انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ وفاق میں زیادہ نشستیں لینے والی تحریک انصاف حکومت سازی کیلئے آزاد اراکین اور قاف لیگ کے بعد ایم کیو ایم کو بھی اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف، دونوں حکومت بنانے کے دعوئوں پر قائم ہیں۔ ادھر مسلم لیگ ن، متحدہ مجلس عمل اور پیپلز پارٹی کی جانب سے متحدہ اپوزیشن تشکیل دینے کا اعلان ہوا ہے۔ جو وزیر اعظم اور اسپیکر و نائب اسپیکر کیلئے اپنا متفقہ امیدوار میدان میں لائے گی۔ الیکشن کے دس روز بعد بھی یہ طے نہیں ہو سکا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ انتخاب میں دھاندلی کے الزامات اپنی جگہ، تاہم جسے جہاں اکثریت ملی ہے، اسے حکومت بنانے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ یہی پارلیمانی نظام حکومت کا بنیادی اصول ہے۔ اس اعتبار سے وفاق اور خیبر پختون میں تحریک انصاف، پنجاب میں مسلم لیگ ن، سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) کو حکومت سازی کا موقع دینا چاہئے۔ مینڈیٹ کا احترام جمہوریت کی روح ہے۔ اس لئے تمام جماعتوں کو اپنے تحفظات اور اختلافات کے باوجود عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہئے۔ مگر ہمارے یہاں ہمیشہ ہارس ٹریڈنگ اور جوڑ توڑ کرکے دوسرے کا حق مارنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ جمہوری ممالک میں ملکی مفاد کے پیش نظر مختلف نظریات کی حامل جماعتیں بھی مل جل کر مخلوط حکومتیں بناتی ہیں۔ کئی یورپی ممالک میں عرصے سے اس قسم کی حکومتیں خوش اسلوبی سے کام کرتی آرہی ہیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر وفاق میں ایسی مستحکم اور مضبوط حکومت کی ضرورت ہے، جو معیشت کو سدھارنے کیلئے سخت فیصلے کر سکے۔ لیکن بد قسمتی سے عمران خان نے جہانگیر ترین، فواد چوہدری اور علیم خان جیسے رہنمائوں کو حکومت سازی کا کام سونپ رکھا ہے۔ ان کے سر پر وفاق کی مستحکم حکومت کے بجائے تخت لاہور پر قبضے کا بھوت سوار ہے، جو جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔ مسلم لیگ ن سے پنجاب چھیننے کیلئے ایک طرف تحریک انصاف نے قاف لیگ کو ساتھ ملا لیا ہے، حالانکہ ماضی میں عمران خان چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے رہے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی اس ایم کیو ایم سے اتحاد پر بھی مجبور ہوئی ہے، جس کی دہشت گردی کے خلاف ثبوت لے کر عمران خان لندن تک گئے تھے۔ دوسری طرف آزاد حیثیت سے جیتنے والے امیدواروں کے بعد مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والوں پر بھی ڈورے ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے اور فارورڈ بلاک بننے کی خبریں زیر گردش ہیں۔ جس کے جواب میں مسلم لیگ ن متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر وفاق میں تحریک انصاف کو حق حکمرانی سے محروم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس سارے پس منظر میں تانگہ پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کو بادشاہ گر کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ جمہوریت کی دعویدار جماعتیں ایک دوسرے کے حق حکمرانی کو تسلیم کریں اور جس جس حلقے میں دھاندلی کا شبہ ہے تو اس کیلئے قانونی راستہ اپنائیں۔ اس طرح وفاق اور چاروں صوبوں میں مستحکم حکومتیں قائم ہوسکتی ہیں، اسی سے ملک و قوم کا مفاد وابستہ ہے۔ ورنہ کمزور حکومت درپیش سنگین چیلنجز کا کسی صورت سامنا نہیں کرسکتی۔ واضح رہے کہ اس وقت ملکی معیشت انتہائی نازک صورتحال سے دوچار ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر صرف 10.3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ ملک مالی ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ جبکہ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور بجٹ خسارے کی شرح 2013ء میں چار فیصد تھی، جو اب بڑھ کر 10 فیصد ہو چکی ہے۔ سابق حکومتوں نے قرضوں کا پہاڑ کھڑا کر رکھا ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کیلئے مضبوط حکومت کی ضرورت ہے۔ اگر نئی حکومت ناکام ہوگئی تو یہ جمہوریت، پارلیمانی نظام اور تمام سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہوگی، جس کے نتیجے میں خدانخواستہ کسی تیسری قوت کیلئے بھی میدان ہموار ہو سکتا ہے۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کو رونے دھونے سے کچھ نہیں ملے گا۔
کیا شدت پسند پھر قوت پکڑ رہے ہیں؟
شدت پسندوں کے خلاف متعدد عسکری آپریشن کے بعد امن و امان کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی تھی کہ الیکشن مہم کے دوران پشاور اور کوئٹہ میں خود کش حملوں نے عوام کو پریشان کردیا۔ پھر عین الیکشن کے روز بھی کوئٹہ میں خود کش حملہ ہوا، جس نے سرکاری دعوئوں کو ہوا میں اڑا دیا۔ اب گلگت بلتستان جیسے حساس علاقے میں بھی کئی اسکولوں پر بیک وقت حملے ہوئے ہیں۔ جمعرات کی شب ہونے والے ان حملوں میں شدت پسندوں نے ضلع دیامر کے گیارہ اسکولوں کو نذر آتش کر دیا، جن میں سے چھ لڑکیوں کے اسکول ہیں۔ مقامی افراد نے متاثرہ اسکولوں کی تعداد تیرہ بتائی ہے۔ شرپسند عناصر ٹولیوں کی صورت میں تعلیمی اداروں پر حملہ آور ہوئے اور انہیں تباہ کر کے فرار ہوگئے، جن کی تلاش جاری ہے۔ اس واقعہ سے علاقے میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ مقامی افراد سراپا احتجاج ہیں اور بعض تنظیموں کی جانب سے بھی انتظامیہ کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ پہلے بھی اس علاقے میں اسکولوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ شدت پسند عناصر چونکہ بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، اس لئے لڑکیوں کے اسکول ان کے خصوصی ہدف بنتے ہیں۔ سوات میں بھی بچیوں کے اسکولوں اور کالجوں کو دھماکوں سے اڑایا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ مذہب کی رو سے علم کا حصول مرد و عورت دونوں پر فرض قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ ایسے عناصر اگرچہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ایسی گھنائونی وارداتیں کرتے ہیں، مگر ان کا مذہب سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ان تازہ وارداتوں سے عوام کے ذہن میں پھر سے یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا اتنے آپریشنوں اور قربانیوں کے بعد بھی دہشت گردوں کا نیٹ ورک قائم ہے اور وہ جہاں چاہیں حملے کر کے حکومتی دعوئوں کو ہوا میں اڑا سکتے ہیں؟ گلگت بلتستان کا شمار فرقہ واریت کے حوالے سے پاکستان کے حساس ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ جبکہ بھارت اس خطے کو بھی کشمیر کی طرح متنازعہ قرار دیتا ہے۔ اس لئے یہاں ہونے والی دہشت گردی میں بھارتی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں یہاں ایک بڑا ڈیم بھی زیر تعمیر ہے۔ جبکہ اس علاقے کو سیاحتی نقطہ نظر سے بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ دو ہزار تیرہ میں یہاں دس غیر ملکی سیاحوں کو بھی فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔ جس کے باعث سیاحت کے حوالے سے ملکی ساکھ کو عالمی سطح پر بہت نقصان پہنچا تھا۔ یہ علاقہ چونکہ چینی بارڈر کے ساتھ ملا ہوا ہے، اس لئے اسے سی پیک کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے۔ سی پیک کے کئی اہم منصوبے یہاں زیر تعمیر بھی ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بھارت سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے آزمانے پر تل چکا ہے۔ اس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے سی پیک کے خلاف ایک مستقل شعبہ قائم کر رکھا ہے۔ اس لئے ریاست کو اس پر فوری توجہ دینی چاہئے۔ اگر خدا نخواستہ یہاں شدت پسندوں نے قدم جما لئے تو ملک کیلئے گیم چینجر منصوبوں پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ دشمن کے ان مذموم عزائم کو ناکام بنانے کیلئے حکومت، ریاستی اداروں اور محب وطن سیاسی و مذہبی جماعتوں کو سر جوڑنا ہو گا اور ملکی مفاد کی خاطر سب کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ٭
٭٭٭٭٭