ترک صدر رجب طیب اردگان نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اس کی جانب سے پابندیوں کی دھمکیوں کے باعث ترک حکومت اور عوام کا عزم متزلزل نہیں ہو سکتا۔ ایک جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر امریکی پادری اینڈریو برنسن کو رہا نہ کیا تو ترکی کو سزا دی جائے گی، جو مختلف قسم کی پابندیوں کی شکل میں ہو سکتی ہے۔ اس کے جواب میں ترک صدر طیب اردگان نے کہا کہ پابندیوں کی دھمکیوں سے ترکی کے فیصلے تبدیل نہیں کرائے جا سکتے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ ترکی میں قید امریکی پادری کو کسی صورت بھی رہا نہیں کیا جائے گا۔ ٹرمپ کی جانب سے پابندیوں کی دھمکی پر ترک صدر کا یہ پہلا اور سخت ردعمل ہے۔ ترکی کے ایک اخبار حریت میں شائع ہونے والے صدر رجب طیب اردگان کے بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکا کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر ترکی کے بارے میں اس نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا تو وہ ایک مضبوط اور مخلص اتحادی سے محروم ہو سکتا ہے۔ ترکی کے شہر ازمیر میں واقع پروٹیسٹنٹ فرقے کے ایک چرچ سے وابستہ پادری اینڈریو برنسن کے معاملے پر امریکا اور ترکی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ یاد رہے کہ شام میں کردوں کے جنگجو گروپ YPO کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے۔ ترک حکومت اس گروپ کو دہشت گرد قرار دیتی ہے، جبکہ امریکا اس جنگجو گروپ کی حمایت کرتا ہے۔ امریکی پادری اینڈریو برنسن کو دو سال پہلے ترک حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کی حمایت پر گرفتار کیا گیا تھا۔ چند روز قبل ایک عدالت نے مذکورہ پادری کو جیل سے گھر میں نظر بند کرنے کے احکام جاری کئے۔ 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت میں اہم کردار ادا کرنے والے ایک ترک مبلغ فتح اللہ گولن فرار ہو کر امریکا میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ اس پر فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔ ترک حکومت اس جلا وطن مبلغ کو امریکا سے بے دخل کر کے ترک حکومت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے۔ امریکی حکومت اس مطالبے کو مسلسل مسترد کر رہی ہے۔ ان دو خبروں کے چند پہلو بالکل واضح اور غور طلب ہیں۔ اول، امریکا کو واحد عالمی سپرپاور ہونے کا زعم ہے، اس لیے وہ دنیا کے تمام ممالک پر اپنی بالادستی کا رعب ڈالنا چاہتا ہے۔ دوم، جب سے صدر ڈونالڈ ٹرمپ جیسا جنونی شخص برسراقتدار آیا ہے، وہ بالخصوص مسلمان ملکوں پر امریکی رعب و دبدبہ قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔ سوم، ترکی کو صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دھمکیاں اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ چہارم، ترک صدر رجب طیب اردگان مسلم دنیا کے واحد رہنما ہیں، جو امریکا اور ٹرمپ سے مرعوب ہوئے بغیر صاف جواب دینے کی جرأت کر سکتے ہیں۔ پنجم، ناکام فوجی بغاوت کے الزام میں سزا پانے والے پادری اینڈریو برنسن کو رہا نہ کرنے پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ترکی کو پابندیوں کی دھمکیاں دیتے ہیں، جنہیں ترک صدر اور عوام ذرا بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ ششم، ناکام فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والا نام نہاد مبلغ فتح اللہ گولن ترکی سے فرار ہو کر امریکا میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ ترکی کے مطالبے پر امریکا اسے بے دخل کر کے ترک حکومت کے حوالے کرنے پر تیار نہیں تو وہ ایک پادری کی ترکی سے رہائی پر کیونکر اصرار کر سکتا ہے۔
امریکا کی خام خیالی ہے کہ دوسرے مسلم ممالک کی طرح ترکی کے صدر اور عوام اس کی بالادستی کا یکطرفہ تصور اور دبائو قبول کر لیں گے۔ پاکستان کی حکومتیں عافیہ صدیقی کو امریکا سے رہا کرانے میں آج تک کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ جسے امریکی عدالت نے جرم بے گناہی میں اسّی سال سے زیادہ کی سزا سنائی ہے۔ اس کے برعکس جنرل پرویز مشرف کے دور سے ہماری حکومتیں پاکستان میں جرائم کا ارتکاب کرنے والے امریکیوں ہی کو نہیں، بلکہ امریکا کو مطلوب پاکستانی شہریوں کو بھی پکڑ پکڑ کر حوالے کرتی رہی ہیں۔ امریکی پادری پر تو ترک عدالت نے رحم کرتے ہوئے پچیس جولائی کو اس کی صحت کے پیش نظر جیل سے گھر پر نظر بند کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس پر دو سال قبل فوجی بغاوت میں تعاون کا الزام تمام شواہد کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ پادری برنسن کو ازمیر کے علاقے میں واقع اس کے اپنے گھر میں نظربند کیا گیا ہے، جہاں وہ بیس سال سے رہائش پذیر ہے۔ پادری پر ترکی میں کالعدم قرار دی جانے والی کردستان ورکرز پارٹی (PKK) اور فتح اللہ گولن کی دہشت گرد تنظیم (LETO) کے ساتھ تعلقات اور تعاون کا الزام تھا۔ برنسن کے وکیل نے اس کی رہائی کے لیے صحت کی بنیاد پر عدالت سے رجوع کیا تھا، جس پر عدالت نے پادری کو جیل سے گھر بھیج دیا۔ انقرہ میں مقیم ایک امریکی سفارت کار فلپ کوسینٹ نے چھبیس جولائی کو اینڈریو برنسن سے ملاقات کی تھی۔ لیکن اس نے مجرم کی گرتی ہوئی صحت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انیس جولائی کو ترک صدر رجب طیب اردگان کے نام اپنے پیغام میں اینڈریو برنسن کی مسلسل حراست کو واضح طور پر بے عزتی قرار دیتے ہوئے اسے رہا کرنے کی اپیل کی تھی۔ ترک حکومت کا جواب بالکل صاف تھا کہ یہ ایک آزاد ترک عدالت کا فیصلہ ہے، جس میں حکومت مداخلت نہیں کر سکتی۔ جہاں تک امریکا کی جانب سے ترکی کو دھمکیاں دینے کا تعلق ہے تو ڈونالڈ ٹرمپ کو اندازہ نہیں کہ ترک صدر رجب طیب اردگان ان کی طرح اپنے ملک میں غیر مقبول اور کمزور نہیں ہیں۔ انہیں اپنے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے، اس لیے وہ امریکا کی گیدڑ بھبھکیوں سے مرعوب ہونے والے نہیں ہیں۔ طیب اردگان نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ترکی کے خلاف پابندیاں عائد کرنے سے امریکا دہشت گردی کے خلاف اپنے ایک مخلص اور مضبوط اتحادی سے محروم ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ خلافت عثمانیہ کے خلاف 1923ء میں کئے جانے والے معاہدے کی سو سالہ مدت پوری ہو رہی ہے، جس کے بعد 2023ء میں ترکی ایک بار پھر خلافت عثمانیہ کا مرکز بن کر ابھرے گا۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کی اس پر نظر ہے اور وہ مسلمانان عالم کو متحد کر کے اسی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ امریکی سرپرستی میں اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کی اس نشاۃ ثانیہ کا تصور کر کے ابھی سے خوف زدہ ہیں۔ لہٰذا آئندہ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال مزید پھیلنے کے علاوہ مسلم ممالک پر حملے بھی ممکن ہیں، جس کا جواب دنیا کے ستاون مسلم ممالک متحد ہو کر ہی دے سکتے ہیں۔ ٭