ڈاکٹر جیمس نے جیسے ہی دریائے سندھ کا سفر مکمل کیا، اس کے فوراً بعد انگریز آرمی کے دیگر کئی افسروں نے بھی نہ صرف سندھ بلکہ بلوچستان کا بھی سروے کر کے اس کی رپورٹ ارسال کرنے لگے تاکہ آئندہ کی چال کے لئے منصوبہ بندی کر لی جائے۔ اس میں ڈاکٹر جیمس کا بھائی سر الیگزنڈر، ہنری پاٹنجر، جیمس میسن اور ہنری کوزنس جیسے چالاک اور عیار لوگ شامل تھے۔
پنجاب کا اس وقت کا حاکم رنجیت سنگھ سندھ میں انگریزوں کی حرکات و سکنات کا غور سے جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے بھی سندھ پر نظریں گاڑی ہوئی تھیں۔ اس کی خواہش تھی کہ سندھ پر حملہ کر کے اسے پنجاب سے ملا دیا جائے۔ اس کی یہ سوچ اس قدر پختہ ہو چکی تھی کہ اس نے انگریزوں سے کہا کہ اگر وہ اجازت دیں تو وہ سندھ پر آسانی سے قبضہ کر سکتا ہے۔ پھر وہ سندھ کا شمالی حصہ پنجاب سے ملا کر جنوبی حصہ انگریزوں کے حوالے کر دے گا۔ انگریز پہلے ہی سے رنجیت سنگھ کی نیت سے آگاہ تھے۔ انہوں نے پنجاب کے حکمران کو خبردار کیا کہ وہ اس معاملے میں اپنی ٹانگ نہ اڑائے۔
یہ وہ منزل تھی جہاں تالپوروں کی بھی آنکھیں کھلیں۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ جن انگریزوں کو وہ اپنا دوست اور محافظ سمجھتے ہیں، ان کے کیا عزائم ہیں۔ لیکن افسوس کہ وہ اب کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ وہ انگریزوں کے ساتھ کئے گئے عہد ناموں اور معاہدوں میں خود کو اس قدر بے دست و پا کر چکے تھے کہ اب ان کے لئے کچھ کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ وہ ان معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے تو انگریزوں کو ان پر حملہ کرنے کا بہانہ مل جاتا… انگریز چاہتے بھی یہی تھے۔ وہ موقع کی تلاش میں تھے کہ کسی طرح میروں پر چڑھائی کی جائے۔ ان عہدناموں میں سے ایک 20 اپریل 1833ء میں ہونے والے راضی نامے پر بھی دستخط کر چکے تھے، جس کی رو سے انگریزوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ بغیر کسی ٹیکس کی ادائیگی کے کوئی بھی زمینی اور آبی راستہ استعمال کر سکتے تھے۔
تالپور صاحبان کا آپس میں بھی اتحاد نہیں تھا۔ کوئی حیدرآباد کا حاکم تھا تو کوئی میرپور خاص کا۔ انگریزوں نے ان حالات کو خوب exploit کیا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے خیرپور کے میروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کر کے بکھر کے قلعے میں فوجی چھائونیاں قائم کر لیں۔ اب یہاں سے ان کے لئے شکارپور اور اس سے آگے بلوچستان، افغانستان تک پہنچنے کے لئے آسان گزرگاہ پیدا ہو گئی۔ اب انگریز حیدرآباد کے میروں کی اجازت کے بغیر اپنے سپاہی کراچی سے بکھر روانہ کرنے لگے۔
تالپور انگریزوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے، لیکن اب تک انگریز سندھ میں اپنے قدم مضبوطی سے جما چکے تھے۔ آخرکار تالپوروں نے لڑائی کے ذریعے انگریزوں کو سندھ سے بھگانے کا سوچا۔ 17 فروری 1843ء میں حیدرآباد کے قریب میانی کے مقام پر میدان سجا اور جنگ ہوئی۔ اس میں تالپوروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست کا سن کر میر شیر محمد تالپور غم و غصے کی حالت میں 24 مارچ کو اپنے سپاہیوں کے ہمراہ میرپور خاص سے حیدر آباد پہنچا۔ دبی کے مقام پر انگریزوں سے سامنا ہوا… تالپور یہ جنگ بھی ہار گئے۔ انگریزوں نے تالپور حاکموں کو گرفتار کر کے انہیں سورت اور کلکتہ بھیج دیا۔
سندھ کے بعد انگریزوں نے پنجاب کو بھی فتح کر لیا۔ اب ان کے سامنے افغانستان اور وسط ایشیا کے ملکوں تک پہنچنے کے لئے کوئی رکاوٹ حائل نہیں تھی۔ اس دوران انہوں نے کراچی بندرگاہ کو بہتر بنایا تاکہ یہاں انگلینڈ اور بمبئی سے آنے والے جہاز آسانی سے ٹھہر سکیں۔
عبرت اور ڈان کے کالمسٹ عزیز شیخ لکھتے ہیں:
’’سندھ کے حاکم سندھ کو بچا سکتے تھے، لیکن کئی سیاسی، انتظامی اور معاشی فیکٹر ان کے خلاف تھے۔ سندھ کے حاکم آپس میں لڑتے رہتے تھے، جس میں عام لوگوں کی موت واقع ہوتی تھی۔ لوگوں کے لئے روزگار کی فراہمی پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس لئے ہر وقت یہاں قحط جیسی صورت تھی۔ لوگ دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان تھے۔ تعلیم اور صحت پر کوئی توجہ نہیں تھی۔ لوگ بیماریوں اور موت کا شکار ہورہے تھے۔ امن و امان کی حالت بہتر نہ ہونے کے باعث لوگ ہر وقت خوف کا شکار رہتے تھے۔ ان تمام معاملات نے لوگوں میں مایوسی پیدا کر دی تھی۔ یہ احساس بھی شدت اختیار کر چکا تھا کہ حکمران ان کے ساتھ غلاموں والا برتائو کرتے ہیں۔ بس ان کو گویا ایک ہی کام تھا، محنت کر کے حاکموں اور ان کے خاندان کے افراد کے لئے آسائشیں پیدا کریں۔ یہی اسباب تھے کہ اس لڑائی میں عام لوگوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ نئے حاکم (انگریز) کا انہوںنے استقبال کیا تھا۔ انگریزوں کو پہلے ہی اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ سندھ کے حاکم اپنے عوام کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ وہ اپنے سکھ، آسائش اور عیاشی میں مگن ہیں۔ اس لئے جنگ کی صورت میں انہیں عوام کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘٭
٭٭٭٭٭