذکورہ تحریک پر تنقید کی وجہ سے جی ایم سید کی پارٹی ’’جئے سندھ تحریک‘‘ میں اختلافات بھی پیدا ہوئے، کچھ اہم لوگ جی ایم سید کے ساتھ نظریاتی اختلاف رکھ کر الگ بھی ہوئے اور انہوں نے اپنی پارٹیاں بھی بنائیں، مگر جی ایم سید آخری سانس تک پیپلز پارٹی کے خلاف رہے۔
وہ پیپلز پارٹی جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کر رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پاپولر لیڈر تھے، مگر سندھ کی سرزمین میں ان کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے اسیری کے دوراں یہ الفاظ لکھے تھے کہ ’’میں رانو ہوں اور سندھ مومل کی مانند میری منتظر ہے۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جب بھی کسی قوم پرست کی ملاقات ہوتی تھی، تب وہ اسے کہا کرتے تھے کہ اگر تم حقیقی سندھ دوست ہوتے تو میری مخالفت کے بجائے میری حمایت کرتے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سندھی قوم پرستوں کی مخالفت کو بھی اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کیا۔ دراصل جی ایم سید نے شیخ مجیب سے متاثر ہوکر جو سندھو دیش کی تحریک چلائی، اس کے سطحی سحر میں سندھی ادیب اور شاعر آسانی سے آگئے۔ ان ادیبوں اور شاعروں کی اکثریت کا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ جب سندھی زبان کے جرائد میں ذوالفقار علی بھٹو پر سخت تنقید کی جاتی اور اس میں ملک مخالف مواد بھی شامل ہوتا تو ان سندھی جرائد پر پیپلز پارٹی کی طرف سے پابندی عائد ہوتی، جس پر سندھ کے قوم پرست ادیب اور شاعر یہ پروپیگنڈا کرتے کہ ذوالفقار علی سندھی زبان کا مخالف ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب تک اقتدار میں تھے، تب تک سندھ کے قوم پرستوں نے ان پر مسلسل تنقید کی، مگر جب انہیں پھانسی دی گئی، تب سندھ کے قوم پرست حلقوں میں ایک احساس جرم پیدا ہوا۔ انہوں نے ذوالفقار بھٹو کے حوالے سے یہ مؤقف پیش کیا کہ بھٹو کو اس لیے پھانسی دی گئی، کیوں کہ ان کا تعلق سندھ سے تھا۔ پھانسی کے بعد قوم پرست حلقوں میں بھٹو کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا، مگر وہ پیپلز پارٹی کی بدستور مخالفت کرتے رہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سندھی قوم پرست پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی کردار ادا کرتے رہے، مگر جب بے نظیر بھٹو کا قتل ہوگیا، تب وہ بھی سندھی قوم پرستوں کے دفتر میں تنقید سے بلند علامت کے طور پر داخل ہوگئی۔ پیپلز پارٹی اور قوم پرستوں کے درمیان سندھ میں سیاسی لڑائی بہت پرانی ہے۔ اس لڑائی میں اگر کبھی پیر پگارا جیسا کردار بھی پی پی مخالف سیاست کے میدان میں نکل آتا ہے تو سندھ کے قوم پرست بہت بڑی خوش فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہوا۔ اگر جی ڈی اے محض چند وڈیروں کا اتحاد ہوتا اور اس کے سر پر پیر پگارا دست شفقت نہ رکھتے تو اس کی معرفت سندھی قوم پرست بڑے خواب نہ دیکھتے۔ حالانکہ اس بار پیپلز پارٹی کے حوالے سے سندھ کی سیاسی صورت حال بہت مختلف تھی۔ اس بار قوم پرستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت، ذوالفقار علی بھٹو جیسی کسی کرشماتی شخصیت اور بے نظیر بھٹو جیسی مقبول لیڈر کے پاس نہیں تھی۔ اس بار تو پیپلز پارٹی کی قیادت وہ آصف زرداری کر رہے تھے، جو خود بھی جانتے ہیں کہ سندھ کے لوگ ان کے لیے کس قسم کے جذبات رکھتے ہیں؟ آصف زرداری نے اپنے بیٹے بلاول کے نام سے ’’بھٹو‘‘ کا لفظ جوڑ کر اسے سیاسی میدان میں اتارا۔ بلاول زرداری بھٹو کا بیج لگا کر بھی لیاری کا ہارا ہوا قلعہ نہ جیت سکا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سندھ نے جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اس طرح گلے سے لگایا، جیسے اسے اس سے کوئی گلہ شکوا ہی نہ ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے دامن میں اس بار جو جیت پڑی ہے، اس کی امید خود ان کو بھی نہ تھی، مگر اس بار سندھ نے پیپلز پارٹی کی حمایت میں کسی جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس بار سندھ نے پیپلز پارٹی کو تیسری بار اقتدار اس طرح دیا ہے، جس طرح کوئی شخص اپنی شریک حیات کو تیسری بار طلاق دیتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی اور سندھ کے عوام کا جیون کا ساتھ رہا ہے۔ سندھ نے پیپلز پارٹی سے اس طرح محبت کی ہے، جس طرح سسی نے پنہوں سے کی تھی۔ سسی کی محبت تو سچی تھی، مگر پنہوں اپنے پیار کی سچائی خود اپنے آپ سے پوچھے۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک بات ہے اور یہ افسوس سے زیادہ ایک المیہ ہے کہ سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کی خاطر صرف آمروں کے کوڑے برداشت نہیں کیے اور مخالفوں کی آزمائشوں سے نہیں گزرے، بلکہ سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کے لیے اپنے ادیبوں اور دانشوروں کے تنقیدی تیر بھی برداشت کیے ہیں۔ سندھ کے عام لوگوں نے پیپلز پارٹی سے اس طرح پیار کیا ہے، جس طرح جاگیرداری رسم و رواج میں جکڑی ہوئی کوئی لڑکی محبت کے لیے بغاوت کرتی ہے۔ اس بغاوت میں بہت کچھ برداشت کرتی ہے۔ سندھ نے ہر بار پیپلز پارٹی کے لیے بغاوت کی ہے، مگر اس بار نہیں۔ اس بار سندھ پیپلز پارٹی کے ساتھ بغاوت کرنا چاہتی تھی، مگر سندھ کے پاس ایسا کوئی متبادل نہیں تھا، جس پر وہ اعتبار کر سکے۔ اس بار سندھ کے باشعور حلقوں کو اس بات کا یقین تھا کہ پیپلز پارٹی تاریخ کے کباڑ خانے میں جانے والی ہے۔ سندھ کے لوگوں کا بھی اس بار یہی موڈ تھا، مگر پیپلز پارٹی مخالف سیاسی جماعتوں نے سندھ کے عوام کے لیے ایسا کوئی راستہ نہیں بنایا، جس پر چل کر سندھ کے لوگ وہ منزل حاصل کر پائیں، جس کو وہ پیپلز پارٹی سے بہتر قرار دے سکیں۔ سندھ کے لوگ سیاسی طور پر اتنے سادہ نہیں کہ وہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکیں۔ پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑنا آسمان سے گرنے جیسا تھا، مگر اپنے مینڈیٹ کو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے حوالے کرنا اپنے آپ کو کھجور کے درخت میں لٹکانے کے مترادف تھا۔ سندھ کے لوگوں نے اس انتخاب میں پچھلے انتخابات سے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ اس بار سندھ کے لوگوں میں پیپلز پارٹی کے خلاف بہت غصہ تھا۔ اگر وہ اس غصے کا غیر معقول اظہار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو طلاق دے کر جی ڈی اے سے سیاسی نکاح کرتے تو سندھ کے لوگوں کے لیے یہ فیصلہ انتہائی نقصان کا باعث ہوتا۔ پیپلز پارٹی کو اس شکست سے ایک نئی لائف لائن مل جاتی۔ پیپلز پارٹی اگر ہار جاتی تو وہ اپنی مظلومیت کا پرانا ڈھول پیٹنے لگتی۔ پیپلز پارٹی ہار جاتی تو سندھ پر پیپلز پارٹی سے زیادہ سفاک وڈیرے مسلط ہو جاتے۔ سندھ کے لوگ بہت جذباتی ہیں، بہت سادہ ہیں، ان کے پاس دماغ کم اور دل زیادہ ہے، مگر امریکہ کے ماڈرن فلسفی جارج سنتیانا نے لکھا ہے کہ ’’دل کے پاس ایسے دلائل ہوتے ہیں، جو دماغ کو سمجھ میں نہیں آتے۔‘‘ سندھ کے پاس بھی ایسے دلائل ہیں، مگر سندھ وہ دلائل اپنے ناراض ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے سامنے پیش نہیں کر رہا، کیوں کہ یہ دل کے دلائل ہیں۔ یہ ایسی عقل ہے، جس کو عورت صدیوں سے استعمال کرتی آئی ہے۔ اس بار سندھ نے جس طرح پیپلز پارٹی کو کامیاب کروا کر اپنے آپ پر ہونے والی تنقید پر صبر کا مظاہرہ کیا ہے، سندھ کے اہل علم اور اہل قلم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس بار سندھ کے لوگوں نے اس پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیا، جو میاں نواز شریف کے ساتھ غیر اعلانیہ معاہدہ کرکے کرپشن کے نئے ریکارڈ بنا رہی تھی۔ اس بار پیپلز پارٹی سندھ کے عوام اور وفاقی سرکار کے درمیاں سخت آزمائش سے گزرے گی۔ سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دے کر بظاہر ایک غیر مقبول فیصلہ کیا ہے، مگر یہ فیصلہ کرکے سندھ کے لوگوں نے اپنے مڈل کلاس سیاست دانوں کو یہ موقعہ فراہم کیا ہے کہ اس دوران ایک مضبوط اور بااصول پارٹی وجود میں لائیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کے لیے ایک برے اور کرپٹ شوہر کی طرح ہے، مگر کوئی بھی سمجھدار عورت برے شوہر سے نجات حاصل کرنے کے لیے کسی بچے کے ساتھ گھر سے نہیں بھاگتی۔ سندھ نے ہمیشہ انتظار کیا ہے۔ عورت کی طرح سندھ نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ سندھ اس بار بھی صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سندھ کے اس فیصلے کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے سندھ کے اچھے افراد کو اچھی جماعت وجود میں لانے کا کارنامہ سر انجام دینا چاہئے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment