اسلام دین رحمت ہے (پہلا حصہ)

جولائی 2018ء کے دوسرے ہفتے میں ایک مرتبہ پھر مکہ مکرمہ جانے اور عمرہ کی سعادت حاصل ہو گئی۔ حرم شریف میں طواف، نمازیں اور قرآن پاک کی تلاوت کا اپنا ہی لطف ہے۔ میں ایک دن تلاوت کر رہا تھا کہ اس آیت پر نگاہیں ٹک گئیں:
ترجمہ: ’’میرے حبیب! جب آپ کے پاس ہماری آیات پر ایمان رکھنے والے آئیں تو ان سے کہیں تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت لازم کر لی ہے۔‘‘
میں کتنی ہی دیر تک اس آیت پر غور و فکر کرتا رہا کہ حق تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔
ترجمہ: ’’تم میں سے کوئی شخص لا علمی میں کوئی برا کام کر بیٹھے، پھر اس کے بعد وہ توبہ کر لے اور اپنی اصلاح کر لے تو یقینا وہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الأنعام:54)
حرم مکی میں ہر طرف مسکراتے چمکتے چہرے، مختلف زبانوں، رنگوں اور نسلوں کے لوگ اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے، اپنے گناہوں کو بخشوانے کے لیے اس کے دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ کوئی نوافل ادا کر رہا ہے، کوئی قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہے۔ قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر کر رہا ہے۔ جب انسان امید و رجاء کی کیفیت میں ہو تو ایسے عالم میں اگر کسی کو خوشخبری ملے اور وہ بھی قرآن پاک سے، بڑی خوبصورت نوید کہ خوش ہو جاؤ، تم جس کے گھر آئے ہو، وہ سب سے زیادہ سخی اور مہربان ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔ ایسی خوشخبریاں تازہ ہوا کے جھونکوں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہیں۔ میں کتنی ہی دیر تک اس آیت کو پڑھتا رہا، دہراتا رہا اس کے معانی و مطالب پر غور و فکر کرتا رہا۔ رب تعالیٰ سے دعائیں کرتا رہا کہ وہ امت اسلامیہ پر اپنی رحمتوں اور کرم نوازیوں کی برکھا برساتا رہے اور ہمیں بھی انہی خوش نصیبوں میں سے کر دے جن کو وہ اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لیتا ہے۔
قارئین کرام! ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہم اس ذات کو اپنا رب، اپنا الٰہ، اپنا مشکل کشا مانتے ہیں، جس کی صفت ارحم الراحمین ہے۔ جو رحمان الدنیا والآخرۃ ہے۔ میں کبھی کبھار نماز کے لیے رب کے حضور کھڑا ہوتا ہوں تو دل میں تصور کرتا ہوں، اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوتا ہوں، اپنے آپ سے کہتا ہوں: عبد المالک! تم کتنے خوش قسمت ہو کہ تم اس رب کی عبادت کے لیے کھڑے ہو جو رب السماوات والارض ہے، جو غفور رحیم ہے۔ پھر میں سوچنے لگ جاتا ہوں کہ میرے پاس کئی لوگ ہفتہ، پندرہ دن یا مہینہ بعد دفتر آتے ہیں۔ ہاتھ ملاتے ہیں، تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں ،گپ شپ لگانے کے بعد چل دیتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی کتاب یا چیز مانگتے ہیں تو میں فورًا کہتا ہوں اسے دے دیں۔ یہ ہمارا دوست ہے، ارے یہ تو ہمارے پاس آتا رہتا ہے۔ سال میں کتنی مرتبہ محض سلام کرنے یا ملاقات کے لیے آتا ہے۔ اگر ہمیں کوئی ہدیہ ملے تو ایسے شخص کا حصہ رکھتے ہیں اسے بھولتے نہیں۔ بلکہ اس کی عدم موجودگی میں کہتے ہیں: یار! فلاں شخص کتنے دنوں سے نہیں آیا۔ اس کا حال کیا ہے؟ اسے فون کرنا چاہیے، اس کی خیریت دریافت کرنی چاہیے۔
قارئین کرام! ذرا تصور کریں کہ ایک ایسی ذات جس کی بارگاہ میں ہم دن میں پانچ مرتبہ جاتے ہیں۔ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ ذات پاک جو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے، ان سے شفقت کرتا ہے۔ معاف کرتا اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ۔ جو معافی دے کر خوش ہوتا ہے جس کی صفت رحمان اور رحیم ہے تو پھر ہم کیوں نہ اس سے عمدہ گمان رکھیں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ وہ ہمیں جہنم میں نہیں پھینکے گا۔
قرآن کریم کے پانچویں پارے کی آخری آیت بھی قابل غور ہے:
ترجمہ : ’’اگر تم لوگ شکرگزاری کرو اور خلوص نیت سے ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا، اللہ تعالیٰ بڑا قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ (النساء:148)
قارئین کرام! ہماری خوش قسمتی ہے کہ اگر ہمارا رب رحیم و کریم ہے تو ہمارے پیارے نبی کریمؐ بھی اپنی امت پر نہایت مہربان اور شفقت کرنے والے ہیں۔ حق تعالیٰ نے ان کے بارے میں ہمیں خوشخبری دی: ’’ہم تو آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ وہ اپنی امت کے ساتھ، اپنے رشتہ داروں ، عزیز و اقارب، اپنی اولاد کے ساتھ نہایت محبت کرنے والے تھے۔ وہ پیارے نبی جنہوں نے پوری زندگی نہ عورت پر ہاتھ اٹھایا نہ کبھی غلام یا بچے کو مارا۔ اپنے پیارے رسولؐ کی اقتداء میں، ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی اولاد کے ساتھ محبت کرتا ہے تو وہ باپ اپنی اولاد میں نہایت محبوب ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ بعض باپ اپنی اولاد کے ساتھ غیر معمولی محبت کرتے ہیں۔ یاد رکھیے ایسا باپ اس دنیا کا سب سے زیادہ سعادت مند والد ہے۔ اس کی اولاد اس سے بے حد محبت کرتی ہے۔ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس کی خدمت کرتے ہیں۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment