پنجابی کی کہاوت ہے ’’پیڑاں ہور تیپھکیاں ہور‘‘ یعنی درد کسی اور چیز کا ہے اور پھکی کسی اور مرض کی دکھائی یا کھلائی جا رہی ہے، کچھ ایسا ہی معاملہ اپوزیشن جماعتوں کا لگتا ہے، جن کے اپنے اپنے سیاسی مرض ہیں، اہداف ہیں اور مفادات ہیں اور انہیں حاصل کرنے کے لئے وہ ایک دوسرے کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ دوسروں کے مرض کی قیمت پر صحیح پھکی کون سی جماعت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اور کس کے لئے پیڑ (درد) میں مزید اضافہ کا راستہ کھلتا ہے۔ ماضی میں تو پیپلز پارٹی اس معاملے میں کامیاب رہی ہے اور اس بار بھی اب تک اس کی پھکی زیادہ کامیاب نظر آرہی ہے، ماضی میں میثاق جمہوریت اور لندن اے پی سی کے نام پر پیپلز پارٹی نے ن لیگ سمیت اپوزیشن جماعتوں کو بائیکاٹ نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر خود پرویز مشرف سے این آر او کرلیا تھا، قرائن بتاتے ہیں اس بار بھی موقع ملا تو تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور ایک بار پھر ن لیگ سمیت اپوزیشن جماعتیں دیکھتی رہ جائیں گی، اس کے لئے بنیاد پی پی پی نے پہلے ہی رکھ دی ہے، اپوزیشن اجلاسوں میں اس کی دوسرے درجے کی قیادت شرکت کر رہی ہے، تاکہ جب بھی ضرورت پڑے یہ کہہ کر راستہ الگ کر لیا جائے کہ قیادت نے منظوری نہیں دی۔
خیر قارئین انتخابات تو ہو چکے ہیں، لیکن نتائج ایسے آئے ہیں کہ ہمارے موسمی سیاستدانوں کے لئے بہار آگئی ہے، انتخابی کھیل سے فارغ ہوتے ہی ان کے لئے سیاسی کھیل کا میدان کھل گیا ہے، ملکی تاریخ میں شاید پہلی بار اپوزیشن جماعتوں کے پاس اتنی نشستیں آئی ہیں کہ وہ حکومت سے تھوڑے فاصلے پر ہی موجود ہیں، بس اسی چیز نے نیا کھیل وقت سے پہلے شروع کردیا ہے، حکومت بننے سے پہلے ہی تگڑی اپوزیشن بن گئی ہے، اس کھیل کا ایک حصہ تو اسکرین کے سامنے ہے، جس میں متوقع حکومتی جماعت تحریک انصاف کے خلاف آپ کو اپوزیشن جماعتیں اتحاد کرتی نظر آتی ہیں، لیکن اس سے بڑا اور اصلی کھیل پس پردہ چل رہا ہے اور اس میں ان اپوزیشن جماعتوں کی حریف تحریک انصاف نہیں، بلکہ یہ خود ایک دوسرے سے کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں، اسکرین پر یہ اتحاد کے جتنے نظارے قوم کو دکھا دیں، اصل میں ان میں سے ہر جماعت کا دکھ الگ الگ ہے اور وہ اس کی دوا بھی الگ الگ ہی تلاش کر رہی ہیں، اس عمل میں ایک دوسرے کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے کی جنگ جاری ہے۔
ان میں سب سے اچھا کھیلنے کی کوشش پیپلز پارٹی کر رہی ہے، الیکشن میں اسے جثے سے بھی زیادہ حصہ مل گیا ہے، سندھ میں آسانی سے حکومت کا راستہ کھل گیا، لیکن اس کے باوجود وہ اپوزیشن اتحاد کی ٹیم میں بھی کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے، بلکہ کپتانی حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے، کپتانی حاصل کرکے ایک تو وہ بلاول کا سیاسی قد اونچا کرنا چاہتی ہے، جو لیاری اور مالاکنڈ میں شکست سے چھوٹا ہوگیا ہے، اس کا دوسرا ہدف پارٹی قائد آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے کھلے ہوئے کیس بند کرانا اور مزید کھلنے سے روکنا لگتا ہے، اس لئے توقع سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود وہ بھی آپ کو کچھ دیگر جماعتوں کے ساتھ دھاندلی دھاندلی پکارتی نظر آتی ہے۔ ویسے اگر سندھ میں بھی نتائج پنجاب کی طرح منقسم آتے، تو پیپلز پارٹی آپ کو دھاندلی کی آوازیں لگاتی نظر نہ آتی، بلکہ وہاں حکومت بنانے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہی ہوتی، منت سماجت کا پس پردہ سیشن چل رہا ہوتا، لیکن سندھ میں اکثریت ملنے سے اسے وہاں کی فکر نہیں رہی، اس لئے وہ دیگر جماعتوں کی فکر میں شریک ہوکر مزید کچھ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپوزیشن اتحاد کھیلنے سے اسے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ سندھ میں اس کی مخالف جماعتیں خصوصاً جی ڈی اے جو پیپلز پارٹی پر مینڈیٹ چوری کا الزام لگا رہی ہیں، ان کی آواز پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
اپوزیشن اتحاد کا ڈول ڈالنے والے مولانا فضل الرحمن کا دکھ تو پوری قوم جانتی ہے، وہ پندرہ برس بعد اسمبلی سے باہر ہو گئے ہیں، ان کی حالت دیکھ کر تو لگتا ہے کہ زندگی کی متاع ہی لٹ گئی ہے، کہاں وہ وزراء کالونی کا بنگلہ جو اتنے برسوں کے بعد مولانا کو ذاتی لگنے لگا ہوگا اور کہاں اب تو اپنے پلے سے رہنا ہی نہیں کھانا بھی پڑے گا، سو ان کا درد یہ ہے کسی طرح اسمبلی میں انہیں بھی پہنچایا جائے یا پھر باقی بھی نہ جائیں، یعنی مولانا نہ ہوں تو اسمبلی کی گیلریاں باقیوں کے لئے بھی سنجیاں ہو جائیں، ان میں کوئی اور مرزا یار بھی نہ پھر سکے، مولانا گلیاں سنجیاں کرنے کی کوشش میں تو ناکام رہے، لیکن اب وہ ضمنی الیکشن، بلکہ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ صدارتی الیکشن میں مشترکہ اپوزیشن کے امیدوار بننے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ بائیکاٹ کے اعلان سے مشترکہ امیدوار بننے کی خواہش کا سفر انہوں نے جس تیزی سے کیا ہے، وہ مولانا کی ’’اصولی‘‘ سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
باقی بچتی ہے ن لیگ تو اس کے مسائل حقیقی ہیں، اس کی قیادت جیل میں ہے، پنجاب بھی طویل عرصے بعد ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور کہانی یہاں رکتی نظر نہیں آرہی، بلکہ اب انہیں اپنے ارکان کنٹرول میں رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔ ن لیگ کی اس کمزور پوزیشن سے ہی پیپلز پارٹی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کیلئے سرگرم ہے۔ ن لیگ کے رہنما نجی طور پر اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں، لیکن وہ ایسی صورت حال کا شکار ہیں کہ انہیں اپوزیشن اتحاد کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، اس اتحاد کو وہ پارٹی جوڑے رکھنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ اب تک اس پر قائم ہیں کہ اپوزیشن لیڈر بلاول نہیں بلکہ شہبازشریف ہی بنیں گے، کیوں کہ اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت وہ ہیں، پیپلز پارٹی سودے بازی کی پوزیشن میں ہے، وہ شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر کے طور پر قبول بھی کرے گی تو اس کے بدلے سینیٹ کی چیئرمین شپ کا مطالبہ کرے گی، حالاں کہ وہاں بھی ن لیگ کے ارکان زیادہ ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ پی پی پی کے کھیل سے کیسے بچتی ہے، لیکن پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ بڑا چیلنج ن لیگ کے لئے گجرا ت کے چوہدری برادران ہیں، جو تحریک انصاف سے سیاسی اتحاد کی بدولت ایک بار پھر توانا قوت بن کر سامنے آرہے ہیں، چوہدری برادران کی ساری عمر ن لیگ میں گزری ہے، یعنی وہ گھر کے بھیدی ہیں، وہ دیہاتی مزاج اور رکھ رکھائو والے لوگ ہیں، اس لئے ن لیگ کے ارکان میں ان کی جڑیں اور اثرات موجود ہیں، وہ سیاسی جوڑ توڑ کے بھی ماہر ہیں، لہٰذا چوہدری پرویز الٰہی کی بطور اسپیکر پنجاب اسمبلی نامزدگی ن لیگ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے، پرویز الٰہی اپنی اس خواہش کو چھپا بھی نہیں رہے کہ وہ 2008ء میں شہباز شریف کی جانب سے قائد لیگ میں فارورڈ بلاک بنانے کا بدلہ لیں گے، انہوں نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں اس کی پہلی قسط بھی پیش کرنے کا اعلان کیا ہے، اگر وہ پہلے ہی مرحلے میں ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ن لیگ کو یکجا رکھنا شہباز شریف کے لئے بڑا چیلنج بن جائے گا۔ ٭
٭٭٭٭٭