لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
اگر لکڑبگڑ کو کوئی گدھا مل جائے تو اسے زندہ نوچ نوچ کر کھاتے رہتے ہیں تاوقتیکہ گدھا نیم جاں ہو کر گر پڑے۔ یہی حال پاکستان کا ہے۔ سیاسی لکڑ بگڑ پاکستان کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ عوام کو مزاحمت کی تاب نہیں ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے سندھ میں ہونے والی وسیع کرپشن کا نوٹس لیا ہے۔ 15 اور بیس جون کو تین کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق:
(1) مہذب معاشرے اپنے شہروں میں عوام کے لیے وسیع رقبے پر پارک، رفاعی عمارتیں، کھیلنے کے میدان بنائے ہیں۔ کراچی میں ایسی کھلی جگہوں پر بااثر افراد نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اکثر میدانوں میں پلازے بنا کر انہیں فروخت کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے قبضہ کرنے والوں اور ان کی مدد کرنے والوں کے خلاف انکوائری کا حکم دیا ہے۔ چیف سیکریٹری سندھ کو حکم دیا ہے کہ قبضے کئے گئے ایک ایک پلاٹ کی معلومات حاصل کریں۔ اس کی تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کریں۔ جج صاحب نے کہا: آج کراچی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جس کا جی کرتا ہے، پلاٹ پر قبضہ کرکے وہاں بڑی بڑی بلڈنگیں کھڑی کر دیتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، کراچی کو خوبصورت بنانے کے پروگرام پر 250 ارب روپے خرچ کر دیئے گئے۔ بتایا جائے یہ روپے کہاں خرچ کئے گئے۔ کوئی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ کراچی کو برباد کر دیا گیا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ تمام تجاوزات پر بلڈوزر چلا کر انہیں گرا دیں۔ کراچی کی اس حالت زار پر عدالت کی توجہ ایک بوڑھے شہری جناب نعمت اللہ خان صاحب نے مبذول کرائی۔ اہل کراچی کو اس بوڑھے شہری کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
دوسرے کیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ میں اوپر نیچے، ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے۔ سرکاری اراضی کی بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ بغیر نیلام عام کے سرکاری اراضی دی جا رہی ہے۔ قبضہ مافیا پورا کراچی کھا گیا ہے۔ اب ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ آئندہ سرکاری اراضی کی فروخت قاعدے قوانین اور اصولوں کے مطابق ہوگی۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ یہ فروخت، کھلی ہوئی بدمعاشی ہے۔ گھر بیٹھے پلاٹ الاٹ کئے جا رہے ہیں۔ اب ہم کرپشن نہیں کرنے دیں گے۔ ہم ملک کو تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ حیرت کی بات ہے کہ زمین دو روپے فی ایکڑ دی گئی۔
ایک تیسرے کیس میں سندھ میں صحت کی حالت زار کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہورہا۔ تھر میں بچے مر رہے ہیں۔ اسپتالوں میں نہ ڈاکٹر ہیں، نہ دوائیں۔ کوئی اس کا ذمہ دار نہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل آئی جی کو انکوائری افسر مقرر کیا اور انہیں ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کو کہا۔ ڈاکٹر اور دوائیں نہ ہونے سے بہت سی اموات ہو چکی ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا: ان ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے۔
ہم لوگ ظلم بد کے ایسے عادی ہو چکے ہیں کہ اگر سیکڑوں بچے مر جائیں تو ہمارے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ ہمارے حکمرانوں کو معمولی بیماریوں کے علاج کے لیے یورپ اور امریکہ کے بہترین اسپتال میسر ہیں۔ سرکاری خرچے پر علاج کرواتے ہوئے انہیں ذرا شرم نہیں آتی۔ حکمران چالاک اور خود غرض تو بہت ہیں۔ مگر دور اندیش نہیں۔ انہیں قدرت کی سزائیں نظر نہیں آتیں۔ اگرچہ ان کی خود غرضی کی سزا پورے ملک کو ملتی ہے… مگر آخر میں وہ خود بھی محفوظ نہیں رہتے۔ بیرونی علاج قانونی طور پر جائز ہو سکتا ہے، مگر ہے تو سخت غیر اخلاقی۔
جب یہ لٹیرے حکمران خود بیمار پڑتے ہیں تو پاکستانی اسپتالوں میں علاج نہیں کرواتے۔ انگلینڈ اور امریکہ کے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور پھر عوام سے جن کی لوٹی ہوئی دولت سے علاج کرواتے ہیں، دعاؤں کی اپیل کرتے ہیں۔ ان کا جی چاہتا ہے کہ ہم سلامت رہیں ہزار برس۔
٭٭٭٭٭