جماعت اسلامی اور الیکشن

انتخابات میں اگر کسی جماعت کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے، یہ نقصان صرف پارلیمان میں ایک نشست ملنے کا نہیں، اگرچہ یہ بھی اب تک کی بدترین انتخابی کارکردگی ہے، ورنہ پچھلے الیکشن میں عین پولنگ کے دوران بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود جماعت اسلامی کو تین قومی نشستیں مل گئی تھیں، جماعت اسلامی کا اصل نقصان یہ ہے کہ اس الیکشن میں اس کے کارکن ہی نہیں، بلکہ بڑی تعداد میں ارکان بھی جنہیں برسوں کی محنت اور تربیت کے بعد تیار کیا جاتا ہے، یکسو نہیں رہ سکے، قیادت انہیں متحدہ مجلس عمل بنانے کے حوالے سے مطمئن نہیں کرسکی، یہی وجہ ہے کہ پہلی بار الیکشن سے قبل ہی جماعت اسلامی میں خصوصاً خیبر پختون میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور ارکان کی قابل ذکر تعداد میں ساتھ چھوڑ گئی، یہ خطرہ کا الارم تھا، لیکن قیادت اسے سمجھنے میں ناکام رہی۔ جس کا نتیجہ الیکشن میں سامنے آگیا، جماعت اسلامی الیکشن تو پہلے بھی ہارتی رہی ہے، مگر اس کا کارکن ہر شکست پر پہلے سے زیادہ عزم سے میدان میں اترتا تھا، لیکن اس بار الیکشن کے ساتھ جماعت اسلامی اپنے کارکنوں کے سامنے بھی ہارتی نظر آئی۔ انتخابات سے پہلے ہی یہ صورتحال نظر آنے لگی تھی، لوگوں کی بڑی تعداد کے لئے مولانا فضل الرحمن کو ہضم کرنا مشکل ہو رہا تھا اور وہ ٹھیک بھی تھے کیوں کہ جماعت اسلامی جیسی نظریاتی جماعت کے کارکنوں کے لئے مولانا کا مفادات سے بھرا بھاری سیاسی بوجھ اٹھانا آسان نہیں تھا۔ لیکن جماعت اسلامی کی قیادت یہ احساس نہ کر سکی اور مولانا کے جال میں پھنستی چلی گئی۔
قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ جب متحدہ مجلس عمل کی تشکیل کے لئے مولانا کو نواز لیگ کی قیادت نے سرگرم کیا تھا، تاکہ خیبر پختون میں تحریک انصاف کے مقابلے میں بڑی سیاسی قوت کھڑی کی جا سکے تو اس وقت بھی ہم نے ان صفحات پر یہ لکھا تھا کہ جماعت اسلامی کو اس جال سے بچنا ہوگا، متحدہ مجلس عمل ایک مردہ گھوڑا ہے، جس میں مولانا ن لیگ کی پشت پناہی کے باوجود جان نہیں ڈال سکیں گے، 2002ء کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، اب مجلس عمل کی اکثر جماعتیں غیر اہم ہو چکی ہیں، بریلوی مکتبہ فکر مرحوم مولانا شاہ احمد نورانی کی جے یو پی کے بجائے تحریک لبیک کا رخ کر چکا ہے، شیعہ ووٹر اب ساجد نقوی کے پاس نہیں، بلکہ ان کی نمائندہ مجلس وحدت المسلمین بن چکی ہے، اسی طرح اہلحدیث ووٹر ملی مسلم لیگ کے پاس جاچکا ہے، باقی بچتے ہیں مولانا تو وہ گزشتہ پندرہ برسوں میں ہر حکومت کے ساتھ شامل رہ کر، اقتدار کو اپنا واحد سیاسی اصول بنا کر بہت بھاری ہو چکے ہیں، جماعت اسلامی ان کا وزن اٹھانے کی کوشش کرے گی تو خود بھی دب جائے گی، یہ سطور تو الیکشن مہم کے دوران ہی سچ ثابت ہونے لگی تھیں، لیکن ہم نے دانستہ اس وقت قلم نہیں اٹھایا تاکہ مجلس عمل کی انتخابی مہم خراب کرنے کا تاثر پیدا نہ ہو، اب چوں کہ یہ مرحلہ گزر چکا ہے، اس لئے یاددہانی کرائی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مجلس عمل مولانا فضل الرحمن کا سودا تھا، جو انہوں نے کامیابی سے جماعت اسلامی کو بیچ دیا، جماعت اسلامی کو اس سے کچھ حاصل ہونا تھا نہ ہوا، بلکہ الٹا نقصان ہوگیا، الیکشن کے ساتھ ساتھ پارٹی کے قیمتی ارکان اور کارکنان بھی کھودئیے، ویسے تو جماعت اسلامی کی سیاست سیاسی نفع و نقصان کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہئے، لیکن اگر یہ اصول بھی ہو تو جماعت اسلامی کو مولانا فضل الرحمن سے اتحاد کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا، مجلس عمل بنی تو مولانا نے مرکز اور خیبر پختون جو اصلی میدان تھا، دونوں جگہ کی قیادت اپنی جماعت کے پاس رکھ لی، ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی ایسا کھیل کھیلا کہ بونیر جیسے علاقے میں جہاں جماعت اکیلے نشستیں حاصل کرتی رہی ہے، وہاں بھی جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو مجبوراً آزاد الیکشن لڑنا پڑا۔ ایسا لگتا تھا کہ مولانا کو جماعت اسلامی کی قیادت نے بلینک چیک دے دیا ہے، اسی طرح جہاں جماعت اسلامی کے لوگوں کو ٹکٹ دئیے گئے، ان میں سے بھی اکثر یہ شکایت کرتے نظر آئے کہ جے یو آئی والے یا تو ن لیگ کی حمایت کر رہے ہیں یا پھر انہوں نے اپنے لوگ آزاد میدان میں اتار دئیے ہیں۔
چلیں آگے چلتے ہیں، فرض کریں الیکشن کا نتیجہ ویسا ہی آتا جیسا کہ مولانا نے خواب دکھائے تھے، تو تب بھی وزارت اعلیٰ کسے ملتی؟ ظاہر ہے مولانا کے کسی بھائی یا بیٹے کو۔ جماعت اسلامی کو زیادہ سے زیادہ دو چار وزارتیں مل جاتیں اور وہ بھی یقین رکھیں کوئی اہم وزارت نہیں، اگر وزارتیں ہی لینی تھیں تو وہ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی ملی ہوئی تھیں اور وزارتیں بھی اہم جن میں خزانہ اور بلدیات شامل تھیں، اگر تحریک انصاف کی جگہ مولانا ہوتے تو وہ کبھی جماعت اسلامی کو وزارت بلدیات نہ دیتے، کیوں کہ فنڈز کے حوالے سے یہ وزارت زرخیز ہوتی ہے، پھر اس کے ذریعے عوامی رابطہ بھی مضبوط رہتا ہے، جماعت اسلامی کے جن لوگوں کو 2002ء میں مجلس عمل حکومت اور پھر گزشتہ دور میں تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت میں رہنے کا موقع ملا ہے، وہ تحریک انصاف کے ساتھ شراکت کو بہتر قرار دیتے تھے، لیکن اس کے باوجود مولانا کا انتخاب کیا گیا۔
مولانا فضل الرحمن کے ساتھ جانے کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہوا کہ جماعت اسلامی کے وزرا نے پی ٹی آئی حکومت میں رہ کر جو کام کئے اور پی ٹی آئی سے کرائے تھے، وہ ان کا کریڈٹ نہیں لے سکے، خیبر پختون میں پی ٹی آئی کی جیت میں عمران خان کی کرشماتی شخصیت کا کمال بھی ہے، لیکن وہاں کا ووٹر بہت باشعور ہے، اس نے کام کو بھی ووٹ دیا ہے، اگر وہ کام سے مطمئن نہ ہوتا تو عمران کی شخصیت بھی زیادہ کام نہ آتی، جس کام پر تحریک انصاف ووٹ مانگ رہی تھی، اسی کام پر جماعت اسلامی بھی مانگ سکتی تھی، لیکن مجلس عمل کے جال میں پھنس کر یہ اہم انتخابی کارڈ گنوا دیا گیا، الٹا اپنی ہی مخلوط حکومت کی کارکردگی پر جماعت اسلامی رہنمائوں کو تنقید کرنا پڑی، جس کا عوامی تاثر منفی ہی جانا تھا، جو گیا، خصوصاً امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے جس طرح الیکشن سے کچھ روز قبل ایک ٹی وی کو انٹرویو میں خیبر پختون حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو عملی صفر قرار دیا، اس کا بہت منفی پیغام خیبر پختون کے ووٹر کو گیا، لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوالات پیدا ہوئے کہ اگر حکومت کچھ نہیں کر رہی تھی تو جماعت اسلامی اس میں کیوں بیٹھی رہی۔ اسی طرح سراج الحق سب سے پہلے پاناما کیس سپریم کورٹ میں لے کر گئے تھے، لیکن مولانا کے ساتھ اتحاد میں پڑ کر انہیں ن لیگ سے بھی سمجھوتے کرنے پڑے اور یہ چیز بھی جماعت اسلامی کے خلاف گئی۔
الیکشن آئے اور گزر گئے، لیکن مجھ جیسے بندے کے لئے تشویش کی بات ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی نظریاتی جماعتوں کی کمی ہے، جن کی اسلام اور نظریہ پاکستان کے ساتھ واضح کمٹمنٹ ہو، ایسے میں جماعت اسلامی کا کمزور ہونا کوئی اچھا شگون نہیں ہوگا، جماعت اسلامی ایک بڑی سیاسی جماعت کبھی نہ رہی ہو، لیکن ایک مؤثر پریشر گروپ کی صورت میں موجود تھی، مگر اب اس کی یہ صلاحیت بھی کمزور پڑتی جا رہی ہے، وہ جماعت اسلامی جو ساری دنیا کے مسلمانوں کا درد محسوس کرتی نظر آتی تھی، ان کی مدد کے لئے اس کے قائدین جھولیاں پھیلا کر فنڈز جمع کر رہے ہوتے تھے، سچ پوچھیں تو اب اس کی قیادت سے کشمیر کا لفظ بھی مشکل سے ہی سننے کو ملتا ہے، اسی طرح نظریاتی طور پر جماعت کمزور ہوتی نظر آرہی ہے، الیکشن سے پہلے کی ٹوٹ پھوٹ اس کا مظہر ہے کہ قیادت اور کارکن میں فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔ جماعت اسلامی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اب بھی ملک کی واحد جمہوری جماعت ہے، جس کے اندر بھی جمہوریت موجود ہے، اس لئے اصل فیصلہ تو جماعت کے نظام نے کرنا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کو نئی توانائی حاصل کرنے کے لئے اب اصلاحات کی طرف جانا ہوگا، اس کا سب سے بڑا مرض سیاست کو ضرورت سے زیادہ حاوی کر لینا لگتا ہے، حالاں کہ سیاست اس کا پارٹ ٹائم کام ہونا چاہئے، یہ سیاست کو ضرورت سے زیادہ حاوی کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ امیر جماعت سراج الحق سینیٹر تھے، لیکن اس کے باوجود وہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لئے بھی میدان میں اتر گئے، حالاں کہ پارلیمنٹ وہ پہلے سے موجود تھے اور انہیں جماعت کی مہم پر فوکس کرنے کی ضرورت تھی نہ کہ وہ ایک حلقے کی سیاست میں الجھ جاتے، جماعت کا اصل مشن دین کا کام اور نظریاتی لوگوں کی تیاری ہونی چاہئے، جو اس کا خاصہ رہا ہے، اس کے لئے جماعت کو اپنے عہدیداروں پر کم از کم الیکشن لڑنے پر پابندی لگا دینی چاہئے تاکہ انتخابی سیاست سے ان کا براہ راست واسطہ ختم ہوجائے، وہ دین کے کام کے لئے یکسو ہوجائیں۔ انتخابی سیاست کے لئے الگ شعبہ قائم کردیں ، اس کے لئے الگ ٹیم بنا دیں، کیوں کہ الیکشن ایک پوری سائنس ہے اور یہ صرف انتخابات سے قبل چند ہفتے کرنے کا کام نہیں ہے، یہ کام سال کے 365 دن کرنے کا ہوتا ہے، جس میں عوام کے ساتھ میل ملاپ اور ووٹر لسٹوں سے لے کر الیکشن کمیشن تک کے معاملات شامل ہیں، جماعت اسلامی کی قیادت انتخابی ونگ کی رہنمائی و نگرانی کرے، اس کی مدد کرے، لیکن اس کا زیادہ فوکس دعوت اور دین کا کام ہو۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment