ماحولیاتی بم اور نئی حکومت کی ذمہ داریاں

ماحولیاتی بم کی تباہی دنیا میں شروع ہو چکی ہے، اس سے کلی طور پر بچنا تو ناممکن ہے، کیوں کہ دنیا ایک گلوبل ولیج ہے اور اس عالمی گائوں میں رہنے والے اس کے دوسرے مکینوں کی غلطیاں بھی بھگتنے پر مجبور ہیں، ہاں البتہ اپنے گھر میں کچھ ایسے اقدامات ضرور اٹھائے جا سکتے ہیں، جن سے دوسروں کی غلطیوں کے اثرات ہمارے اوپر کم سے کم پڑیں۔
انسان کو کرئہ ارض پر سب سے بڑا خطرہ اگر کسی سے ہے تو وہ اپنے آپ سے ہے، رب العالمین نے تو قرآن پاک میں بتا دیا تھا کہ زمین بناتے ہی اس میں قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے پانی اور خوراک کا انتظام کر دیا گیا تھا، لیکن حضرت انسان اس انتظام کو بگاڑنے کا کوئی موقع جانے نہیں دے رہا، اپنے ہاتھوں سے آنے والی نسلوں کیلئے تباہی کا ساماں تیار کر رہا ہے، ہم ہتھیاروں کی بات نہیں کر رہے، بلکہ ماحولیاتی بم کی بات کر رہے ہیں، جو ہائیڈروجن بموں سے بھی بڑا بم ہے، جس سے کسی ایک ملک کو نہیں، بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کو خطرہ ہے، بیسویں صدی میں انسان نے صنعتی ترقی کے پیچھے دوڑنا شروع کیا تھا، صنعتی ترقی کا مقصد زندگی میں آسانیاں لانا تھا، لیکن پھر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں انسان اس مقصد کو بھول گیا، اس نے رب العالمین کے دیئے ہوئے وسائل کا بے دردی سے استعمال شروع کر دیا، وہ جنگلات جو انسانوں کے جد امجد سے لے کر اب تک خوراک سے لے کر ہوا اور حفاظت تک ہر ضرورت پوری کر رہے تھے، انہیں کاٹنا شروع کر دیا، پلاسٹک کی ایجاد ہوئی، تو اس کا استعمال اتنا بڑھا دیا کہ اب یہ دنیا قدرتی سے زیادہ پلاسٹک کی نظر آتی ہے، پانی سے لے کر خوراک تک ہر چیز پلاسٹک پیکنگ کی محتاج بنا دی گئی، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ پلاسٹک کو تلف نہیں کیا جاسکتا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا میں زمین ہی نہیں سمندر بھی اس پلاسٹک کی چیزوں کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں، سمندر میں ایسے حصے بن گئے ہیں، جہاں آپ کو نیلگوں پانی نہیں بلکہ پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر اشیا سطح پر تیرتی نظر آتی ہیں، پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں تو دریا اور ندیاں بھی اس تباہی کی لپیٹ میں آ گئی ہیں۔ سائنسدان بھی سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ اس پلاسٹک کے فضلے کا کیا کیا جائے۔ لیکن اس کے باوجود تباہی کا یہ عمل کوئی روکنے کو تیار نہیں، پھر پلاسٹک تو ماحولیاتی تباہی کا ایک جز ہے، بے کار الیکٹرانک آلات سے لے کر صنعتی دھوئیں اور فضلے تک ہر چیز اس زمین کو انسان کے رہنے کے لئے مشکل بناتی جا رہی ہے، سائنسدان کئی دہائیوں سے خبردار کر رہے تھے کہ ماحول کو بچانے کی طرف توجہ دی جائے، لیکن سرمایہ داری نظام میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنے کی دھن میں مگن لوگوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
