سیلانی منیب کی وجہ سے اچھا خاصا پریشان ہے، وہ تیزی سے بڑا ہو رہا ہے، ابھی وہ ساتویں کلاس میں ہے، لیکن اس کو جوتے باپ کے پورے آرہے ہیں، وہ کھانے پینے کا شوقین بھی سیلانی ہی کی طرح ہے، کباب رول، تکے، بروسٹ، برگر پیزا اور بریانی کا دشمن ہے، جناب کو بریانی اور پلاؤ بھی دیگ کا چاہئے، اب اس کے لئے کہاں سے روز دیگ چڑھائی جائے، اس خوش خوراکی کی وجہ سے اس کا وزن بھی اچھا خاصا ہو رہا ہے، لیکن یہ سب سیلانی کے لئے مسئلہ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیلانی کی طرح سوچنے لگا ہے، اپنی عمر سے بڑے بڑے سوال کرتا ہے، کہتا ہے میں بھی بابا کی طرح صحافی بنوں گا اور سیلانی کو اسی بات سے خوف آتا ہے، صحافت اب سوائے جھوٹی ریاضت کے کچھ نہیں رہی، اب یہ نیوز چینلز کے چرب زبان اینکروں کے کھونٹے سے بندھی ہوئی گائے ہے، جس نے جگالی کے لئے منہ اور ہلانے کے لئے دم سنبھال رکھی ہے… منیب اپنی عمر سے بڑے بڑے سوال کرتا ہے اور صرف سوال نہیں کرتا، جرح بھی کرتا ہے، وہ سمجھنا چاہتا ہے اور وضاحتیں مانگتا ہے۔
اس وقت بھی وہ مسہری پر اوندھا لیٹا ٹانگیں ہلا رہا تھا اور یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اس کے ذہن میں نئے سوالات کی کھیتی پک کر تیار ہو چکی ہے۔ سیلانی سمجھ گیا کہ سوال اب آیا کہ اب آیا اور پھر حسب توقع اس نے سیلانی کو مخاطب کیا:
’’بابا!‘‘
’’ہوں‘‘ سیلانی نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹائے بغیر ہنکارہ بھرا۔
’’بابا! یہ نااہل کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’جو کسی کام کا نہیں ہوتا۔‘‘
’’مگر جیٹ والے انکل تو بہت کام کے ہیں ناں!!؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ سیلانی چونکا۔
’’میں جہانگیر ترین کی بات کر رہا ہوں، یہ ترین نام کچھ عجیب سا ہے ناں، میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ عدالت نے انہیں نااہل کر دیا ہے، نواز شریف کو بھی
نااہل کیا تھا ناں؟‘‘
’’ہاں عدالت نے ہی کیا تھا، مطلب یہ کہ اب یہ کسی عوامی عہدے کے لائق نہیں، یہ وزیر شزیر نہیں بن سکتے، اسمبلی میں نہیں جا سکتے۔‘‘ سیلانی نے سمجھایا۔
’’بابا! میں نے دیکھا تھا کہ عمران خان نے نواز شریف کو کرسی سے ہٹانے کے لئے بہت جلسے کئے تھے، وہ ہر جلسے میں نواز شریف کو کرپٹ کرپٹ کہتے تھے اور جب عدالت نے نواز شریف کو پرائم منسٹر شپ سے ہٹایا تو عمران خان نے خوب مٹھائیاں بانٹی تھیں۔‘‘
’’جی بیٹا سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ سیلانی نے مختصر سا جواب دیا اور ایک بار پھر لیپ ٹاپ پر متوجہ ہوگیا، الیکشن کے بعد ’’گھوڑوں، خچروں، ٹٹوؤں کی تجارت زوروں پر تھی، نئے پاکستان کے کپتان نے چھانگا مانگا کی تاریخ یاد دلا دی تھی، جہانگیر ترین اپنا جیٹ طیارہ لئے یہاں سے وہاں فضا میں زقندیں لگاتے پھر رہے ہیں، کبھی ان کا رخ وسیب کی پٹی کی طرف ہوتا ہے اور کبھی ان کا جیٹ شہر قائد کی زمین کو چھوتا ہے، وہ یہاں اس فاشسٹ تنظیم کے دفتر میں پہنچتے ہیں، جن کے جلسوں میں شریک کارکنوں کو کپتان نے زندہ لاشیں قرار دیا تھا اور ایم کیو ایم نے بھی سیتا وائٹ کی تصاویر اٹھا کر کپتان کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر وہ زبان استعمال کی تھی کہ رپورٹروں کے لئے کوئی ایک لفظ رپورٹ کرنا مشکل ہوگیا تھا، مگر یہ سب قصہ پارینہ ہو چکا تھا، اب جہانگیر ترین آتے ہیں اور بہادر آباد میں ایم کیو ایم کے راہنماؤں کو سرائیکی جپھیاں ڈال ڈال کر نہیں تھکتے۔ وہ مقتولہ زہرہ شاہد آپا کو بھی بھول جاتے ہیں اور بارہ مئی کے روز گولیاں کھانے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو بھی۔ سیلانی سیاست کا سرکس دیکھ ہی رہا تھا کہ منیب نے ایک اور سوال داغ دیا:
’’بابا! فوج الیکشن میں کیوں آتی ہے؟‘‘
’’یار! آپ کو فوج کے آنے پر کیوں اعتراض ہے؟‘‘
’’امریکہ اور انگلینڈ میں تو فوج الیکشن میں نہیں آتی۔‘‘
’’بھئی! وہاں اداروں کا اعتبار ہے، ان کی ساکھ ہے، وہاں پارٹیاں پالیسیوں سے لڑتی ہیں، کارکردگی سے مقابلہ کرتی ہیں، وہاں ٹھپے بازی نہیں ہوتی، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے نہیں ہوتے، مُردوں کو قبرستانوں میں آرام کرنے دیتے ہیں، ووٹ کے لئے اٹھا نہیں لاتے اور وہاں امن و امان کی صورتحال ہماری جیسی نہیں ہے۔‘‘
’’فوج یہ سب روکتی ہے ناں؟‘‘ منیب نے اگلا سوال کیا۔
’’کم از کم خون خرابا تو نہیں ہونے دیتی۔‘‘
’’بابا! فوج کو نہیں آنا چاہئے، دیکھیں ناں سب ہارنے والے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ہرایا گیا ہے، اس طرح تو فوج کی ساکھ خراب ہو سکتی ہے، اچھا جب فوج الیکشن میں نہیں ہوتی تھی، تب دھاندلی ہوتی تھی؟‘‘
’’اس وقت دھاندلا ہوتا تھا۔‘‘
’’بابا ابھی بھی دھاندلی ہوئی ہے؟‘‘
’’شکایات تو ہیں۔‘‘
’’پھر فوج کے آنے کا فائدہ، فوج خواہ مخواہ بری بن رہی ہے، میں نے نیوز چینل پر دیکھا تھا انڈیا والے اتنا شور مچا رہے تھے۔‘‘
’’انڈیا نے تو شور مچانا ہی ہے، فوج نہ آتی تو اتنے سکون سے الیکشن نہ ہوتے، خدا جانے کیا کچھ ہوتا، تب بھی شور مچاتے کہ دیکھو پاکستان میں کس طرح سے مارکٹائی ہو رہی ہے، کیسے الیکشن ہو رہے ہیں، اتنے لوگ مر گئے، یہ ہوگیا، وہ ہوگیا، انہیں چھوڑو ان کا تو کام ہی بڑبڑ کرنا ہے‘‘۔ سیلانی نے منیب کو سمجھایا اور پھر اپنے کام میں لگ گیا۔ وہ الیکشن کے بعد کی صورت حال پر کالم لکھنا چاہ رہا تھا، لیکن منیب صاحب کے سوال جواب ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ کہنے لگا:
’’بابا! عمران خان کیسے لیڈر ہیں؟‘‘
’’بس اچھے ہیں، جیسے اور ہیں۔‘‘
’’یہ کیسے اچھے ہیں، عدالت نے نواز شریف کو نااہل کیا تھا اور وہ جیٹ جہاز والے انکل کو بھی، لیکن وہ تو عمران خان کے لئے کنوینسنگ کر رہے ہیں، جب عدالت نے انہیں نااہل کیا ہے تو پھر انہیں پارٹی سے نکالا کیوں نہیں؟ وہ اچھے نہیں ہیں ناں، عدالت کی بات تو سب کو ماننی چاہئے، یہ اچھی بات تو نہیں ناں، یہ کیسا نیا پاکستان بنائیں گے؟‘‘
سیلانی ساتویں جماعت کے منیب الرحمان کے اس سوال کا بوجھ عمران خان پر ہی رکھ رہا ہے، وہ ہی بتائیں کہ جب عدالت نے نواز شریف کو نااہل کیا تھا تو وہ میدان میں کیوں نکل آئے تھے اور اب جیٹ والے انکل کو اپنے لئے میدان میں کیوں چھوڑ رکھا ہے؟ میاں نواز شریف نے اگر ماضی میں چھانگا مانگا کی سیاست کی تھی تو آج کپتان جیٹ جہاز کی سیاست نہیں کر رہے؟ کل تک بلکہ الیکشن سے چند روز پہلے باغ جناح کے جلسے تک ایم کیو ایم ’’دہشت گرد‘‘ تھی، لیکن اب حکومت سازی کا مرحلہ آیا ہے تو آج وہی سارے کے سارے حاجی، نمازی، متقی اور پرہیزگار ہوگئے؟ کپتان کی نظر میں پرویز الٰہی کل تک سب سے بڑے ڈاکو تھے، لیکن آج ان سے پیار محبت کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں، مسلم لیگ نون بھی پنجاب کی سیاست میں اصولوں کو بابا جی کا حقہ بنا کر اسٹور میں رکھ چکی ہے، جس کا جہاں زور لگ رہا ہے لگا رہا ہے، سب ہی اس حمام میں بے لباس ہیں، اسی لئے شرم بھی منہ لپیٹے حمام سے باہر کھڑی ہے۔ خدا ہی رحم کرے ان برہنوں کا نیا پاکستان کیسا ہوگا… بے اصولی کی سیاست کے اسی چلن سے سیاستدان پرانے پاکستان میں بھی اپنا اعتبار کھو چکے تھے اور اب نئے پاکستان میں بھی ان کی بھد اڑتی ہی لگ رہی ہے۔ کپتان صاحب تیا ر رہئے اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچے وزنی سوال لئے نئے پاکستان میں ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے کن اکھیوں سے کسی نئے سوال کی تیاری میں مصروف اپنے صاحبزادے کو تکنے لگا اور متوقع سوال کا اندازہ لگاتے ہوئے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