’’سیلف مینجمنٹ‘‘

ڈاکٹر صابر حسین خان
ہفتہ اتنی جلدی گزر جاتا ہے کہ ہر دن یہ لگتا ہے کہ پچھلے ہفتے کا یہ دن ابھی کل ہی تو گزرا تھا اور اتوار تو پلک جھپکتے آجاتا ہے۔ کل شام جب عثمان کا فون آیا اور اس نے کہا کہ ’’صابر بھائی! آپ کا آخری مضمون اس اتوار کو آرہا ہے اور مضمون بھیج دیں۔‘‘ تو میں یکایک خوابِ خرگوش سے جاگ اٹھا۔ میں اپنے حساب سے عثمان کو دس مضامین یکمشت بھیج کر سکون سے بیٹھ رہا تھا کہ اب کئی ہفتوں کی چھٹی۔ لیکن غالباً اُس سے دو تین مضامین Misplace ہوگئے تھے۔ تبھی اس نے فون کیا اور اچھا کیا کہ مجھے آرام سے جگا دیا۔ ورنہ میرا اسٹاک ختم ہو جاتا اور پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قلم اور کاغذ پکڑنا پڑتا۔ اب خدا کا شکر ہے۔ کچھ مُہلت اور مل گئی اور کچھ اور مضمون، کچھ اور دل کی باتیں، کچھ اور کہانیاں لکھی جاسکیں گی۔
مہلت مل جائے تو بہت سہولت ہو جاتی ہے۔ کئی ادھورے کام ہو جاتے ہیں۔ لیکن مہلت بار بار نہیں ملتی۔ ہر کام میں نہیں ملتی۔ لائوڈ اسپیکر پر بآوازِ بلند اعلان کرکے نہیں ملتی اور یہ بھی ہے کہ ہر ایک کو نہیں ملتی۔ بہت بار ہم بہت سے کاموں، بہت سی باتوں میں مہلت چاہ رہے ہوتے ہیں۔ مہلت مانگ رہے ہوتے ہیں۔ بگڑی باتوں کو سنوارنے کیلئے۔ ادھورے کاموں کو نمٹانے کیلئے۔ لیکن گھنٹی بج جاتی ہے۔ وقت پورا ہو جاتا ہے۔ پرچہ ہاتھوں سے لے لیا جاتا ہے۔ دیکھے بنا، پوچھے بنا کہ سوالوں کے جواب پورے ہوئے ہیں یا نہیں۔ مہلت ختم ہو جاتی ہے اوورز ختم ہو جاتے ہیں۔ میچ ختم ہو جاتا ہے۔ ٹارگٹ پورا نہیں ہو پاتا۔ رنز پورے نہیں ہو پاتے۔
ایسا بہت بار ہوتا ہے۔ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم ہر بار، ہر بات، ہر کام میں مہلت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ دیکھ لیں گے۔ ہو جائے گا۔ کرلیں گے۔ مگر ہوتے ہوتے کچھ بھی پورا نہیں ہو پاتا۔ کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے۔ آخری وقت تک ہڑبوڑ مچی رہتی ہے۔ ایک آنچ کی کسر ضرور رہ جاتی ہے۔
بہت کم لوگ تھوڑے کو بہت سمجھتے ہیں اور وقت سے پہلے اپنے کام، اپنے پروجیکٹ پورے کرلیتے ہیں۔
ایسے لوگ سکون میں رہتے ہیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ جو رہتے ہیں یا رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، وہ بے چارے عام طور پر ذرا بے سکونے رہتے ہیں۔ کیونکہ وقت کے دائرے میں رہنے والے، اپنے وقت کو صحیح طرح استعمال کرنے والے، مہلت ختم ہونے سے پہلے اپنے کام ختم کرنے والے لوگ عام طور پر یہی توقع یہی خواہش رکھتے ہیں کہ اُن کے ساتھ رہنے والے بھی اُن کی طرح ذرا زیادہ METICULOUS ذرا زیادہ METHODICAL ، ذرا زیادہ MESHY ہوں اور اُن کی طرح اپنے سب کام وقت پر یا وقت سے پہلے ختم کرلیں۔
لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ انسان کی عمومی نفسیات میں چونکہ کاہلی اور تساہل فطرتاً شامل ہوتے ہیں تو زیادہ تر لوگ اپنے کاموں کے حوالے سے ڈھیلے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ کاموں کے ختم ہونے کا وقت آجاتا ہے اور کام پورے نہیں ہوپاتے۔
معاشرتی ابتری اور افراتفری اور بے سکونی کی ایک اہم وجہ احساسِ ذمہ داری کا نہ ہونا ہے۔ جس کے نہ ہونے سے ہر گھر، ہر دفتر، ہر جگہ آدھے اور ادھورے کاموں کا ڈھیر جمع رہتا ہے اور دن بہ دن اِن میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ احساسِ ذمہ داری کے نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہمارا تعلیم و تربیت کا نظام ہے۔ جو ہمیں زندگی کے کسی بھی درجے پر یہ نہیں سکھاتا کہ ہماری زندگی میں وقت کی کتنی اہمیت ہے اور ہمیں کیسے اور کس طرح اپنے وقت کو مناسب اور متناسب انداز میں استعمال کرنا چاہئے۔
کسی بھی شخص میں احساسِ ذمہ داری اُس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا، جب تک اُسے وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ نہ ہو۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہم ادھیڑ عمر میں جا کر سیلف ہیلپ اور ٹائم مینجمنٹ کے ورکشاپس اور سیمینار باقاعدہ پیسے دے کر Attend کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے کاموں، اپنی چیزوں کو اتنا پھیلا چکے ہوتے ہیں کہ پھر ہمیں وقت پر ان کو سمیٹنا نہیں آپاتا۔ لیکن ہر بات، ہر کام، ہر شے اپنے وقت پر ہی اچھی لگتی ہے۔ فجر کی نماز، عشاء کے وقت پڑھنے کا فائدہ نہیں ہو پاتا۔ وقت کی اہمیت اگر بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں جگہ نہ کر پائے اور ہماری تعلیم اور تربیت میں اس حوالے سے ہماری کوئی نگرانی اور نگہبانی نہ ہو تو ہم آگے چل کر اپنے اپنے کاموں میں خواہ کتنی ہی Excellence کیوں نہ حاصل کرلیں، ہمیں ہر قدم پر اپنے ہر کام میں وقت کی کمی کا احساس رہے گا اور ہم کبھی بھی اپنے وقت کا بھرپور اور مؤثر استعمال نہیں کر سکیں گے۔
اگر ہم اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں ہم سمیت سبھی لوگ اپنے اپنے کام کرنے کے دوران بھی بہت سطحی اور اوپری دل سے اپنے کام نمٹاتے ہوئے یا بھگتاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو پوری توجہ پورے دل سے اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم سب کا دورانِ کام اور دورانِ فراغت سب سے دلچسپ مشغلہ اور سب سے پسندیدہ کام باتیں کرنا ہوتا ہے۔ جب تک ہم آٹھ میں سے کم از کم چار گھنٹے دل کھول کر دنیا کے ہر موضوع، ہر Issue پر گفتگو نہ کرلیں، اُس وقت تک ہماری انرجی چارج نہیں ہو پاتی۔ دو گھنٹے جتنا کام بھی پھر ہمیں آٹھ گھنٹوں میں پورا کرنا مشکل لگتا ہے۔ نتیجتاً ہمارے کام ادھورے رہتے ہیں اور ادھورے کاموں کا ڈھیر جمع ہوتا رہتا ہے۔
احساسِ ذمہّ داری اُن لوگو ں میں زیادہ ہوتا ہے جو اپنی ذات اور اپنی شخصیت میں نظم و ضبط کے عادی ہوتے ہیں۔ SELF MANAGEMENT وہ پہلی سیڑھی ہے، جو ہمیں خود کار طریقے سے از خود TIME MANAGEMENT کی منزل تک پہنچا دیتی ہے اور جِس شخص میں یہ دونوں عوامل ساتھ ساتھ چل رہے ہوں تو وہ بڑے آرام اور سکون سے 24 گھنٹے مصروف رہ کر بھی 24 گھنٹے فارغ رہ سکتا ہے اور بڑی خوش اطواری سے زندگی کے ہر معاملے، ہر کام کیلئے وقت نکال لیتا ہے۔ اُسے کبھی یہ نہیں کہنا پڑتا کہ فلاں کام کیلئے اُسے وقت نہیں ملا یا وقت نہیں بچا۔ اُس کے تمام کام اپنے اپنے مقررہ وقت سے ذرا پہلے ہی ختم ہوتے چلے جاتے ہیں اور اُسے روٹین سے ہٹ کر دیگر نئے کام کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے اور قدرت بھی اُسے عام لوگوں کی بہ نسبت، مہلت فراہم کرتی رہتی ہے۔
قدرت بھی اُنہی کا ساتھ دیتی ہے جو قدرت کی عطا کردہ سب سے زیادہ قیمتی نعمت یعنی وقت کو ضائع نہیں کرتے اور اپنے پَل پَل کو امانت سمجھتے ہوئے، برتتے اور استعمال کرتے ہیں۔ وقت کی قدرو قیمت اور اہمیت کا نکتہ جِن لوگوں کی سمجھ میں آجاتا ہے۔ وہ پھر بڑے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے پاس اپنے تمام کاموں کو پورا کرنے اور تمام مسئلوں کے حل کیلئے جستجو کرنے کی گیدڑ سنگھی ہاتھ آجاتی ہے۔ وہ اپنی شخصیت اور اپنی نفسیات کے انجن کو آٹو پائلٹ پر ڈال کر سکون سے نت نئے Ventures کیلئے وقت نکال لیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے پاس کام، آرام، تفریح اور سماجی تعلقات، سبھی باتوں کیلئے وقت نکل آتا ہے۔ وہ عام لوگوں کی بہ نسبت مصروف بھی زیادہ رہتے ہیں اور اُن کے مشاغل کی فہرست بھی دیگر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ اُن کے پاس صرف ایک چیز کیلئے بالکل وقت نہیں ہوتا۔ فضول، بے مقصد اور اِدھر اُدھر کی باتوں کیلئے۔ وہ سب کو وقت دے رہے ہوتے ہیں۔ دوستوں کو، رشتہ داروں کو، پڑوسیوں کو، مِلنے جُلنے والوں کو، اجنبیوں کو۔ لیکن وہ یہ وقت بھی یہاں وہاں کی باتوں میں ضائع نہیں کرتے۔ اِن اوقات اور لمحات میں بھی یہ عام طور پر دیگر لوگوں کے دل کا حال سُننے اور اُن کے مسئلوں کا حل تجویز کرنے میں گزرتا ہے۔ اُن کا Focus ہمیشہ حال پر رہتا ہے۔ کام کے وقت دل سے بھرپور کام اور تفریح کے وقت بھرپور تفریح۔ وہ کسی ایک کام کو دوسرے کام کے بیچ حائل نہیں ہونے دیتے۔ خود کو ہر طرح کے بحث مباحثے سے دور رکھتے ہیں۔ نہ کسی کا دل دُکھاتے ہیں۔ نہ بلا وجہ کسی کا دل رکھتے ہیں۔ اختلاف رائے کی صورت میں دو جملوں میں اپنا نکتہ نگاہ بیان کرکے خاموش ہو جاتے ہیں اور ہوں ہاں کرکے غیر ضروری گفتگو کو طول دینے سے گریز کرتے ہیں۔
کبھی کسی ایسی بات، ایسے کام میں ہاتھ نہیں ڈالتے جو اُن کی دسترس سے دور ہو یا جسے وہ کرنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں۔ اُن کو علم ہوتا ہے کہ کب اُن کو نہ کہنا ہے اور کب ہاں۔ کب آگے بڑھنا ہے۔ کب پیچھے پلٹ آنا ہے۔ کب کس معاملے سے دوری اختیار کرنی ہے۔ کب کس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ کون سا کام خود کرنا ہے۔ کون کون سے کام اپنے ساتھ کے لوگوں کو تفویض کرنے ہیں۔ کس پروجیکٹ میں کتنی توانائی، کتنا وقت مطالعے کو دینا ہے۔ صحت کے تینوں دائروں میں اپنی توجہ کی تقسیم کیسے کرنی ہے۔ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے کیا کیا کرنا ہے۔ ذہنی و جذباتی صحت کو کیسے نشوونما فراہم کرنی ہے۔ روحانی صحت کی سرشاری کیلئے کون سے کام کرنے ہیں۔
غرضیکہ ہر بات، ہر کام، ہر فرد، ہر شے کیلئے کس وقت کون سے Measures اختیار کرنے ہیں اور کن باتوں، کن چیزوں سے اجتناب برتنا ہے۔ اپنی ذات میں نظم و ضبط کا سلیقہ اُسی وقت اور اُسی صورت آسکتا ہے جب ہم اوائلِ عمر سے اپنی زندگی کو Monotonous رکھنے کے بجائے Multi dimensional رکھنے کی خواہش رکھیں، کوشش کریں اور بار بار کی مشق کریں اور اِس مشق سے گھبرائیں نہیں۔ کترائیں نہیں۔ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک کام خود اپنے آپ کو Tame کرنا ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو سدھارنا اور نکھارنا ہوتا ہے۔ اپنے اندر کے خلفشار کو ختم کرکے اپنی Tunning کرنا ہوتا ہے اور یہ کام جادو کی چھڑی پھیرنے سے نہیں ہو سکتا۔ اِس کیلئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ فراغت اور مہلت یونہی نہیں مل جاتی۔ اِس کیلئے خود کو ہمہ وقت مصروف رکھنا پڑتا ہے۔ ہمہ وقت چاق و چوبند رکھنا پڑتا ہے۔ ہمہ وقت چوکس و چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ ہمہ وقت آنکھیں کُھلی رکھنی پڑتی ہیں۔ پھر کہیں جاکر قدرت کا انعام ملتا ہے۔ مہلت اور فراغت چاہئے تو خود کو مثبت کاموں میں مصروف کرلیجئے اور اہم اور غیر اہم کاموں کے بیچ فرق کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ سب سے اہم بات یہ کہ خود کو غیر ضروری باتوں کے نشے سے دور کرلیجئے۔ غیر ضروری باتیں سُننے سے بھی اور کرنے سے بھی۔ آپ کی ذات میں از خود نظم و ضبط آتا چلا جائے گا۔

Comments (0)
Add Comment