سو اب اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں، کہیں لوگ گرمی اور پانی کی کمی سے مر رہے ہیں اور کہیں سیلاب ان کی زندگیوں کا خاتمہ کر رہا ہے، دنیا کے موسم ایسے تبدیل ہو رہے ہیں کہ کسی کو یقین نہیں آرہا، صحرائی علاقوں میں طوفانی بارشیں ہو رہی ہیں اور بارشوں والے علاقے خشک سالی کا شکار ہو رہے ہیں، عالمی موسم ناقابل بھروسہ ہو گیا ہے، یورپ گرمی کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ صرف برطانیہ کے حالات دیکھیں تو جہاں لوگ سورج کو دیکھنے کے لئے ترستے تھے، اس کا دیدار کرنے کے لئے دوسرے ملکوں میں انہیں جانا پڑتا تھا، وہاں اب گرمی سے لوگ مر رہے ہیں، سورج نکلنے پر سمندر کے کنارے جاکر بے لباس ہوکر سن باتھنگ کرنے کا شوق پالنے والا مغربی معاشرہ اب اسی سن کی تاب نہیں لاپا رہا، برطانیہ میں درجہ حرارت 35 ڈگری تک جا پہنچا ہے، عوام بے حال ہیں، الٹیاں کررہے ہیں، وہاں کی سڑکیں اتنے درجہ حرارت کے لئے بنائی ہی نہیں گئی تھیں، سو وہ پھٹ رہی ہیں، ٹرینوں کو بریک لگ رہی ہے، کیوں کہ پٹریاں گرمی کی وجہ سے پھیل جاتی ہیں اور وہ ڈی ریل ہو رہی ہیں، ڈی ہائیڈریشن کے اتنے مریض اسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس بستر کم پڑ گئے ہیں، وہ گورے جو پنکھوں کو حیرت سے دیکھتے تھے، اب ان کی خریداری کے لئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، لیکن پنکھے دستیاب نہیں، وہ جو ہمارے جیسے گرم ملکوں کے لئے ایئر کنڈیشنر بناتے تھے، اب اپنے ملک کی طلب پوری نہیں کرپا رہے۔ جس سے بجلی پر لوڈ بڑھ رہا ہے، مسلسل بارش کا موسم پانے کی وجہ سے ان ممالک نے زیادہ ڈیم بھی نہیں بنائے، لیکن اب جھیلیں اور ذخائر سوکھنے کی وجہ سے پانی کا بحران پیدا ہونے لگا ہے، وہاں بھی ٹینکروں کے ذریعے کئی علاقوں میں پانی فراہم کیا جا رہا ہے، وہ یورپ جہاں گورے سورج نکلنے کا انتظار کرتے تھے، اب بادلوں کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے ہیں، ابھی تو انتظار کریں، اگر گرمی کی لہر یونہی آتی رہی تو جلد ان گوروں کے رنگ بھی آپ کو بدلتے نظر آئیں گے اور یورپ میں بھی رنگ گورا کرنے والی کریموں کا کاروبار چل پڑے گا، اسی طرح وہاں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آرہے ہیں، ہرے بھرے سبز میدان سوکھے کا منظر پیش کررہے ہیں، ایک طرف یہ عالم ہے تو دوسری طرف جاپان، لاوس اور بھارت سمیت کئی ملکوں میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے، یہ تو وہ تباہی ہے، جو سامنے نظر آرہی ہے، لیکن اس سے بڑی تباہی معاشی ہے، کہیں فصلیں خشک سالی سے تباہ ہو رہی ہیں تو کہیں سیلاب انہیں بہا لے جا رہا ہے، ہم پاکستانیوں کو تو اب بھی رب کا شکر کرنا چاہئے کہ جیسے ہی خشک سالی کے آثار نظر آنے لگے تھے، بارشیں شروع ہوگئیں، تاہم اس کے باجود ہماری فصلیں ضرور متاثر ہوئی ہیں۔
انسان نے پیسہ کمانے کی ہوس میں قدرتی وسائل کے ساتھ جو جو کھلواڑ کیا ہے، اس کا نتیجہ سامنے آنے لگا ہے، پانی اور خوراک بھی آلودہ ہو چکی ہے، ہر چیز مصنوعی اور فطرت سے دور ہوتی جا رہی ہے، انٹارکٹیکا کے گلیشیرز جن کے بارے میں خیال ہے کہ یہ دنیا کے ساتھ وجود میں آئے تھے، وہ بھی پگھلنے لگے ہیں، جن سے سمندری کی سطح بلند ہو رہی ہے اور مالدیپ سمیت کئی ملکوں کا وجود ہی خطرے میں ہے۔ دوسری طرف میٹھے پانی کی قلت کا یہ عالم ہے کہ جنوبی افریقہ کے دارالحکومت جوہانسبرگ میں اس کی راشننگ کی جا رہی ہے، بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں بھی یہ صورت حال پید ا ہوگئی ہے، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم اب خطرے کے نشان سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دنیا اس کا احساس کرنے میں ناکام ہے، بلکہ دنیا کو اس حال میں پہنچانے کے سب سے بڑے ذمہ دار ملک امریکہ نے تو عالمی ماحولیاتی معاہدے سے ہی علیحدگی اختیار کر لی ہے، دنیا کے باقی ممالک کو روکنا تو ہمارے بس میں نہیں، لیکن ہمیں خود اس تباہی کے اثرات کم سے کم رکھنے کے لئے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔
اس میں سب سے اہم ڈیموں کی تعمیر اور دوسرا جنگلات کا فروغ ہے، یہ دو ایسے ہتھیار ہیں، جن سے ہم عالمی تباہی کے اثرات سے خود کو بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں، اس کے ساتھ اپنے دریا، نہروں اور جھیلوں کو آلودگی سے بچانا، پلاسٹک کا استعمال فوری طور پر کم کرنا بھی اہم ہے، ہمیں صنعتی ترقی ضرور کرنی ہے، لیکن صنعتیں کہاں لگنی چاہئیں، اس کا خیال رکھنا ہوگا، اب تک تو ہم گوجرانوالہ کی سرسبز زمینوں پر جہاں باسمتی چاول کاشت ہوتے تھے، فیکٹریاں لگاتے رہے ہیں، اب یہ سلسلہ روکنا ہوگا، صنعتیں ایسے علاقوں میں لگانی ہوں گی، جو کاشت کاری کے لئے موزوں نہ ہوں۔
ان سب عوامل میں پانی کے ذخائر یعنی ڈیمز کی تعمیر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، کیوں کہ باقی اکثر چیزیں بھی اس سے جڑی ہوئی ہیں، تمام بڑے شہروں کے اردگرد جنگلات اگانا ضروری ہے اور جنگلات لگانے کے لئے بھی آپ کو پانی درکار ہوگا، زراعت کا مستقبل بھی اسی سے جڑا ہوا ہے۔ ہم بہت وقت ضائع کر چکے، اب مزید کی گنجائش نہیں ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس سلسلے میں راستہ دکھا دیا ہے، نئی آنے والی حکومت اس پر تیزی سے پیشرفت کرے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ پاکستان کے بڑے دریا دنیا کے عظیم ترین پہاڑی سلسلوں سے نکلتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے باعث، گلیشیرز کا حجم ہر گزرتے سال دنیا کے اکثر حصوں میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہاں بھی ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے گلیشیرز پر اس کا اب تک کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ لیکن یہ خوش قسمتی ہمیشہ کے لئے تو نہیں ہو سکتی۔ پھر پانی کی ذخائر تعمیر نہ کرنے کے باعث ہم قلت آب کا شکار تو پہلے ہی ہونے لگے ہیں۔1947ء میں جب پاکستان بنا تو یہاں ہر شخص کے لیے پانچ ہزار کیوبک میٹر صاف پانی میسر تھا، اب یہ سطح کم ہوتے ہوتے ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی نیچے آگئی ہے۔ جو خطرے کے نشان کے قریب ہے۔ بڑے ڈیموں کے ساتھ ساتھ ہمیں چھوٹے ڈیمز بنا کر بھی پانی ذخیرہ کرنا ہوگا۔ جس طرح چین نے زیر زمین پانی کی سطح برقرار رکھنے کے لئے مصنوعی جھیلیں بنا دی ہیں، چھوٹے ڈیموں کا آغاز ایسے علاقوں سے کیا جائے، جہاں بارشوں سے تباہی ہوتی ہے۔ ان میں ڈیرہ غازی خان سرفہرست ہے، جہاں ہر برس بارشوں سے سیلاب آتا ہے اور تباہی لاتا ہے، اس پہاڑی علاقے میں اگر چھوٹے ڈیم بن گئے تو یہ بارشیں تباہی کے بجائے تعمیر کا ذریعہ بن جائیں گی۔ نئی حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب کو اس سے اچھا کوئی تحفہ نہیں دیا جا سکتا۔٭

Comments (0)
Add Comment